, 25 tweets, 6 min read Read on Twitter
محقق بریلوی کہتے ہیں :
نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا۔
ہدایت انسانی بشکل نبوت و رسالت جو انتظامِ ربانی تھا وہ سیدنا آدم سے شروع ہو کر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وعلی الانبیاء پہ اختتام پذیر ہوا، عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی مظبوط
اور غیر متزلزل بنیادوں پر استوار ہے اسی لیے تاریخ میں کبھی بھی مسلمانوں میں اس عقیدے کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا برداشت نہیں کیا گیا نبی کریم علیہ السلام کا مسیلمہ کذاب کے دعوی شرکت نبوت پہ فرمانا میں تمہیں یہ چھڑی بھی نہ دوں،
اسود عسنی وغیرہ ہر جھوٹے مدعی نبوت کو امت نے دھتکارا
مختار بن عبید ثقفی خود کو خادمِ اہلِ بیت کہتا تھا اور اس نے چن چن کر قاتلانِ امام حسین کو کیفرکردار تک بھی پہنچایا لیکن تقدیر الہی غالب آئی اور دعوی نبوت کر بیٹھا نتیجتاً خود بھی مسلمانوں ک ہاتھ اپنے انجام کو پہنچا،
مرزا قادیانی کا سفرِ نبوت (کاذبہ) بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے
ان کے اس سفر کا تذکرہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اس کے کذب و فریب سے بنیادی معلومات حاصل ہو جائیں اور یہ وہمِ باطل دور ہو کہ قادیانی آئین پاکستان کی وجہ سے مرتد ہیں حالانکہ ختم نبوت کے منکرین کے کفر و ارتداد کا فیصلہ آئین ربانی سے چودہ سو صدیاں پہلے کر دیا تھا
منصب نبوت تک پہنچنے سے پہلے مرزا مذہب و روحانیت کے دیگر مراحل سے گذرے اور جب اپنے گرد عقیدت کیشوں کی بھیڑ جمع کرلی تو دعوائے نبوت کیا، کتاب تبلیغ رسالت میں ان کے ابتدائی ایام کا بیان موجود ہے :
”میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر، اور
سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت ک کاذب اور کافر جانتا ہوں۔“
اپنے کو خالص مسلمان مشہور کرنے کے بعد مرزا قادیانی نے خود کو مجدد اور ولی ہونے کا سوانگ رچایا اور اس بات کی خوب تشہیر کرائی گئی اور ظاہر سی بات ہے کہ ولایت کے ساتھ
الہام، غیبی اشارے اور کشف کا ثبوت تو خود بخود ہی ہو جاتا ہے لیکن مرزا صاحب نے کشف وغیرہ کے لئے بھی ایسی اصطلاحات استعمال کیں جس نے بالواسطہ نبوت کی طرف خفیف سے اشارے ہونے لگے اور مذہبی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں تو مرزا نے معاملہ دبانے کی کوشش کی ”تبلیغ رسالت“ میں ہی
ان کا بیان مذکور ہے:
”ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور ”وحی نبوت“ نہیں بلکہ ”وحی ولایت“ جو زیر سایہ نبوت محمدیہ اور باتباعِ آنجناب ﷺ اولیاء اللہ کو ملتی ہے
اس کے قائل ہیں۔۔۔۔ غرض نبوت کا دعوی اس طرف بھی نہیں، صرف ولایت اور مجددیت کا دعوی ہے۔“
مقام ولایت و مجددیت پہ قدم جمانے کے بعد مرزا نے ”محدثیت“ کی طرف اڑان بھرنے کے ارادے سے اپنے حلقہ میں مقام ”محدثیت“ کا شوشہ چھوڑا کتاب روحانی خزائن میں سے اس حوالے سے ان کی دو عبارتیں ملاحظہ ہوں
”ہمارے سید و رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت ﷺ کوئی نبی نہیں آ سکتا اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔“
”میں نبی نہیں ہوں بلکہ اللہ کی طرف سے محدث اور اللہ کا کلیم ہوں تاکہ دین مصطفی کی تجدید کروں۔“
مقامِ محدثیت کے دعوے کے بعد مرزا اس حوالے سے
جو تشریحات کرتے ہیں ان میں باقاعدہ دعوی نبوت سے احتراز ہے لیکن اشارات بھی موجود ہیں مثلا بالفعل اور بالقوۃ کی بحث چھیڑنا، ”روحانی خزائن“ سے اقتسابات ملاحظہ ہوں:
”لوگوں نے میرے قول کو نہیں سمجھا اور کہہ دیا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ ان کا قول جھوٹ ہے۔۔۔۔
ہاں میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ محدث میں تمام اجزائے نبوت پائے جاتے ہیں لیکن بالقوۃ، بالفعل نہیں تو محدث بالقوۃ نبی ہے اور اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوجاتا تو وہ بھی نبی ہو جاتا۔“
محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے“
”محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتا ہے اور
ناقص طور پر نبی بھی“
مرزا صاحب کی یہ ساری لفظی موشگافیاں اپنے اوپر سے دعوی نبوت کے الزامم ہٹانے کے لیے تھیں اس کے باوجود الفاظ و اصطلاحات ایسی استعمال کی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں دعوی نبوت کا دروازہ بھی کھلا رہے گویا منصبِ نبوت کی وقعت کم کرتے ہوئے غیر نبی کے لیے بھی اس لفظ کے
استعمال کا لوگوں کو خوگر بنایا جا رہا تھا،
کچھ عرصہ مقامِ محدثیت و ناقص نبوت پہ براجمان رہنے کے بعد مرزا اکتا گئے تو خود کو مثیلِ مسیح بنا کر پیش کر دیا ”تبلیغ رسالت“ میں ہے ؛
مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعوی نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط ”مثیل مسیح“ ہوے کا
دعوی ہے جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسا ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے۔“
مجدد، ولی، محدث، مثیلِ مسیح کے بعد دعوی نبوت کو ایک زقند میں طے کرتے ہوئے کہا:
”میرا دعوی یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدائے تعالی کی
تمام پاک کتابوں میں پیش گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔“ (روحانی خزائن)
مرزا صاحب کے خلیفہ کا بیان بھی پڑھ لیجئے تاکہ مرزا کے دعوی نبوت کے متعلق کوئی شک ہو تو دور ہو جائے ”حقیقۃ النبوۃ‘ میں ہے:
پس شریعت اسلام نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب مجازی نبی
نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔“
یہاں تک مرزا کی نبوت کا پہلا دور تھا جس میں وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر دعوی نبوت کرتے ہوئے اپنی گمراہی پہ مہر ثبت کر بیٹھے
اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں اسلامی اصطلاحات پہ ہاتھ صاف کیا جاتا ہے اس کی تفصیل ان شاء اللہ رات میں۔
مرزا کی نبوت کی تکمیل کے بعد اب مسئلہ آسمانی کتاب کا تھا کہ بغیر کتاب کے نبوت ادھوری ادھوری معلوم ہو رہی تھی اگرچہ مریدین کو یہ جملہ رٹا دیا گیا تھا کہ سیدنا ہارون وغیرہ انبیاء کو جیسے کتاب نہیں دی گئی اسی طرح مرزا کو بھی نہیں دی گئی لیکن مسلمانوں کی آخری کتاب قرآن مجید کے ہوتے
ایسی توجیہات مریدین کے لئے مؤثر نہیں تھیں اسی لیے کبھی براہین احمدیہ، کچھی خطبہ الہامیہ تو کبھی البشری کو الہامی کتاب گردانتے، لہذا مردین کی دلبستگی کے لئے قادیان کے سالانہ جلسے میں میاں محمود نے مرزا کے الہامات (خرافات) کو جمع کرنے اور مریدین کو اس کی تلاوت کرنے کا حکم دیا
مرزا صاحب کو کتابی نبی بنانے کے بعد اگلے مرحلے میں صحابی کی اصطلاح پہ ہاتھ صاف کیا چنانچہ اخبار الفصل ج 24 میں اعلان شائع کیا گیا کہ
”پس ہر احمدی کو جس نے احمدیت کی حالت میں حضور (مراد مرزا کذاب ہے) کو دیکھا یا حضور نے اسے دیکھا‘ صحابی کہا جائے۔“
مسیح موعود اور کتابی نبی سے اگللے مرحلے میں مرزا کو نعوذ باللہ مقامِ محمدی کے پہلو بہ پہلو کھڑا کرنے کی گستاخی بھری جسارت کی گئی چناچہ المھدی خلیفہ میاں محمود کا بیان ہے :
”پس میرا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود اس قدر رسول کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلے کہ وہی ہو گئے۔“
اولاً پرتوئے محمدی لکھا پھر مقام محمدی سے بھی آگے بڑھ جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا :
”آنحضرت ﷺ معلم ہیں مسیح موعود ایک شاگرد، شاگرد خواہ استاد ککے علوم کا وارث پورے طور پر بھی ہو جائے یا بعض صورتوں میں بڑھ بھی جائے مگر بہرحال استاد ہی رہتا ہے۔“
آخر میں تمام فرق مٹاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ”ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں نہ نیا نبی نہ پرانا بلکہ خود محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی چادر دوسرے کو پہنائی گئی ہے اور وہ خود ہی آئے ہیں۔“ ( دیکھئے اخبار الحکم 30 نومبر 1901)
اور یوں مصلحِ قوم سے شروع ہوا سفرِ مرزا نبوت پہ ختم ہوا۔
*یہاں حوالہ نقل کرنے میں غلطی ہو گئی المھدی نہیں بلکہ یہ بیان ذکر الہی میں ہے۔
یہ تھریڈ ایک ہندوستانی ماہنامے میں مولانا عابد چشتی کے آرٹیکل کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا۔
Missing some Tweet in this thread?
You can try to force a refresh.

Like this thread? Get email updates or save it to PDF!

Subscribe to بنجارہ
Profile picture

Get real-time email alerts when new unrolls are available from this author!

This content may be removed anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just three indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!