نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا۔
ہدایت انسانی بشکل نبوت و رسالت جو انتظامِ ربانی تھا وہ سیدنا آدم سے شروع ہو کر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وعلی الانبیاء پہ اختتام پذیر ہوا، عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی مظبوط
اسود عسنی وغیرہ ہر جھوٹے مدعی نبوت کو امت نے دھتکارا
مرزا قادیانی کا سفرِ نبوت (کاذبہ) بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے
”میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر، اور
اپنے کو خالص مسلمان مشہور کرنے کے بعد مرزا قادیانی نے خود کو مجدد اور ولی ہونے کا سوانگ رچایا اور اس بات کی خوب تشہیر کرائی گئی اور ظاہر سی بات ہے کہ ولایت کے ساتھ
”ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور ”وحی نبوت“ نہیں بلکہ ”وحی ولایت“ جو زیر سایہ نبوت محمدیہ اور باتباعِ آنجناب ﷺ اولیاء اللہ کو ملتی ہے
مقام ولایت و مجددیت پہ قدم جمانے کے بعد مرزا نے ”محدثیت“ کی طرف اڑان بھرنے کے ارادے سے اپنے حلقہ میں مقام ”محدثیت“ کا شوشہ چھوڑا کتاب روحانی خزائن میں سے اس حوالے سے ان کی دو عبارتیں ملاحظہ ہوں
”میں نبی نہیں ہوں بلکہ اللہ کی طرف سے محدث اور اللہ کا کلیم ہوں تاکہ دین مصطفی کی تجدید کروں۔“
مقامِ محدثیت کے دعوے کے بعد مرزا اس حوالے سے
”لوگوں نے میرے قول کو نہیں سمجھا اور کہہ دیا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ ان کا قول جھوٹ ہے۔۔۔۔
محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے“
”محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتا ہے اور
مرزا صاحب کی یہ ساری لفظی موشگافیاں اپنے اوپر سے دعوی نبوت کے الزامم ہٹانے کے لیے تھیں اس کے باوجود الفاظ و اصطلاحات ایسی استعمال کی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں دعوی نبوت کا دروازہ بھی کھلا رہے گویا منصبِ نبوت کی وقعت کم کرتے ہوئے غیر نبی کے لیے بھی اس لفظ کے
کچھ عرصہ مقامِ محدثیت و ناقص نبوت پہ براجمان رہنے کے بعد مرزا اکتا گئے تو خود کو مثیلِ مسیح بنا کر پیش کر دیا ”تبلیغ رسالت“ میں ہے ؛
مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعوی نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط ”مثیل مسیح“ ہوے کا
مجدد، ولی، محدث، مثیلِ مسیح کے بعد دعوی نبوت کو ایک زقند میں طے کرتے ہوئے کہا:
”میرا دعوی یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدائے تعالی کی
مرزا صاحب کے خلیفہ کا بیان بھی پڑھ لیجئے تاکہ مرزا کے دعوی نبوت کے متعلق کوئی شک ہو تو دور ہو جائے ”حقیقۃ النبوۃ‘ میں ہے:
پس شریعت اسلام نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت صاحب مجازی نبی
یہاں تک مرزا کی نبوت کا پہلا دور تھا جس میں وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر دعوی نبوت کرتے ہوئے اپنی گمراہی پہ مہر ثبت کر بیٹھے
اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں اسلامی اصطلاحات پہ ہاتھ صاف کیا جاتا ہے اس کی تفصیل ان شاء اللہ رات میں۔
”پس ہر احمدی کو جس نے احمدیت کی حالت میں حضور (مراد مرزا کذاب ہے) کو دیکھا یا حضور نے اسے دیکھا‘ صحابی کہا جائے۔“
”پس میرا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود اس قدر رسول کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلے کہ وہی ہو گئے۔“
”آنحضرت ﷺ معلم ہیں مسیح موعود ایک شاگرد، شاگرد خواہ استاد ککے علوم کا وارث پورے طور پر بھی ہو جائے یا بعض صورتوں میں بڑھ بھی جائے مگر بہرحال استاد ہی رہتا ہے۔“
اور یوں مصلحِ قوم سے شروع ہوا سفرِ مرزا نبوت پہ ختم ہوا۔