کل دوران فیلڈ ایک دیہاتی علاقے میں میں ایک غریب گھر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہراتا دیکھا۔
میں نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کو کہا ۔
میری کولیگ ۔سر ہمارا یہ علاقہ نہیں ہے ۔
میں۔ میں ہو کہ اتا ہوں ۔
بیگ سے پارٹی بیج نکالا اور لگایا
اور گھر کا دروازہ ناک کیا
کچھ دیر بعد ایک بچی نکلی بہت پیاری معصوم سوالیہ نگاہوں سے میرا جائزہ لینے لگی اسی دوران اس کی نظر میرے لگے بیج پر پڑی۔
میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ تیزی سے پیچھے بھاگی۔
اس کی پرجوش اونچی آواز مجھے گھر سے باہر سنائی دے رہی تھی
اماں !
(یہاں ساری پنجابی گفتگو تھی )جھنڈے والا ایک لڑکا باہر کھڑا ہے ۔
اس نے بھی اپنے گھر والا جھنڈا لگایا ہوا ہے ۔
اماں ۔
وہ بھٹو جیسا نہیں لگتا ۔
اچھا اب چپ کر جلدی کر اپنی بہن کو کہ چاے تیار کرے اور اندر سے کرسی نکال میں اس کو لے آتی ہوں ۔
میں باہر کھڑا سوچ ہی رہا تھا
نا سوال !
نا کوئی بات !
بیٹا ۔
اندر آ جاؤ ۔
میں پیچھے چلتا ہوا داخل ہوا ۔
گھر کی حالت دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ کمانے کے وسائل نہیں ہیں ۔
صحن میں ایک کرسی جو جلدی سے نکالی گئی تھی ایک جوان سال لڑکی اسے آدھا صاف کرتے کرتے
میری نگاہیں پکے کچے مکان پر اونچے بانس پر لگے پرچم کو دیکھ رہی تھیں ۔
اس بانس کو تین جگہوں سے جوڑا گیا تھا ۔
لیکن جھنڈے کا کپڑا نیا معلوم ہوتا تھا ۔
جیسے کچھ دن پہلے ہی بنایا گیا ہو۔
اسی دوران ایک پرانی سلائی مشین بھی ایک پرانی چارپائی پر
میرا اندازہ درست تھا ۔
جھنڈا گھر میں ہی بنایا گیا ہے اور 2 دن پہلے بنایا ۔۔۔
میں کرسی پر بیٹھ چکا تو ماں جی میرے سامنے زمین پر بیٹھنے لگی تو ایکدم کھڑا ہوا اور اماں سے کہنے لگا ماں جی مجھے گناہ گار نا کریں۔
اس کی بے چین نگاہوں کو دیکھتے ہووے
پہلا سوال ہی یہی کیا کہ اماں جی آپ کے گھر پیپلز پارٹی ۔۔۔
میرا سوال کاٹ کر ۔
پتر ایک جھنڈا نہیں ۔
بڑی بیٹی کا نام بے نظیر ہے ۔
چھوٹی کا نام بختاور ہے ۔
کہ لڑکی جو چلی گئی تھی باہر آئ اور کھڑے کھڑے بتایا کہ میرے ابو 10 سال پہلے فوت ہو چکے ہیں ۔
وہ بھٹو صاحب کے بہت احسان مند تھے ۔
ہمارے نام ہمارے ابو نے ہی رکھے تھے ۔
مجھے اندازہ ہوا کہ لڑکی پڑھی لکھی ہے
بے نظیر نے کہا کہ میرے ابو 8 پڑھے ہووے تھے
اور ایک زمیندار کی منشی گیری کرتے تھے ۔۔
اور ریڈیو پر بھٹو صاحب کی تقریریں گھر چھپ کر سنتے تھے ۔
اور وقت کے ساتھ ان کے خیال تبدیل ہو گے ۔
اور میرے ابو پورے گاؤں میں جیے بھٹو کے نعرے لگاتے ۔
مار کھاتے ۔
منشی
گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی ۔۔
لیکن ابو ذوالفقار بھٹو کی محبت میں بہت آگے جا چکے تھے ۔
اسی دوران بجاے چاۓ کہ میٹھی لسی آ گئی ۔
میں نے بے نظیر کو کہا کہ وہ آگے تفصیل بتایے ۔
تسلسل جڑا اور کہنے لگی کہ ابو نے میری دادی کے کچھ زیورات بیچ کر بھٹو صاحب کی جہاں
دادی نے کچھ جانور رکھے ہوئے تھے جن سے گھر کا چولہا جلتا ۔
ابو کو ایک دن معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب کبیروالا آنے والے ہیں ۔
پھر کیا ان کی راتوں کی نیند غائب ہو گئی ۔
ایک عجیب سی خوشی میں رہنے لگے ۔
وہ دن عید کی طرح تھا جس دن بھٹو صاحب کبیروالا تشریف لائے
ابو اکڑتے شلوار قمیض میں رات سے ہی گھر سے نکل گے۔
اور جہاں جلسہ ہونا تھا وہیں رات کو قیام کا فیصلہ کیا کہ شاید قریب سے بھٹو صاحب
ابو ساتھ لائی چادر بچھا کر سو گے ۔
آدھی رات کو ابو کی آنکھ کھلی تو ان کے سارے کپڑے پانی سے خراب ہو چکے تھے ۔
اور پورا گراونڈ پانی سے بھرا ہوا تھا ۔
مقامی انتظامیہ نے جلسے گاہ میں پانی چھوڑ دیا تھا کہ جلسہ نا ہو سکے ۔۔
ابو کو پولیس والوں نے آدھی رات کو پکڑ کر مارا
سارا سفید سوٹ لہو سے لال اور کیچڑ سے بھرا ہوا تھا ۔
بھٹو صاحب آ گے صبح اور اسٹیج پولیس والوں نے اٹھا لیا تھا ۔
تو میرے ابو کو یہ سعادت ملی کہ ہزاروں لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے بھٹو صاحب جن کے کندھوں پر بیٹھے ان میں میرے بابا کا کندھا بھی شامل تھا
جلسے کے بعد بھٹو صاحب نے بابا سے کہا ۔
نوجوان تمھارے نعرے میں جان ہے ۔
کیا کرتے ہو ۔
بابا نے اپنے خون آلود کپڑوں کو دیکھ کر کہا سائیں آپ پر قربان ہونا ہے ۔
بھٹو صاحب نے اپنے ساتھ اے آدمی کو کہا کہ اس کی تفصیل لے لو ۔۔۔
اس وقت اماں دادی کے جانور بھی بک چکے تھے ۔
کوئی آمدنی کا وسیلہ نا تھا ۔
ڈاکیا ابو کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ملا ۔
اس زمانے میں 3000 (آج کا پچاس ہزار) اور ابو کی نوکری کا خط تھا ۔
اور بھٹو صاحب نے لکھا تھا اپنے بچوں کو پڑھانا ۔۔۔۔
ابو کو سکول میں
ہمارے گھر عید کا سماں ہو گیا تھا ۔۔۔
دادی اماں کا سر سجدے سے سر نا اٹھتا بھٹو صاحب کو دعائیں دیتے ۔۔۔
اب اماں نے بے نظیر کی بات کاٹی اور مجھ سوال کیا ۔۔۔
جی اماں !
میرے بیٹے بلاول کو تم نے دیکھا ہے کتنے قریب سے؟
جی اماں دیکھا ہے 10 فٹ کے فاصلے سے۔
سچی پتر؟
جی اماں وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ملتان میں۔
یہ سن کر وہ ایکدم سے کرسی سے اٹھی
اور میرے کچھ کہنے سے قبل ہی میری آنکھوں کے بوسے لینا شروع کر دئے۔۔
میں نے ساتھ کھڑی بے نظیر کو اشارہ کیا کہ ان کو سنبھالو۔
اس نے اماں کو اٹھایا۔اور خود بھی اپنے آنسوں پلو سے صاف کرتی ہووی اپنی ماں کو بٹھایا۔
کتنا بڑا ہو گیا ہے ؟
کیسا لگتا ہے ؟
غریبوں کا خیال رکھتا ہے ماں اور نانا کی طرح ؟
میں نے کوشش کی کہ اماں کی بلاول سے محبت بھرے سوالوں کا جواب دے سکوں ۔
بات کے دوران کوئی 100 مرتبہ اماں کے منہ سے ایک ہی بات نکلتی رہی شالا انھوں (بلاول) تتی واا نہ لگے ۔۔۔
میں بات کا رخ موڑنا چاہتا تھا کیوں کہ ان کے آنسوں مجھ سے دیکھے
میں نے پوچھا اماں اب روزگار کا کیا سلسلہ ہے ؟؟
پتر بھٹو دے خاندان دا کھا رے ہاں ۔
کیسے اماں ؟
بیٹا میرے خاوند کی پنشن ہر مہینے آتی ہے جو میں وصول کرتی ہوں ۔
اور میرا بے نظیر کارڈ بھی بنا ہوا ہے۔
تے دس پتر ہن ؟
کس دا کھاندے پئے ہاں ؟
میں چپ۔
یہ جھنڈا دیکھ رہے
35 سال سے ہمارے گھر پر لگا ہوا ہے ۔
جھنڈے کی جگہ ضرور تبدیل ہووی ہے لیکن جھنڈا نہیں ( کتنی گہری بات)
پتر میرے میاں کی وصیت تھی کہ میرے مرنے کے بعد بھی اس کو لگے رہنا ہے۔
بازار سے تو ملتے نہیں
یہی بے نظیر کپڑا لاتی ہے اور خود سیتی ہے ۔
میں نے کن انکھیوں سے پاس کھڑی بے نظیر
اس نے معلوم نہیں کیا مطلب لیا اور کمرے سے ایک تہہ شدہ صاف ۔
پارٹی کا جھنڈا اٹھا لائی اور کہنے لگی
بھائی !
یہ بہن کی طرف سے تحفہ ہے آپ نے ضرور گھر لگانا ہے ۔
میں اسے کیا بتاتا کہ پہلے ہی لگا ہوا ہے ۔
میں نے شکریے کے ساتھ لے کر بیگ میں ڈال لیا۔
میں سوچ
ان کی محبت کے سامنے سب ہیچ ہے ۔
بیٹا ہن دس کی کم سی ؟؟
اماں کے سوال نے مجھے خیالات سے نکالا اور جواب دیا کہ بس اماں جی پیاس لگ رہی تھی آپ کا گھر دیکھا تو گاڑی روک کر پانی پینا تھا ۔
پتر !
توں نہ دس اصل گل تیری مرضی!پر
پتر جب بھی بلاول سے ملنا ۔
اسے کہنا تیری دو بہنیں اور ایک ماں تجھے سلام پیش کر رہی تھیں ۔
اور اسے بتانا کہ روزانہ تہجد میں تیری سلامتی عافیت کی دعا کرتی ہے ۔
جی اماں ضرور انشااللہ میں کوشش کروں گا ۔
اتنے میں بے نظیر ٹھنڈا پانی پھر جگ بھر کر لائی ۔
اور اس نے
میں نے اس بھی وعدہ کر لیا ۔
وہ سادہ معصوم لوگ مجھے گاڑی میں اور سینے پر پارٹی بیج دیکھ کر پارٹی کا کوئی اہم آدمی سمجھ رہے تھے ۔
اور میں ان کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا ۔۔
بیٹا پھر کب آؤ گے ؟
مجھے بلاول کے بارے اگاہ کرنے۔
بے نظیر
کیوں کہ ہمارے پاس نیٹ والا موبائل نہیں ہے ۔۔۔
جاری ہے 👇👇👇
میں نے مزید کریدنے کی خاطر سوال کیا۔
اماں ۔کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو جس میں آپ کو پارٹی کے حوالے سے کوئی خوشی ؟
اس کا جواب پھر اسی لڑکی نے دیا
یہاں ہراج گروپ ہے(رضا ہراج ) جس نے بی بی شہید کو دھوکہ دیا تھا۔
اس نے 2013 کے الیکشن میں میں کہا تھا کہ اس پولنگ پر کسی اور پارٹی کا ووٹ نہیں نکلنا چاہیے ۔۔
ہم ماں بیٹی نے اس کے غرور کو توڑنے کے لیے محنت شروع کر دی ۔
راتوں کو خواتین سے ملتی ۔
ان کو قائل کرتی تھیں ۔۔۔
تو رات کو اس کے بندے ہمارے گھر کے سامنے نعرے لگا رہے تھے ضد کی وجہ سے ۔
مجھے اس دن بڑی خوشی ہووی کہ ہم نے اپنے طور پر دھوکے باز سے بدلہ لے لیا ہے ۔
اب 18 میں بھی ہمارے پولنگ پر تیر کے 95 ووٹ نکلے
نہیں پتر ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں ووٹ اس لیے تیر کو کہ یہ بی بی کا نشان ہے ۔
پھر کوئی بھی ہو ہمیں کوئی لینا دینا نہیں۔
ہم تو مہر لگا کر مرحومہ بی بی کا قرض اتارتے ہیں۔
ہمارا میٹر بجلی والا کاٹ کر لے گے تھے واپڈا والے کہ ہراج
پتر دعا کر بس عمرہ کر لواں۔
ہر بار پیسے جوڑتی ہوں تو کوئی اور خرچہ نکل اتا ہے۔۔
بس یہی دل میں ہے ۔
اور اس کے ہاتھ پیلے کر دوں ۔
اب پیسے جوڑے تھے جو اس کی شادی پر خرچ ہو جائیں گے ۔
پھر شروع کروں گی جوڑنا
ہک واری ہراج نے مینو آکھیا ۔
عھدہ ایک بندہ آیا سی کہ تینوں اسی بھیجدے ہاں عمرے تے توں بس ایہ جھنڈا لہ دے تے میری سپورٹ کیتی کر ۔
میں آکھیا میں لعنت کرینی ہاں ترے اس اکھے تے ۔
( جیو اماں)
میں نے کہا آماں مجھے ۔
اور پارٹی کے لوگوں کو آپ پر فخر ہے ۔
میں سلام
اپنے مشن کو خاوند کی وفات کے بعد بھی نہیں رکنے دیا ۔۔
گفتگو کا سلسلہ مزید جاری رہتا اگر آفس سے کال نہ آتی کہ آپ ایک گھنٹے سے زیادہ گاڑی روک کر ایک گھر میں بیٹھے ہیں کیا آج آپ نے کام نہیں تو آفس واپس آ جائیں ۔۔
😭
اماں سے ڈھیر ساری دعائیں اپنے لیے لیں
اور بلاول سائیں تو مرکز تھے ان کی دعا کے ❤
اماں سے پھر آنے کا وعدہ کیا ۔
اماں نے صرف صرف صرف اس لیے نمبر لیا کہ بے نظیر کی شادی پر آپ کو بلاؤں گی ۔
میں نے بھی وعدہ کیا ۔
(جہاں بے نظیر کا نام اے جان بھی قربان)
میں سلام پیش کرتا ہوں اس خاندان
آپ بھی تمام جیالے ان کو خراج تحسین پیش کریں ۔۔۔❤❤❤
خدا وند ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔
جیۓ بھٹو ۔
جیۓ بلاول ۔
جیۓ آصف زرداری ۔
جیون جیالے ۔۔
واسلام ۔
تحریر ۔
رانا ذوالفقار نون