قاصد نے دمشق پہنچ کر ایک عالی شان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔
یہ دیکھ کر اس نے لوگوں سے پوچھا ۔
" کیا یہ بادشاہ کی رہائش ہے ؟ "
لوگوں نے
" یہ تو مسجد ہے اور تو نماز نہیں پڑھتا کیا ؟ "
" نہیں۔۔۔۔۔ میں تو اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکار ہوں۔ "
یہ سن کر لوگوں اسے خلیفہ کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔
قاصد لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے خلیفہ کے گھر جا پہنچا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک
یہ دیکھ کر وہ جس راستے سے آیا تھا ، واپس اسی راستے سے ان لوگوں کے پاس جا پہنچا جنھوں نے اسے راستہ بتایا تھا۔
اس نے لوگوں سے کہا۔
" میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتا پوچھا
لوگوں نے کہا۔
" ہم نے تجھے پتا ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔ "
قاصد نے بے دلی سے دوبارہ اسی گھرپر جا کر دستک دی۔ جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا، وہی اند ر سے نمودار ہوا۔
" میں سمرقند
اس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا ۔
" عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام !
ایک قاضی کا فوری طور پر تقرر کرو ، جو پادری کی شکایت سنے۔ "
پھر مہر لگا
قاصد وہاں سے چل تو دیا ، مگر وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا ۔
" کیا یہ وہ خط ہے ، جو مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟ "
سمرقند لوٹ کر قاصد نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی۔ خط تو اسی
حاکم نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی کا تقرر کر دیا ، جس کا نام جمیع
موقع پر ہی عدالت لگ گئی۔
ایک چوب دار نے قتیبہ کا نام کسی لقب و منصب کے بغیر پکارا۔ قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔
قاضی نے سمرقندی سے پوچھا۔
" کیا دعویٰ ہے تمھارا ؟ "
پادری نے کہا
قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا۔
" کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟ "
قتیبہ نے کہا ۔
" قاضی صاحب ! جنگ تو ہوتی ہی فریب اور
قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا ۔
" قتیبہ ! میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟ "
قتیبہ نے
" نہیں قاضی صاحب ! میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ "
قاضی نے کہا .
" میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔
قتیبہ ! اللہ تعالیٰ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا ، وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔
چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت اور
اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے، جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔
لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے
اور اُس دن جب سورج ڈوبا ، تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، انھیں ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات
تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور انھیں واپس لے آئے۔
اور یہ سب
دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
ماخوذ ۔۔۔۔۔
قصص من التاریخ۔۔۔۔۔ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ