یہ بات عام سننے کو مل رہی ہے
چند حقائق کو جان لیں پھر اس پہ تبصرہ کریں !
اسرائیل ستمبر 1948میں قائم ہوا
ترکی نے اسے 1949میں تسلیم کر لیا
کیسے؟
ترکی اس وقت معاہدہ لوزان کے مطابق ایک مسلم نہیں بلکہ سیکولر ملک تھا
ترکی اس وقت ایک مرد بیمار🔻
اسرائیل کا اصل تنازعہ عربوں سے تھا اور آل سعود اس وقت بھی اسرائیل کے حمایتی تھے
ترکی کا براہ راست اسرائیل سے کوئی جھگڑا نہیں تھا
ترکی نے مگر اسرائیل کو بطور ایک جمہوری ریاست کے کبھی تسلیم کیا نہ ہی اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ🔻
رجب طیب کی حکومت آنے کے بعد ترکی نے اسرائیل کو باقاعدہ دھمکیاں دے کر اس کی اوقات میں رکھا ہے
ترکی اب بھی فلسطینیوں کا پرجوش حامی اور حمایتی ہے
ایاصوفیہ کے افتتاح پہ طیب اردوگان نے باقاعدہ اعلان کیا کہ اگلی باری مسجد اقصی کی ہے
کیا کوئی عرب ملک اسرائیل کے خلاف ایسی بات کر🔻
ترکی کا اسرائیل سے کوئی بارڈر نہیں ملتا
ترکی فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے اور عربوں سے کہیں زیادہ کرتا ہے
اس وقت اسرائیل صرف ترکی،ایران, پاکستان اور ملائیشیا کو ہی اپنے مدمقابل اور دشمن سمجھتا ہے
عرب ممالک تو اس نے تباہ کر دئیے اورجو باقی بچے وہ اس کے اتحادی ہیں🔻
ترکی ہمارا برادر ملک ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق عالم اسلام کی قیادت اب ترکی اور پاکستان کے ہاتھ میں ہے
اس لئے کوئی ایسی بات مت کریں جس سے ترک بھائیوں کو دکھ ہو