٢٠١٨ میں ہر روز ١٠ بچوں کو جنسی زیاتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا. یہ غلیظ ذہنیت جو بچوں کو بھی نہیں چھوڑتی کسی کو پھانسی دینے سے یا قانون سازی سے نہیں ختم ہوگی. زینب, زین.. ہم کتنے معصوم بچوں کے لئے سوشل میڈیا پر آواز بلند کرینگے. ہمارے ہی معاشرے میں یہ بدکاری ہے. اس کو ختم
کرنے کے لئے:
١. ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر وہ باتیں کرنی ہونگی جو ان کی ذہنی اور جسمانی حفاظت کے لئے ضروری ہے; ٢. ریاست کو فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹریننگ میں تبدیلیاں لانی ہونگی, خاص کر وقتی تحقیقات اور حساسیت ے معاملہ مد نظر رکھتے ہوے; ٣. بحیثیت ایک شہری
ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو رپورٹ کریں اور اگر ہمارے ارد گرد ایسے کوئی واقعات سامنے ہو تو ہماری مداخلت لازمی ہے; ٤. ہمارے سکولوں اور گھروں میں بچوں کو باقاعدہ سمجھایا جائے کہ چاہے کوئی رشتےدار ہو یا کوئی اجنبی اگر وہ کسی بھی صورت حال میں مضطرب ہو, تو اس کا اظہار
کرے کسی با اعتماد شخص سے یعنی اپنی والدہ, والد یا اگر بچے کو گھر کے اندر ہی ایسے مسائل ہو تو حکومتی ہیلپ لائن سے رابطہ کریں.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
Travelling over 1500 kilometres to have your voices heard is no simple journey. Sleeping under the open sky in the freezing cold for over a month is courage and commitment most people cannot dream of having. During the Oppressed Peoples Conference at NPC organized by BYC, the
chill got into my bones - i was there for two to three hours at most. Around me, i saw elderly women and men holding photographs of their forcibly disappeared children; i heard young girls and women whose voices repeatedly conveyed a demand for justice, truth and accountability
only to be met with complete apathy by this criminal enterprise we call the State of Pakistan. These brave Baloch protestors announced today that they have ended their camp after over 50 days of peaceful resistance in the Federal Capital. When they arrived in Islamabad, they were
پرویز الٰہی کے گھر اور اہل خانہ پر حملہ قابل مذمت ہے۔ لیکن اسے "فسطائیت کی بدترین شکل" قرار دینا پنجاب اور "peripheries" کے درمیان disconnect کی نمائندگی کرتا ہے۔ حقوق کی خلاف ورزیوں کا موازنہ نہیں ہونا چاہیے - کسی بھی حقوق کی خلاف ورزی کی مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن پنجاب کے لوگوں
کو ان تمام مظالم کے بارے میں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو آج بھی "peripheries" میں جاری ہیں۔ ماہل بلوچ اب بھی غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں۔ اختر مینگل کو کمرہ عدالت میں لوہے کے پنجرے میں بند کیا گیا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سے جلیل ریکی اور غفار لانگو کی لاشیں لاپتہ ہونے کے
بعد گولیوں سے چھلنی ہوئی ملیں. راشد حسین کے خاندان کے گھر پاک فوج نے مکمل طور پر تباہ کر دیے۔ یہ سب غلط ہے لیکن حقیقت میں اسے روکنے کے لیے ہمیں پنجاب سے باہر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر تشدد اور persecution کی بدترین شکلوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہیں سے کہانی شروع ہوتی
کل میرے والد کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 4 ماہ ہو چکے۔ آج عید ہے اور میں اپنے ابا کو بہت یاد کر رہی ہوں۔ لیکن جب میں ابا کو یاد کرتی ہوں، مجھے یہ تسلی ملتی ہے کہ میں ابا کو گلے لگا سکی, ان کو بتا سکی کہ میں ان سے کتنا پیار کرتی ہوں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان کا خیال رکھ سکی۔ آپ کو
کبھی نہیں لگتا کہ جو وقت ملا وہ کافی ہے لیکن ان خاندانوں کی کیا تقلیف ہوگی جو آج بھی اپنے لاپتا پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں... وہ خاندان جنہیں اپنے پیاروں کی گمشدگی کے برسوں بعد مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ وہ خاندان جو ہر عید پر اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے نئے کپڑے تیار کرتے ہیں.
وہ خاندان جو اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے پورے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ کیا ان کے پیارے زندہ ہیں. اس سے بڑی اذیت کوئی نہیں۔ اس انتظار سے بڑا کوئی درد نہیں۔ آج لاپتہ افراد کے خاندانوں کو اپنی دعاؤں میں صرف یاد
Thinking of the 1000s of families of the disappeared this Eid who will keep looking towards the door in anticipation that their loved ones may just walk in.
The only constant in their lives is waiting...for proof of life, for a dead body, for answers. #EndEnforcedDisappearances
Thinking of Rahat aunty & Sachal who have approached every forum for any information on Mudassar Naaru. #FindNaaruAlive
Thinking of Buss Khatoon, who despite old age and ailing health, has travelled far and wide to find out where her son, Rashid Hussain, is. #SaveRashidHussain
Thinking of Noor Bux and his family who have been waiting for the return of their 17 year old son, Feroz Baloch, who they sent to Arid Agriculture University Rawalpindi for a better future. He was last seen on 11 May 2022. #ReleaseFerozBaloch
یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن رہا ہے۔ اور یہ جواب اُن سب کے لیے بھی جن کے لیے ریاستی جبر اپریل 2022 میں شروع ہوا ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ پی ٹی آئی کے لیے اپریل 2022 میں جبر شروع ہوتا ہے جب ان کی حکومت کا
تختہ الٹ دیا گیا تھا (جیسا کہ سیاسی تاریخ بھی 2008 سے شروع ہوتی ہے اور آمر جنرل مُشرف کے تمام سیاسی سہارے اور آمر جنرل ایوب اور جنرل ضیا کی اوّل اولادیں پی ٹی آئی کا حصہ ہیں) لیکن براہِ کرم میری ٹائم لائن پر مجھے نہ بتائیں کہ کس چیز کی مذمت کرنی ہے، کیسے مذمت کرنی ہے اور کس کے
لیے آواز اٹھانی ہے۔ میں آپ سے بہت بہتر یہ جانتی ہوں کیونکہ پچھلے چار سال جب آپ فوج کے cheerleaders بن کر ان کے ہر ظلم کا دفاع کر رہے تھے تو مجھ جیسے لوگ اس جبر کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ اس وقت آپ بوٹ پالش کرنے اور فوج کی طرف سے ہر زیادتی کا جواز پیش کرنے میں مصروف تھے۔ اب آپ
آصف غفور دراصل بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی نفری بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں. خواتین کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے بھاری پڑے گا صرف انہیں نہیں بلکہ ہم سب کو. جس طرح بنگلہ دیش میں جہاں ہماری فوج نے ریپ کو weapon of war کے طور پر استعمال کیا۔
ہمارا سر آج بھی اس war کرائم کی وجہ سے جھکا ہوا ہے۔
شہنشاہِ اعظم جناب جنرل غفور صاحب بلوچستان میں بلوچ خاتون ماہل کو گرفتار کرکے اور اس کے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کر کے کونسا سٹریٹجک ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ جو کسی stage پر یا تو واپس لے لی جائے گی یا منسوخ کر دی جائے
گی۔۔ ہم نے یہ پہلے دیکھا ہے پرامن کارکنوں، طلباء، خواتین اور بزرگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے سے بلوچ عوام میں پاکستان کے خلاف مزید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اگر conflict میں شدت پیدا کرنا مقصد ہے جس کو بظاہر فوج حاصل کرنا چاہتی ہے، تو غفور صاحب کے بطور کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدہ کے تحت