٢٠١٨ میں ہر روز ١٠ بچوں کو جنسی زیاتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا. یہ غلیظ ذہنیت جو بچوں کو بھی نہیں چھوڑتی کسی کو پھانسی دینے سے یا قانون سازی سے نہیں ختم ہوگی. زینب, زین.. ہم کتنے معصوم بچوں کے لئے سوشل میڈیا پر آواز بلند کرینگے. ہمارے ہی معاشرے میں یہ بدکاری ہے. اس کو ختم
کرنے کے لئے:
١. ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر وہ باتیں کرنی ہونگی جو ان کی ذہنی اور جسمانی حفاظت کے لئے ضروری ہے; ٢. ریاست کو فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹریننگ میں تبدیلیاں لانی ہونگی, خاص کر وقتی تحقیقات اور حساسیت ے معاملہ مد نظر رکھتے ہوے; ٣. بحیثیت ایک شہری
ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو رپورٹ کریں اور اگر ہمارے ارد گرد ایسے کوئی واقعات سامنے ہو تو ہماری مداخلت لازمی ہے; ٤. ہمارے سکولوں اور گھروں میں بچوں کو باقاعدہ سمجھایا جائے کہ چاہے کوئی رشتےدار ہو یا کوئی اجنبی اگر وہ کسی بھی صورت حال میں مضطرب ہو, تو اس کا اظہار
کرے کسی با اعتماد شخص سے یعنی اپنی والدہ, والد یا اگر بچے کو گھر کے اندر ہی ایسے مسائل ہو تو حکومتی ہیلپ لائن سے رابطہ کریں.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
مجھے یاد ہے جب پی ٹی آئی کا دور تھا تو ایک سویلین کو خط لکھنے پر اس کے گھر سے اٹھا کر فوجی تحویل میں ٹرانسفر کردیا۔ اس کا صرف کورٹ مارشل نہیں بلکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوا (جو کے سب سے ہائی لیول کورٹ مارشل ہوتا ہے) ایک خط لکھنے پر اور اسے سزا سنا کر ساہیوال ہائی سیکورٹی جیل میں
اپنے بوڑھے ماں باپ کی پہنچ سے دور رکھا گیا کہ وہ اسے ملاقات بھی نا کر سکے۔ اس کے باوجود کے جیل مینول کے مطابق تمام کورٹ مارشل قیدیوں کو اپنے ہوم ڈسٹرکٹ کے قریب فوراً ٹرانسفر کیا جانا چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں بہت طویل قانونی جدو جہد کے بعد اس کو اڈیالہ جیل
ٹرانسفر کرنے کا آرڈر ہوا تو آرڈر پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور توہین عدالت مقدمے کی سماعت کرنے سے پنڈی بینچ کے ججز انکاری تھے۔
اس ہی طرح ادریس خٹک کو بھی پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پہلے جبراً لاپتہ کیا گیا اور پھر انہے کورٹ مارشل کیا گیا۔ وہ آج بھی قید کاٹ رہے ہے جبکہ انکا کورٹ
The Council of Islamic Ideology’s latest statement on VPN highlights one of Pakistan’s oldest & biggest problems: the Mullah-Military Alliance.
Clerics and religious right-wing have consistently been used by Pakistan’s powerful military to carry out its agenda.
Just so we are
clear, remember that the CII felt it important to issue a statement deeming use of VPNS haraam but hasn’t uttered a single word about thousands of Pakistan’s forcibly disappeared. So as per the great moral compass that is the CII, safeguarding against surveillance & protecting
our privacy is haraam but the military establishment removing thousands of people from protection of law must be halaal because the CII hasn’t given a fatwa on it yet.
Interestingly, the CII has also chosen to remain silent on the Blasphemy Business Group which has put
Travelling over 1500 kilometres to have your voices heard is no simple journey. Sleeping under the open sky in the freezing cold for over a month is courage and commitment most people cannot dream of having. During the Oppressed Peoples Conference at NPC organized by BYC, the
chill got into my bones - i was there for two to three hours at most. Around me, i saw elderly women and men holding photographs of their forcibly disappeared children; i heard young girls and women whose voices repeatedly conveyed a demand for justice, truth and accountability
only to be met with complete apathy by this criminal enterprise we call the State of Pakistan. These brave Baloch protestors announced today that they have ended their camp after over 50 days of peaceful resistance in the Federal Capital. When they arrived in Islamabad, they were
پرویز الٰہی کے گھر اور اہل خانہ پر حملہ قابل مذمت ہے۔ لیکن اسے "فسطائیت کی بدترین شکل" قرار دینا پنجاب اور "peripheries" کے درمیان disconnect کی نمائندگی کرتا ہے۔ حقوق کی خلاف ورزیوں کا موازنہ نہیں ہونا چاہیے - کسی بھی حقوق کی خلاف ورزی کی مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن پنجاب کے لوگوں
کو ان تمام مظالم کے بارے میں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو آج بھی "peripheries" میں جاری ہیں۔ ماہل بلوچ اب بھی غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں۔ اختر مینگل کو کمرہ عدالت میں لوہے کے پنجرے میں بند کیا گیا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سے جلیل ریکی اور غفار لانگو کی لاشیں لاپتہ ہونے کے
بعد گولیوں سے چھلنی ہوئی ملیں. راشد حسین کے خاندان کے گھر پاک فوج نے مکمل طور پر تباہ کر دیے۔ یہ سب غلط ہے لیکن حقیقت میں اسے روکنے کے لیے ہمیں پنجاب سے باہر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر تشدد اور persecution کی بدترین شکلوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہیں سے کہانی شروع ہوتی
کل میرے والد کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 4 ماہ ہو چکے۔ آج عید ہے اور میں اپنے ابا کو بہت یاد کر رہی ہوں۔ لیکن جب میں ابا کو یاد کرتی ہوں، مجھے یہ تسلی ملتی ہے کہ میں ابا کو گلے لگا سکی, ان کو بتا سکی کہ میں ان سے کتنا پیار کرتی ہوں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان کا خیال رکھ سکی۔ آپ کو
کبھی نہیں لگتا کہ جو وقت ملا وہ کافی ہے لیکن ان خاندانوں کی کیا تقلیف ہوگی جو آج بھی اپنے لاپتا پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں... وہ خاندان جنہیں اپنے پیاروں کی گمشدگی کے برسوں بعد مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ وہ خاندان جو ہر عید پر اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے نئے کپڑے تیار کرتے ہیں.
وہ خاندان جو اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے پورے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ کیا ان کے پیارے زندہ ہیں. اس سے بڑی اذیت کوئی نہیں۔ اس انتظار سے بڑا کوئی درد نہیں۔ آج لاپتہ افراد کے خاندانوں کو اپنی دعاؤں میں صرف یاد
Thinking of the 1000s of families of the disappeared this Eid who will keep looking towards the door in anticipation that their loved ones may just walk in.
The only constant in their lives is waiting...for proof of life, for a dead body, for answers. #EndEnforcedDisappearances
Thinking of Rahat aunty & Sachal who have approached every forum for any information on Mudassar Naaru. #FindNaaruAlive
Thinking of Buss Khatoon, who despite old age and ailing health, has travelled far and wide to find out where her son, Rashid Hussain, is. #SaveRashidHussain
Thinking of Noor Bux and his family who have been waiting for the return of their 17 year old son, Feroz Baloch, who they sent to Arid Agriculture University Rawalpindi for a better future. He was last seen on 11 May 2022. #ReleaseFerozBaloch