"مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر چند ابتدائی گزارشات"
سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے عقیدے کے بارے میں 4 گروہ ہیں۔
1)مسلمان
2)عیسائی
3)یہودی
4)قادیانی
ان چاروں گروہوں کے عقائد سیدنا عیسیؑ کے بارے میں درج ذیل ہیں۔
"مسلمانوں کا عقیدہ"
مسلمان کہتے ہیں کہ یہودی سیدنا عیسیؑ کو نہ ہی قتل کرسکے اور نہ ہی صلیب دے سکے بلکہ اللہ تعالٰی نے سیدنا عیسیؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔
مسلمانوں کا عقیدہ قرآن پاک سے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے قرآنی دلائل و احادیث مبارکہ انشاء اللہ اگلے اسباق میں آئیں گے )
"یہودیوں کا عقیدہ"
یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انہوں نے سیدنا عیسیؑ کو صلیب دے کر قتل کر دیا تھا۔
اور یہ کہا کہ:ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا،حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ(علیہ السلام) کو قتل کیا تھا،نہ انہیں سولی دے پائے تھے،
بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر پائے۔بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس
اٹھا لیا تھا،اور اللہ بڑا صاحب اقتدار،بڑا حکمت والا ہے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 157،158)
"عیسائیوں کا عقیدہ"
عیسائی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا گیا وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل ہوگئے۔اس کے بعد زندہ ہوئے اور اللہ تعالٰی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔اور اب وہ واپس
زمین پر تشریف لائیں گے۔
عیسائیوں کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسیؑ پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد سیدنا عیسیؑ کا صلیب پر چڑھنا تھا۔
قرآن مجید نے اسکی تردید کی۔
وماصبلوہ۔
کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 157)
تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بے بنیاد ہوا۔
چونکہ یہ عقیدہ اصولا غلط تھا۔چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے
کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بهی کی۔
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی۔
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی،وہ اسے دیکھے گا۔
(سورۃ زلزال آیت نمبر 7-8)
اس عقیدے کو مرزا صاحب نے بهی
تسلیم کیا ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ
"مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا۔"
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 373 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 292)
"قادیانیوں کا عقیدہ"
قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھایا اور وہ تین گھنٹے تک صلیب پر رہے لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ زخمی ہوگئے اور زخمی حالت میں آپ کو ایک غار میں لے جایا گیا اور وہاں آپ کا تین دن علاج ہوتا رہا۔تین دن کے بعد آپ
صحت یاب ہوئے اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ فلسطین سے افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے۔کشمیر میں 87 سال رہے۔پھر آپ کی وفات ہوئی۔اور آپ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
"مرزا صاحب کا سیدنا عیسیؑ کے بارے میں مکمل نظریہ"
مرزا غلام احمد قادیانی(1839 – 1908) اپنی عمر
کے تقريباً 52 سال (سن 1891 تک) نہ صرف خود بھی مسلمانوں والا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ اپنی اولین کتاب "براہين احمديہ" میں قرآنى آيات سے اصلى حضرت عيسىؑ ہی کا دوبارہ دنیا میں آنا ثابت بھی کیا۔
لیکن آخر عمر میں مرزا صاحب نے ایک اور انوکھا اور نیا عقیدہ اور نظریہ پیش کیا ۔
اسکا خلاصہ یہ ہے :
"حضرت مریمؑ کے بیٹے حضرت عيسىؑ عليه السلام کی عمر 33 سال 6 مہینے تھی کہ آپ کو دشمنوں نے پکڑ کر بروز جمعه بوقت عصر دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا،جسم میں کیلیں لگائیں،زخمی کیا
یہاں تک کہ آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے اور دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چلے گئے جب کہ در حقیقت آپ ابھی زندہ تھے۔"
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 127 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 311 )
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 380٬381٬382 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ296 )
(مسیح ہندوستان میں صفحہ 18
"آپ کو کسی طرح صلیب سے اتارا گیا،حواریوں نے آپ کے زخموں پر "مرہم عيسى" لگا کر علاج کیا،اور پھر آپ اور آپ کی والدہ ملک شام سے نکلے اور افغانستان وغيره مختلف ممالک سے ہوتے ہوے کشمیر جا پہنچے۔"
مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کے بارے میں ایک اور بات یہ بھی لکھی ہے:
"جن احادیث میں "مریم کے بیٹے عيسیؑ" کے نزول کی خبر دی گئی ہے،ان سے مراد اصلی عيسىؑ نہیں بلکہ ان کا ایک مثیل ہے،نیز قرآن كريم اور احاديث صحيحہ نے بشارت دی ہے کہ مثیل مسیح اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے۔"
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 554)
پانچ جلدوں والا ایڈیشن
(کشتی نوح صفحہ 16 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17)
(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 413 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 314 )
مرزا صاحب نے اپنے بارے میں یوں لکھا ہے:
"وہ مثیل میں یعنی مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی ہوں اور اسی کی خبر احادیث میں دی گئی ہے،نیز قرآن نے میرا نام ابن مریم رکھا ہے۔اور میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی،مسیح موسوی سے افضل ہے۔"
"احادیث میں "عيسىؑ" کے ہاتھوں جس دجال کے قتل ہونے کا ذکر ہے اس دجال سے مراد یا تو عیسائی پادری ہیں،یا دجال شیطان کا اسم اعظم ہے،یا دجال مفسدین کے گروہ کا نام ہے، یا دجال عیسائیت کا بھوت ہے،یا دجال سے مراد خناس ہے،یا دجال سے مراد با اقبال
مرزا صاحب کی مندرجہ بالا عبارات سے مندرجہ ذیل مرزا صاحب کے عقائد ہمیں پتہ چلے۔
1)سیدنا عیسیؑ کو 2 چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکایا گیا۔
2)سیدنا عیسیؑ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔
3)اللہ نے یہ فرمایا کہ سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر کھینچا گیا۔
4)سیدنا عیسیؑ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا۔پھر ان کے مرہموں پر "مرہم عیسی" لگائی گئی۔
5)اس کے بعد سیدنا عیسیؑ کشمیر چلے گئے۔
6)سیدنا عیسیؑ کی وفات کشمیر میں 120 یا 125 سال کی عمر میں ہوئی۔
7)سیدنا عیسیؑ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
8)جن احادیث میں مریمؑ کے بیٹے سیدنا عیسیؑ کے آنے کی خبر دی گئی ہے اس سے مراد مریمؑ کے بیٹے سیدنا عیسیؑ نہیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔
9)وہ مثیل مسیح جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح "مرزا غلام احمد قادیانی" ہے۔
10)مرزا صاحب کا نام قرآن نے "ابن مریم" رکھا ہے۔
11)جس دجال کا سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس دجال سے مراد یا تو شیطان ہے یا عیسائی پادری وغیرہ ہیں۔
12)سیدنا عیسیؑ کے 4 حقیقی بھائی اور 2 حقیقی بہنیں تھیں۔
"چیلنج تا قیامت"
دوستو!اگر مرزا صاحب کا کوئی پیروکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ مرزا صاحب کا یہ پورا اور مکمل نظریہ قرآن وحديث سے صراحت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے،اور اگر اس نے مرزا صاحب کے اس عقیدہ و نظریہ کے یہ تمام اجزاء قرآن مجید و احاديث صحيحہ سے ثابت کردیئے تو
ہم اسے مبلغ ایک لاکھ روپیہ (100,000) پاکستانی سکہ رائج الوقت انعام میں دیں گے۔۔۔۔۔
اور اگر قادیانی یہ ثابت نہ کرسکیں اور یقیناً قیامت تک بھی ثابت نہیں کرسکیں گے تو مرزا صاحب پر چار حرف بھیج کر اسلام کے وسیع دامن میں آجائیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانی جماعت کا مسلمانوں کو کافر قرار دینا اور قادیانیوں کی پہچان"
ویسے تو عام طور پر قادیانی یہ شور ڈالتے ہیں کہ جو کلمہ گو ہو وہ چاہے قرآن پاک کا ہی انکار کیوں نہ کرے اس کو کافر نہیں کہ سکتے۔
لیکن قادیانیوں کی بددیانتی دیکھیں کہ ان کے پیشوا
مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے بیٹے مسلمانوں کو یعنی مرزا قادیانی کو نہ ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں۔
قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ہم تمام دینی امور نماز، روزہ وغیرہ مسلمانوں کے طریقے کے مطابق ادا کرتے ہیں،اور سو سال میں ہماری اچھی خاصی تعداد ہو گئی ہے پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا
ہے؟جب قادیانیوں سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ مسلمان جو دین اسلام پر چل رہے
ہیں آپ (قادیانی) ان کو کافر اور حرامی،رنڈیوں کی اولاد جہنمی،پکا کافر کیوں کہتے ہیں؟اور ان کے خلاف بدترین زبان کیوں استعمال کرتے ہیں تو اس کا جواب نہیں دیا جاتا اور الٹا
"مرزا کی انبیاء کرامؑ اورصحابہ کرام ؓ کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرامؑ کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
انبیاء کرامؑ کی ذات مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمام انسانوں میں سب سے بلند ہے۔انبیاء کرامؑ کو اللہ تعالٰی امانت دار بناتے ہیں کیونکہ وہ نبوت جیسی امانت کو
سنبھالتے ہیں اور انبیاء کرامؑ کے گروہ میں سے کسی ایک نبی نے بھی اللہ تعالٰی کی دی گئی اس امانت میں خیانت نہیں کی۔انبیاء کرامؑ کا گروہ گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔کسی بھی نبی سے کبھی بھی کوئی خطا یا گناہ سرزد نہیں ہوتا۔
لیکن جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانی
جماعت نے جہاں اللہ تعالٰی اور حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں وہاں انبیاء کرامؑ کے مقدس گروہ کو بھی نہیں بخشا۔آیئے مرزا غلام احمد قادیانی کی انبیاء کرامؑ کی شان میں کی گئی گستاخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبوت کے قرآنی معیار پر پرکھتے ہیں اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا اتریں تو اس کو سچا تسلیم کر لیں۔اور اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو مرزا صاحب کذاب ہیں۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ جب نبوت کا دروازہ حضورﷺ پر اللہ تعالٰی نے بند کر دیا ہے تو کسی نئے نبی کی گنجائش دین اسلام میں نہیں ہے۔اور جو کوئی بھی نئی نبوت کا دعوی کرے تو وہ کذاب ہے۔
لیکن آیئے قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزا صاحب کو نبوت کے قرآنی
معیار پر پرکھتے ہیں۔لیکن اس معیار پر پرکھنے سے پہلے مرزا صاحب کی اس بارے میں تحریرات پر نظر ڈالتے ہیں۔
1۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"یہ سلسلہ بالکل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔اس کا پتہ اس طرز پر لگ سکتا ہے۔جس طرح انبیاء علیہم السلام کی حقانیت معلوم ہوئی۔"
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھیں اگر تو مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا اترے تو ان کو سچا مان لیں اور اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو پھر مرزا صاحب "کذاب" ہیں۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر تو تب پرکھیں گے جب نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور نبیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہو۔
چونکہ اب نبوت کا دروازہ ہمارے حضورﷺ پر بند ہوچکا ہے اور کسی بھی انسان کو نبوت نہیں مل سکتی۔اس لئے اب کوئی کتنا ہی پارسا ہو
اگر وہ نبوت کا دعوی کرے تو وہ "کذاب" ہے۔اور اس کو کسی معیار پر پرکھنا غلط ہے۔
لیکن قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھتے ہیں۔
نبی کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ نبی کی باتیں متضاد نہیں ہوتیں۔اور ایک مسلمہ اصول ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹ
جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف نبوت اور رسالت کا دعوی نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دعوے کئے ہیں۔مرزا صاحب کے چند باطل اور کفریہ دعوے ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا ایسے کفریہ اور باطل اور کفریہ دعوے ملاحظہ فرمائیں۔
پھر خود فیصلہ کریں کہ کیا ایسے کفریہ اور باطل دعوے کرنے والا مسلمان تو درکنار ایک عقلمند انسان کہلانے کا مستحق بھی ہے؟؟؟؟
ان عقائد کو ایک بار نہیں بار بار پڑھیں اور خود مرزا صاحب کے بارے میں فیصلہ کریں۔ کہ کیا مرزا صاحب ایک عقلمند انسان کہلانے کے لائق بھی ہے یا نہیں؟
آیئے مرزا صاحب کے دعوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1) "1881ء حجر اسود ہونے کا دعویٰ"
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے:
"شخصے پائے من بوسیدومن گفتم کہ سنگ اسود منم"
ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے اسے کہا کہ حجر اسود میں ہوں۔
(تذکرہ صفحہ 29 ایڈیشن چہارم 2008ء)
"جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانی جماعت کا تعارف"
مرزا صاحب کا خاندانی پس منظر
مرزا صاحب نے اپنے خاندان کے بارے میں لکھا ہے کہ:
"میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے.
میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تها جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تهی اور جن کا عرذ مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تهی۔
یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تهے ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام انکو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں انکی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔