پچھلے سبق میں ہم نے سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے قرآنی دلائل پیش کئے تھے اور جن مفسرین کی مرزاقادیانی نے تعریف کی ہوئی ہے ان کے تفسیری حوالہ جات بھی لکھے تھے۔
اس سبق میں ہم سیدنا عیسیؑ کے دوبارہ نزول پر قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے۔
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سیدنا عیسیؑ کو قیامت کی نشانیوں میں سے بتایا ہے۔یعنی جب سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا اس کے بعد قیامت نزدیک ہوگی۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس(عیسیٰؑ) کی موت سے پہلے اس (عیسیٰؑ) پر ایمان نہ لائے،اور قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے خلاف گواہ بنیں گے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 159)
اس آیت کی تشریح میں 2 قسم کے تفسیری اقوال ملتے ہیں۔
پہلا قول
پہلا قول یہ ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ جب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تو ہر اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے
دوسرا قول
دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ ایمان لے آتاہے۔
مفسرین نے دونوں قسم کے اقوال کو اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے۔لیکن زیادہ راجح پہلا قول ہی ہے۔
دونوں اقوال میں تطبیق یہ ہے کہ جب تک سیدنا عیسیؑ کا نزول نہیں ہوتا اس
وقت تک ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے سیدنا عیسیؑ پر ایمان لے آتا ہے۔اور جب سیدنا عیسیؑ کا نزول ہوجائے گا اس وقت تمام اہل کتاب سیدنا عیسیؑ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ سیدنا عیسیؑ کی ابھی وفات نہیں ہوئی اور قرب قیامت جب وہ واپس تشریف لایئں گے تو
"حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی
حیثیت سے نازل ہوں گے۔وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا»
"اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔"
(بخاری حدیث نمبر 3448، باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ)
لیجئے قرآن مجید کی ان آیات سے سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ نزول بھی ثابت ہوگیا۔
اب ان آیات کی تفسیر ان مفسرین سے دیکھتے ہیں جن مفسرین کی مرزا غلام احمد قادیانی نے تعریف کی ہے یا ان کو مجدد تسلیم کیا ہے۔
1)امام جلال الدین سیوطیؒ:
مرزاقادیانی نے امام جلال الدین سیوطیؒ کو نویں صدی کا
مجدد تسلیم کیا ہے۔
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اور مرزا صاحب نے امام جلال الدین سیوطیؒ کی تعریف میں یوں لکھا ہے۔
"امام سیوطی کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ انہیں جب ضرورت پیش آتی وہ حضورﷺ کی بالمشافہ زیارت کرکے ان سے حدیث
ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطیؒ،امام فریابیؒ،سعید بن منصورؒ،مسددؒ،عبد بن حمیدؒ،ابن ابی حاتمؒ اور طبرانیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ
"اللہ تعالٰی کے فرمان "وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ" سے مراد سیدنا عیسیؑ کا قیامت سے پہلے تشریف لانا ہے۔"
اس کے علاوہ امام سیوطیؒ نے امام عبد بن حمیدؒ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ تفسیر نقل کی ہے کہ
اس سے مراد سیدنا عیسیؑ کا تشریف لانا ہے۔ آپ چالیس سال زمین میں زندہ رہیں گے۔"
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطیؒ نے امام عبدالرزاقؒ، عبد بن حمیدؒ اور ابن منذرؒ کے حوالے سے حضرت ابوقتادہؒ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ
"جب حضرت عیسیؑ آسمان سے اتریں گے تو تمام دینوں کے پیروکار آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور ان پر گواہ ہونے کا مفہوم یہ ہے
کہ حضرت عیسیؑ نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچایا اور اپنے بارے میں اللہ کا بندہ ہونے کا اقرار کیا۔"
اس کے علاوہ امام سیوطیؒ نے امام ابن ابی شیبہؒ،عبد بن حمیدؒ،امام مسلمؒ اور امام بخاریؒ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ
"رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔
اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
«وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا»
"اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت
کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔"
(تفسیر در منثور،تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159)
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔
1)سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
2)سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
2)حافظ ابن کثیرؒ:
مرزا صاحب نے حافظ ابن کثیرؒ کو چھٹی صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔
(عسل مصفی جلد 1 صفحہ 162)
اس کے علاوہ مرزا صاحب نے حافظ ابن کثیرؒ کو ان اکابر ومحققین میں سے تسلیم کیا ہے۔ جن کی آنکھوں کو خداتعالیٰ نے نور معرفت عطا کیا تھا۔
یعنی جناب روح اللہؑ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں۔
حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ نشان ہیں
قیامت کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کا قیامت سے پہلے آنا۔اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
حضرت ابو ہریرة ؓ سے اور حضرت عباس سے اور یہی مروی ہے ابولعالیہؒ،ابو مالکؒ،عکرمہؒ، حسنؒ،قتادہؒ،ضحاکؒ وغیرہ سے۔اور متواتر احادیث میں رسول اللہﷺ نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسیٰؑ امام عادل
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ
"جناب روح اللہؑ کی موت سے پہلے جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے اور قیامت تک آپ ان کے گواہ ہوں گے۔
امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ عیسیٰؑ موت سے پہلے یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے
کے لئے دوبارہ زمین پر آئیں گے اس وقت تمام مذاہب ختم ہو چکے ہوں گے اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم حنیف کی ملت ہے رہ جائے گی۔
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں (موتہ) سے مراد موت عیسیٰؑ ہے ابو مالک فرماتے ہیں جب جناب مسیح اتریں گے،اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے۔ابن عباس ؓ سے
اور روایت میں ہے خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں یعنی نجاشی اور ان کے ساتھی آپ سے مروی ہے کہ قسم اللہ کی حضرت عیسیٰؑ اللہ کے پاس اب زندہ موجود ہیں۔جب آپ زمین پر نازل ہوں گے،اس وقت اہل کتاب میں سے ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ پر ایمان نہ لائے۔آپ سے جب
اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے تو آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسیحؑ کو اپنے پاس اٹھا لیا ہے اور قیامت سے پہلے آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے بھیجے گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے گا۔
حضرت قتادہؒ،حضرت عبدالرحمٰنؒ وغیرہ بہت سے مفسرین کا یہی فیصلہ ہے اور یہی قول حق ہے اور یہی
ہے،انشاء اللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے ہم اسے بادلائل ثابت کریں گے۔"
اس کے علاوہ اسی آیت کی تشریح میں مزید لکھتے ہیں کہ
"صحیح بخاری جسے ساری امت نے قبول کیا ہے اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ علیہ رحمتہ و الرضوان کتاب ذکر انبیاء میں یہ حدیث لائے ہیں کہ
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریمؑ نازل ہوں گے۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے۔جزیہ ہٹا دیں گے۔مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسے لینا کوئی منظور نہ کرے گا،ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر
ہو گا۔اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابو ہریرة ؓ نے بطور شہادت قرآنی کے اسی آیت (وان من) کی آخر تک تلاوت کی۔
صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور سند سے یہی روایت بخاری و مسلم میں مروی ہے اس میں ہے کہ سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہو گا۔اور اس آیت کی تلاوت میں
میں قبل موتہ کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ قبل موت عیسیٰ بن مریمؑ پھر اسے حضرت ابو ہریرة ؓ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے۔"
(تفسیر ابن کثیر تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159)
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔
سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
2)سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
3) امام ابن جریرؒ:
مرزا صاحب نے امام ابن جریرؒ کے بارے میں
لکھا ہے کہ
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں ابن جریرؒ،حضرت حسنؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
"اہل کتاب حضرت عیسیؑ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئیں گے۔اللہ کی قسم اس وقت وہ اللہ تعالٰی کے ہاں زندہ ہیں۔لیکن جب وہ آسمان سے اتریں گے تو سب لوگ آپؑ پر
ایمان لے آئیں گے۔"
(تفسیر طبری،تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر 159)
مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔
1)سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
2)سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل
کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
4) امام زمحشری:
مرزا صاحب نے امام زمحشری کے بارے میں
لکھا ہے کہ
"زبان عرب کا وہ بے مثل امام جس کے مقابلے میں کسی کو چون چرا کی گنجائش نہیں۔"
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تشریح میں امام زمحشری نے لکھا ہے کہ
"اور کہا گیا ہے کہ اس کی ضمیر سیدنا عیسیؑ کی طرف راجع ہے اور (اس کا مطلب یہ ہے کہ) جب وہ قرب قیامت آسمان سے نازل ہوں گے تو اہل کتاب میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا جو سیدنا عیسیؑ پر ایمان نہ لے آئے۔اور سیدنا عیسی
زمین پر چالیس سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی۔"
(تفسیر الکشاف،سورۃ النساء آیت نمبر 159)
لیجئے مرزا صاحب نے جن کی اس قدر تعریف کی ہے ان کا درج ذیل عقیدہ ان کی تفسیر سے ثابت ہوا۔
1)سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔
2)سیدنا عیسیؑ جب قرب قیامت دوبارہ تشریف لائیں گے تو اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
"خلاصہ کلام"
قرآن مجید کی آیات سے اور مرزا صاحب کے تسلیم کردہ مجددین یا تعریف کردہ مفسرین کی تفسیر سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیؑ کا دوبارہ نزول قرب قیامت ہوگا۔اور کچھ عرصہ وہ زمین پر رہیں گے۔
اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانی جماعت کا مسلمانوں کو کافر قرار دینا اور قادیانیوں کی پہچان"
ویسے تو عام طور پر قادیانی یہ شور ڈالتے ہیں کہ جو کلمہ گو ہو وہ چاہے قرآن پاک کا ہی انکار کیوں نہ کرے اس کو کافر نہیں کہ سکتے۔
لیکن قادیانیوں کی بددیانتی دیکھیں کہ ان کے پیشوا
مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے بیٹے مسلمانوں کو یعنی مرزا قادیانی کو نہ ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں۔
قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ہم تمام دینی امور نماز، روزہ وغیرہ مسلمانوں کے طریقے کے مطابق ادا کرتے ہیں،اور سو سال میں ہماری اچھی خاصی تعداد ہو گئی ہے پھر ہمیں کافر کیوں کہا جاتا
ہے؟جب قادیانیوں سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ مسلمان جو دین اسلام پر چل رہے
ہیں آپ (قادیانی) ان کو کافر اور حرامی،رنڈیوں کی اولاد جہنمی،پکا کافر کیوں کہتے ہیں؟اور ان کے خلاف بدترین زبان کیوں استعمال کرتے ہیں تو اس کا جواب نہیں دیا جاتا اور الٹا
"مرزا کی انبیاء کرامؑ اورصحابہ کرام ؓ کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرامؑ کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
انبیاء کرامؑ کی ذات مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمام انسانوں میں سب سے بلند ہے۔انبیاء کرامؑ کو اللہ تعالٰی امانت دار بناتے ہیں کیونکہ وہ نبوت جیسی امانت کو
سنبھالتے ہیں اور انبیاء کرامؑ کے گروہ میں سے کسی ایک نبی نے بھی اللہ تعالٰی کی دی گئی اس امانت میں خیانت نہیں کی۔انبیاء کرامؑ کا گروہ گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔کسی بھی نبی سے کبھی بھی کوئی خطا یا گناہ سرزد نہیں ہوتا۔
لیکن جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانی
جماعت نے جہاں اللہ تعالٰی اور حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں وہاں انبیاء کرامؑ کے مقدس گروہ کو بھی نہیں بخشا۔آیئے مرزا غلام احمد قادیانی کی انبیاء کرامؑ کی شان میں کی گئی گستاخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبوت کے قرآنی معیار پر پرکھتے ہیں اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا اتریں تو اس کو سچا تسلیم کر لیں۔اور اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو مرزا صاحب کذاب ہیں۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ جب نبوت کا دروازہ حضورﷺ پر اللہ تعالٰی نے بند کر دیا ہے تو کسی نئے نبی کی گنجائش دین اسلام میں نہیں ہے۔اور جو کوئی بھی نئی نبوت کا دعوی کرے تو وہ کذاب ہے۔
لیکن آیئے قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزا صاحب کو نبوت کے قرآنی
معیار پر پرکھتے ہیں۔لیکن اس معیار پر پرکھنے سے پہلے مرزا صاحب کی اس بارے میں تحریرات پر نظر ڈالتے ہیں۔
1۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"یہ سلسلہ بالکل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔اس کا پتہ اس طرز پر لگ سکتا ہے۔جس طرح انبیاء علیہم السلام کی حقانیت معلوم ہوئی۔"
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھیں اگر تو مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا اترے تو ان کو سچا مان لیں اور اگر مرزا صاحب نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو پھر مرزا صاحب "کذاب" ہیں۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر تو تب پرکھیں گے جب نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور نبیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہو۔
چونکہ اب نبوت کا دروازہ ہمارے حضورﷺ پر بند ہوچکا ہے اور کسی بھی انسان کو نبوت نہیں مل سکتی۔اس لئے اب کوئی کتنا ہی پارسا ہو
اگر وہ نبوت کا دعوی کرے تو وہ "کذاب" ہے۔اور اس کو کسی معیار پر پرکھنا غلط ہے۔
لیکن قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزا صاحب کو نبوت کے معیار پر پرکھتے ہیں۔
نبی کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ نبی کی باتیں متضاد نہیں ہوتیں۔اور ایک مسلمہ اصول ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹ
جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف نبوت اور رسالت کا دعوی نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دعوے کئے ہیں۔مرزا صاحب کے چند باطل اور کفریہ دعوے ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا ایسے کفریہ اور باطل اور کفریہ دعوے ملاحظہ فرمائیں۔
پھر خود فیصلہ کریں کہ کیا ایسے کفریہ اور باطل دعوے کرنے والا مسلمان تو درکنار ایک عقلمند انسان کہلانے کا مستحق بھی ہے؟؟؟؟
ان عقائد کو ایک بار نہیں بار بار پڑھیں اور خود مرزا صاحب کے بارے میں فیصلہ کریں۔ کہ کیا مرزا صاحب ایک عقلمند انسان کہلانے کے لائق بھی ہے یا نہیں؟
آیئے مرزا صاحب کے دعوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1) "1881ء حجر اسود ہونے کا دعویٰ"
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے:
"شخصے پائے من بوسیدومن گفتم کہ سنگ اسود منم"
ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے اسے کہا کہ حجر اسود میں ہوں۔
(تذکرہ صفحہ 29 ایڈیشن چہارم 2008ء)
"جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانی جماعت کا تعارف"
مرزا صاحب کا خاندانی پس منظر
مرزا صاحب نے اپنے خاندان کے بارے میں لکھا ہے کہ:
"میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے.
میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تها جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تهی اور جن کا عرذ مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تهی۔
یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تهے ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام انکو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں انکی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔