کچھ ماہ قبل کی بات ہے ایک محبت و عقیدت کے رشتے میں بندھے ایک صاحب ملنے آئے اور بولے..
مفتی صاحب میرا کاروبار بہت عمدہ تھا۔میں لاکھوں کماتا تھا۔گاڑی تھی،بہترین زندگی تھی۔آج بھی وہی کاروبار ہے، مگر گاڑی نہیں، وہ خوشحالی نہیں، دن بدن
قرض کے بوجھ تلے دب گیا، چونکہ رزق کی فراوانی تھی اور اب مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔
سنا ہے آپ روحانی علاج کرتے ہیں،چیک کیجئے کوئی جادو ٹونہ و بندش و نظر بد نا ہو۔کاٹ کیجئے ،تعویذ دیجئے،وظیفہ دیجئے تاکہ پھر سے وہی خوشحالی پر مبنی
حالات لوٹ آئیں۔میں بہت پریشان ہوں،یہ کہتے ہوئے صاحب رو پڑے۔
میں نے ان سے کہا :پریشان نا ہوں۔
میں آپ کے گھر کے برتنوں پر دم کروں گا ۔خوشحالی لوٹ آئے گی۔
انہوں نے کہا کیا مجھے گھر کے برتن لانے پڑیں گے؟
یا آپ گھر آئیں گے؟
میں نے کہا: نہ میں گھر آؤں گا نا آپ کو برتن میرے پاس لانے پڑیں گے۔
بس کرنا یہ ہے دھونے والے برتن جب کچن میں جمع کئے ہوں تو
ان آلودہ برتنوں کی تصاویر 3 دن کی روز لیں اور چوتھے روز وہ تصاویر موبائل میں لے آئیں۔میں ان پر دم کردوں گا۔سب ٹھیک ہوجائے گا ۔
برتن دیکھے تو کسی برتن میں کچھ سالن تھا کسی میں کچھ ۔یعنی (رزق) کھانا ضائع ہورہا تھا اور دھل کر گندے نالے میں جا رہا تھا۔
میں نے پوچھا یہ برتن ہیں ان میں کھانا ہے جیسے سالن وغیرہ اس کا کیا کرتے ہیں؟
وہ صاحب بولے ظاہر ہے کہ دھل کر یہ سب نالی میں جائے گا.
میں نے ان سے کہا کہ میں دم نہیں کروں گا۔انہوں نے وجہ پوچھی تو قصہ مختصر..
میں نے کہا:آج کے بعد بچا ہوا کھانا اس طرح برتن دھل کر گندے نالے،یا کوڑے میں نہیں پھیکنا،بلکہ برتن اچھی طرح کھانا کھاتے ہوئے صاف کرنے ہیں،
اتنا ڈالیں جتنا کھانا ہے۔
اور بچ جانے والا کھانا کسی غریب کو یا چھت پر جانوروں ،بلی کو کھلادیں۔قصہ مختصر رزق کی بے ادبی نا ہو۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ آج کے بعد ایسا نا ہوگا۔جو جو رزق کی بے ادبی کی صورتیں آپ نے بیان کی ہیں آج کے بعد ان میں سے کوئی بھی نہیں ہوگی۔
میں نے ان کی تسلی کے لئے 21 دفعہ برتن پر سورۃ الفاتحہ پڑھ دی کہ نفسیاتی طور پر ان کو تسلی ہو کہ واقعی دم کیا ہے۔
کچھ دن بعد وہ ملنے آئے اور مجھ سے گلے ملے اور رونا شروع کردیا.
ہاتھ چومے اور حد سے ذیادہ عقیدت کا اظہار کیا اور بولے
مفتی صاحب اب میرا کاروبار بہت بہتر ہوگیا۔بہترین اور بڑے بڑے آرڈر دوبارہ ملنا شروع ہوگئے ۔
آپ کے دم نے تو کمال کردیا۔
میں نے ان سے کہا :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق رزق کی بے ادبی تنگ دستی لاتی ہے۔
آپ نے کاروبار بیان کیا۔اس میں کوئی شرعی خرابی نا تھی۔
آپ نماز بھی پڑھتے ہیں تو مجھے اس وقت آئیڈیا ہوا کہ کہیں رزق کی بے ادبی کے شکار نا ہوں۔
آپ نے رزق کا ادب شروع کیا تو وہ واپس لوٹ آیا۔
بس اتنی سی بات تھی۔
اس نے عزم مصمم کیا کہ ان شاء اللہ مرتے
دم تک رزق کے ایک ذرے کو ضائع نہیں ہونے دوں گا اور اس کے ادب و تعظیم میں کوئی کسر نا چھوڑوں گا۔
اللہ پاک ہمیں رزق کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین ثم آمین..
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے فیسبک گروپ جوائن کریں 👇👇👇
سہیل بن عمرو حدیبیہ میں سرکار ﷺ کے ساتھ صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے آئے تھے تب یہ حضور ﷺ اور دین اسلام کے بہت بڑے دشمن مانے جاتے۔ رویہ میں خاصی سختی تھی۔ معاہدہ جب لکھا جانے لگا تو(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پر جھگڑا کھڑا کر دیا۔ پھر (محمد رسول اللہ) لکھنے پر جھگڑا۔ پھر اپنے
لڑکے ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹانے پر تنازع کھڑا کر دیا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہر بات مانتے رہے۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زچ گئے کہ آپﷺ جھک کر ان لوگوں کی شرائط کیوں مان رہے ہیں۔ لیکن نگاہ نبوتﷺ بڑی دورس تھی۔ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں کوئی فتح حدیبیہ کی فتح سے بڑھ کر نہیں ہوئی لوگ جلد بازی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بندوں کی طرح جلد بازی نہیں کرتا۔ فرماتے ہیں کہ میں نےاپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حجۃ الوداع میں
خلیفہ عمر بن عبد العزیز
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔ پادری نے لکھا ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی
دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی
سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔ دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی
قائدِ اعظم کی علالت اور وفات
مارچ 1945ء میں قائددہلی میں بیمار ہوئے تو ان کا علاج 6انڈر ہل روڈ کے ڈاکٹر البرٹ نے کیا ۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں صحت یاب ہو کر قائد پھر بمبئی چلے گئے ان کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں تھی ۔ ان کی کھانسی میں اضافہ ہونے لگا
اور حرارت بھی بڑھنے لگی ۔ ایک طرف بابائے قوم کی ذات اور صحت تھی تو دوسری طرف نومولود ریاست کے ناختم ہونے والے مسائل ۔ قائداعظم نے اپنی پروا کیے بغیر شب و روز مملکت خداداد کے لئے وقف کر دیے ۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ذاتی فزیشن ڈاکٹر رحمن سے معائنہ کرواتے۔ ڈاکٹر
نے دوائیاں تجویز کیں جن کے بارے میں کافی جرح کے بعد ڈاکٹر کی تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ مجھے ملیریا نہیں ہے مجھے کام کی کثرت نے نڈھال کر رکھا ہے ۔ اس کے لئے آرام کی ضرورت ہے، مگر میں آرام نہیں کر سکتا۔ میں اپنی جسمانی طاقت کی کان کھود کر توانائی کا آخری اونس تک ڈھونڈ نکالوں
اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغربی دنیا نے جہاں دیگر سائنسی علوم و فنون کی طرف پیش رفت کی تو وہیں میڈیکل سائنس کے فروغ کے لئے بھی نئے کالجز اور یونیورسٹیز قائم کی گئیں،جن میں انسانی اجسام کو بطور تجربہ کے استعمال کیا جاتا اور ان کی چیڑ پھاڑ کر طب کے طالب علموں کو تعلیم دی جاتی،
جسے "ڈسیکشن"کہا جاتا تھا۔اس کام کے لئے ان قیدیوں کے جسم تختۂ مشق بنائے جاتے تھے جنہیں سرکاری طور پر سزائے موت کی نوید مل چکی ہوتی۔ قیدیوں کو اپنی موت سے زیادہ اس چیز کا غم ستائے رکھتا کہ مرنے کے بعد نہ جانے ان کے جسموں پر کیا بیتے گی اور کس قسم کے تجربات ان پر
آزمائے جائیں گے۔یہ طبع آزمائی بڑے بڑے تھیٹرز میں سینکڑوں آنکھوں کے سامنے کی جاتی جسے دیکھنے کے لئے لوگ کسی قدر اہتمام سے شریک ہوتے مگر دشواری تب پیش آنے لگی جب جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد گھٹنے لگی اور کالجز کے ذمہ داران کو اس مسلئہ کا شدت سے احساس ہوا۔
ایک گائے راستہ بھٹک کر جنگل کی طرف نکل گئی۔ وہاں ایک شیر اس پر حملہ کرنے کیلئے دوڑا۔ گائے بھاگنے لگی ۔ شیر بھی اُس کے پیچھے دوڑتا رہا۔ گائےنے بھاگتےبھاگتےبالآخر ایک دلدلی جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ شیر نےبھی اس کے پیچھے چھلانگ لگادی لیکن گائے سے کچھ فاصلے پر ہی دلدل میں پھنس
گیا۔ اب وہ دونوں جتنا نکلنے کی کوشش کرتے دلدل میں اُتنا ہی پھنستے جاتے۔
بالآخر شیر غصے سے بھُنَّاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ بدتمیز گائے! تجھے چھلانگ لگانے کیلئے اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی۔ کوئی اور جگہ ہوتی تو میں تجھے چیر پھاڑ کر کھاتا اور صرف تیری جان جاتی، میں تو بچ جاتا لیکن اب تو
ہم دونوں ہی مریں گے‘ گائے ہنس کر گویا ہوئی:’’جناب شیر! کیا آپ کا کوئی مالک ہے شیر مزید غصے سے تلملاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ تیری عقل پر پتھر! میرا کہاں سے مالک آیا؟ میں تو خود ہی اس جنگل کا بادشاہ ہوں، اس جنگل کا مالک ہوں گائے کو پھر ہنسی آگئی، کہنے لگی: ’’بادشاہ سلامت ! یہیں پر
كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔ شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت
كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا. كسان كے جانے کے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا…. اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و
صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔ اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان