سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ھوا تھا. دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں اولیاء قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے..👇🏻
سب خاموش رہے دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں .سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں اک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہو گا .👇🏻
سلطان نے شرط منظور کر لی اس شخص کو چلہ کے لیے بھج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا.
6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے.👇🏻
مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا.... ؟
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام میں نے آپ سے جھوٹ بولا .... میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہو رہا تھا👇🏻
بچے بھوک سے مر رہے تھے اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا.....
سلطان محمود غزنوی نے اپنے اک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے . وزیر نے کہا اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ھے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے . دربار میں اک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے،👇🏻
کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا .....
بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتاو اس نے کہا کہ اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کہ مرے اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے👇🏻
دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال اک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی۔👇🏻
اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کر دیں .اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے ..ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا ..ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ..👇🏻
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے...
بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا👇🏻
غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے اک قصائی کو وزیر بنا لیا........
دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اُس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا👇🏻
آپ کی غلطی یے کہ ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیرہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ھی مرنا ہے .
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو ایاز سیّد زادہ ہے سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا یے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا .👇🏻
سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو......
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی ایک راز کھول دیتا ہوں۔👇🏻
اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں.
شبلی نعمانی کی کتاب سے محترم عزیز الرحمن طاہر
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
بادشاہ کا موڈ اچھا تھا‘ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا
”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“
وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا
”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“
وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا 👇
”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“
وزیر خاموش ہو گیا‘
بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا
”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“👇
وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا
”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“
بادشاہ نے فوراً احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ 👇
ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی
ایک شب اس نے لکھا کہ:
میں خوش ہوں کہ میرا شوہر تمام رات زور دار خراٹے لیتا ہےکیونکہ وہ زندہ ہے اور میرے پاس ہے نا
یہ اللّٰه کا شکر ہے
میں خوش ہوں کہ میرا بیٹا 👇
صبح سویرے اس بات پر جھگڑا کرتا ہے کہ رات بھر مچھر،کھٹمل سونے نہیں دیتے یعنی وہ رات گھر پہ ہی گزارتا ہے آوارہ گردی نہیں کرتا۔
اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔
میں خوش ہوں کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی،پٹرول وغیرہ کا اچھا خاصا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے یعنی یہ سب چیزیں میرے پاس 👇
میرے استعمال میں ہیں نا۔اگر یہ نہ ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوتی
اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے
میں خوش ہوں کہ دن ختم ہونے تک میرا تھکن سے برا حال ہوجاتا ہے یعنی میرے اندر دن بھر سخت کام کرنے کی طاقت ہے نا
اور یہ طاقت اور ہمت صرف اللّٰه ہی کے فضل سے ہے۔
میں خوش ہوں 👇
اچھے لباس، اُونچے عہدے، اُونچے سٹیٹس اور مال و دولت سے مرعوب ہونا ایک عیب ہے،
اس دنیا اللّٰہ رب العزت ہے
جو اِن سب چیزوں سے بڑھ کر ہے...
الحمدللہ🙏 ثم الحمدللہ۔۔
مُجھےتو بس وہ لوگ ہی مرعوب کرتے ہیں...
جو دین میں مُجھ سے آگے ہیں...
جو اللّٰہ رب العزت کی مُحبت میں شدید ہیں.👇
جن کےاعمالِ صالحہ کا سلسلہ مضبوط ہے...
جن کا بھروسہ صرف☝️ اللّٰہ رب العزت کی ذات پر ہے...
جن کی باتوں میں اللّٰہ رب العزت ہی کا ذکر ہو...
جو ہر بات میں اللّٰہ رب العزت کو ہی کریڈٹ دیں...
مُجھے ایسے لوگ ہی آئیڈیل لگتے ہیں
جن کو دیکھ کر اللّٰہ یاد آئے....
یاد رکھیں۔۔۔👇
اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہے،
اگر آپ کو بھی یہ نیک لوگ اچھے لگتے ہیں ،
تو سمجھ لیں کہ آپ انسان کہلانے کے لائق ہیں،
لھذا اپنا محاسبہ کریں۔۔
کسی اور کی نہیں ،
دنیا کی نہیں بلکہ خود کی فکر کریں۔۔!!!
کیونکہ جب ہم خود بدلتے ہیں تو ہمارے ارد گرد کا ماحول بھی بدلتا ہے،👇
عمل,برائی, نیکی .....
خیر اور شر کے معاملے میں جزا ، عمل کی جنس سے مماثلت رکھتی ہے
پس جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی ، اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔
جو کسی تنگدست کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا اللہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا👇
اور جس نے کسی مومن کی دنیا کی تکالیف میں سے کسی تکلیف کو دور کیا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی تکالیف میں سے کسی تکلیف سے اس کو دور کر دیں گے۔
اور جو اپنے بھائی کے عیبوں کے پیچھے لگ جاتا ہے، اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے لگ جاتا ہے
اور جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچاتا ہے، 👇
اللہ تعالیٰ اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
اور جو سختی کرتا ہے، اللہ اس پر سختی کرتا ہے۔
اور جو شخص کسی مسلمان کو ایسی جگہ چھوڑ دے جہاں اس کی مدد کی جانی چاہیئے، تو اللہ اسے ایسی جگہ چھوڑ دے گا جہاں اس کی مدد کی جانی چاہیئے۔
اللہ کے بندوں پر رحم کرنے والے پر ہی اللہ 👇
نومولود بچوں کا سر بنانا اور اسکے نقصانات .....
جیسے ہی آپ والدین بنیں گے آپکی امی، ساس، خالہ، پھوپھو، تائی، چاچی اور ہر رشتہ دار خاتون آپکو ایک مشورہ ضرور دیگی اور وہ ہے بچے کا سر کیسے بنایا جائے
ان مشوروں میں بچے کے سر کو آگے پیچھے سے دبانا، بچے کے سر کے نیچے سخت گتا، 👇
لکڑی، پلیٹ یا کوئی سخت چیز رکھنا ہوتا ہے
بچے (جو کہ اب بڑا ہو چکا ہوگا) کا سر ایک بار غور سے دیکھیں۔ اسکا سر پیچھے سے سیدھا ہو گا جیسا اس تصویر میں left میں دکھایا گیا ہے،
جو کہ بالکل بھی نارمل نہیں ہے
سر کا اس طرح سیدھا ہوجانا Flat head syndrome کہلاتا ہے۔ جو کہ 👇
پاکستانی ماؤں کے مُطابق ایک achievement ہے دراصل ایک abnormal کنڈیشن ہے۔
سر کی ایک سطح کو بالکل سیدھا کر دینا اور ہڈی کی ساخت کو تبدیل کر دینا سراسر غلط ہے۔
flat head syndrome
کے بچوں میں
باریکی کے کام (یعنی fine motor skills)
زبان کا استعمال( یعنی Language 👇
*ہاروت اور ماروت کا قصہ.....
حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے میں لوگ بہت بد عمل ہو گئے تھے اور فرشتوں نے بارگاہِ الہیٰ میں عرض کی کہ انسان بہت بدکار ہے یہ تیری خلافت کے لائق نہیں ہے اس لیے انسان کو منصبِ خلافت سے ہٹا دیا جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہوا کہ انسان میں غصہ اور شہوت ہے 👇
جس کی وجہ سے وہ زیادہ گناہ کرتا ہے اگر یہ چیزیں فرشتوں کو دے دی جائیں تو وہ بھی گناہگار ہو جائیں گے۔ فرشتوں نے کہا ہم تو کبھی بھی گناہ کے قریب نہ جائیں گے خواہ کتنا ہی غصہ اور شہوت ہو۔ حکمِ ربی ہوا کہ اچھا تم فرشتے اپنی جماعت میں سے کوئی سے دو فرشتے چن لو جو تمہارے خیال میں 👇۔
سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں پھر انھیں غصہ اور شہوت دے کر دنیا میں بھیجا جائے گا تاکہ انہیں آزمایا جا سکے۔ چنانچہ ہاروت اور ماروت جو بہت پرہیزگار فرشتے تھے منتخب ہو گئے اور انہیں غصہ اور شہوت دے کر شہرِ بابل میں اتار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ تم دونوں قاضی بن کر لوگوں کے درمیان👇