اگر ہمارے ملک کے کسی بڑے شہر میں ایسا ہو کہ کتب کی ایک دکان ہو جو انواع و اقسام کی کتب سے بھری ہوئی ہو لیکن وہاں کوئی دکان دار نہ ہو بلکہ خریدار خود ہی ایمانداری سے، خریدی گئی کتب کی قیمت گُلک میں ڈال جاتے ہوں تو کیا خیال ایسی دکان کتنا عرصہ چل پائے گی؟
یہ بات مفروضہ نہیں، حقیقت ہے لیکن پاکستان میں نہیں دبئی میں جہاں بچپن سے کتب سے دوستی رکھنے والی ایک ہسپانوی عورت نے کمال کر دکھایا ہے۔ انہوں نے دبئی میں سات جگہوں پر بک اسٹورز کھولے ہیں، جن میں پچیس ہزار سے زائد ٹائٹلز رکھے گئے ہیں۔ ان کے پاس
ایک ٹرک بھی ہے جو موبائل بک شاپ کا کام کرتا ہے۔ اس ٹرک کے دن مقرر ہیں کہ وہ کون سے دن کہاں جائے گا۔
ان بک اسٹورز میں، آغاز میں ہلکا پھلکا اسٹاف رکھا گیا تھا۔ مگر کچھ وقت کے بعد خاتون کو احساس ہوا کہ خرچہ نہیں نکل رہا تو ملازمین کی چھٹی کر دی، لیکن کتب
خانے بند نہیں کیے۔
ان کا کاروبار یوں چلتا ہے کہ دکانوں میں کتب کے شائقین آتے ہیں، اپنی پسند کی کتاب لیتے ہیں پھر وہاں رکھے ڈبے میں خریدی گئی کتاب کی قیمت ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ اگر وہ بغیر پیسے ادا کیے کتاب لے کر چلے جائیں، تو انہیں کوئی روکنے والا
نہیں۔ لیکن آج تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
اسپین سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کا نام Montserrat Martin ہے۔ ان سے جب گلف نیوز کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ نے ایسا خطرہ کیسے مول لے لیا؟ کہنے لگیں، مجھے معلوم تھا کہ دبئی میں قانون کی
پاسداری اور امن و امان اعلیٰ درجے کا ہے اور یہاں کے لوگ ایماندار ہیں۔ اور اب وقت نے اس بات کو سچ ثابت بھی کر دیا ہے۔ میں دن میں صرف ایک بار اسٹورز پر جاتی ہوں تاکہ کتب جو فروخت ہو چکی ہوں ان کی جگہ دوسری رکھ دوں اور گُلک میں سے رقم نکال لوں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے
ہوتے ہوئے وہاں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں کل ایک کتاب لے کر گیا تھا، پیسے نہیں ادا کیے تھے، اب دینے آیا ہوں۔
ہر کتاب پر یا تو سبز رنگ کا اسٹیکر ہوتا ہے یا پھر زرد رنگ کا۔ زرد رنگ کے اسٹیکر کا مطلب ہوتا ہے کہ کتاب دس درہم کی ہے اور سبز رنگ کے اسٹیکر کا مطلب ہوتا ہے، کتاب
بیس درہم کی ہے۔ یوں کسٹمرز کو قیمت کے معاملہ میں زیادہ حساب کتاب نہیں کرنا پڑتا۔
ان کتب خانوں کا نام "بک ہیرو" (Book Hero) ہے جو دبئی میں سات مختلف مقامات پر کامیابی سے چل رہے ہیں۔
سب سے قیمتی بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کتب بینی ختم ہو جائے گی؟ تو ان کا جواب تھا:
کتاب کی جگہ کوئی چیز لے ہی نہیں
سکتی۔ کتاب کا ورق، جو ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان آتا ہے، اس کے چھونے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
سہیل بن عمرو حدیبیہ میں سرکار ﷺ کے ساتھ صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے آئے تھے تب یہ حضور ﷺ اور دین اسلام کے بہت بڑے دشمن مانے جاتے۔ رویہ میں خاصی سختی تھی۔ معاہدہ جب لکھا جانے لگا تو(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پر جھگڑا کھڑا کر دیا۔ پھر (محمد رسول اللہ) لکھنے پر جھگڑا۔ پھر اپنے
لڑکے ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹانے پر تنازع کھڑا کر دیا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہر بات مانتے رہے۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زچ گئے کہ آپﷺ جھک کر ان لوگوں کی شرائط کیوں مان رہے ہیں۔ لیکن نگاہ نبوتﷺ بڑی دورس تھی۔ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں کوئی فتح حدیبیہ کی فتح سے بڑھ کر نہیں ہوئی لوگ جلد بازی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بندوں کی طرح جلد بازی نہیں کرتا۔ فرماتے ہیں کہ میں نےاپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حجۃ الوداع میں
خلیفہ عمر بن عبد العزیز
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔ پادری نے لکھا ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی
دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی
سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔ دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی
قائدِ اعظم کی علالت اور وفات
مارچ 1945ء میں قائددہلی میں بیمار ہوئے تو ان کا علاج 6انڈر ہل روڈ کے ڈاکٹر البرٹ نے کیا ۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں صحت یاب ہو کر قائد پھر بمبئی چلے گئے ان کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں تھی ۔ ان کی کھانسی میں اضافہ ہونے لگا
اور حرارت بھی بڑھنے لگی ۔ ایک طرف بابائے قوم کی ذات اور صحت تھی تو دوسری طرف نومولود ریاست کے ناختم ہونے والے مسائل ۔ قائداعظم نے اپنی پروا کیے بغیر شب و روز مملکت خداداد کے لئے وقف کر دیے ۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ذاتی فزیشن ڈاکٹر رحمن سے معائنہ کرواتے۔ ڈاکٹر
نے دوائیاں تجویز کیں جن کے بارے میں کافی جرح کے بعد ڈاکٹر کی تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ مجھے ملیریا نہیں ہے مجھے کام کی کثرت نے نڈھال کر رکھا ہے ۔ اس کے لئے آرام کی ضرورت ہے، مگر میں آرام نہیں کر سکتا۔ میں اپنی جسمانی طاقت کی کان کھود کر توانائی کا آخری اونس تک ڈھونڈ نکالوں
اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغربی دنیا نے جہاں دیگر سائنسی علوم و فنون کی طرف پیش رفت کی تو وہیں میڈیکل سائنس کے فروغ کے لئے بھی نئے کالجز اور یونیورسٹیز قائم کی گئیں،جن میں انسانی اجسام کو بطور تجربہ کے استعمال کیا جاتا اور ان کی چیڑ پھاڑ کر طب کے طالب علموں کو تعلیم دی جاتی،
جسے "ڈسیکشن"کہا جاتا تھا۔اس کام کے لئے ان قیدیوں کے جسم تختۂ مشق بنائے جاتے تھے جنہیں سرکاری طور پر سزائے موت کی نوید مل چکی ہوتی۔ قیدیوں کو اپنی موت سے زیادہ اس چیز کا غم ستائے رکھتا کہ مرنے کے بعد نہ جانے ان کے جسموں پر کیا بیتے گی اور کس قسم کے تجربات ان پر
آزمائے جائیں گے۔یہ طبع آزمائی بڑے بڑے تھیٹرز میں سینکڑوں آنکھوں کے سامنے کی جاتی جسے دیکھنے کے لئے لوگ کسی قدر اہتمام سے شریک ہوتے مگر دشواری تب پیش آنے لگی جب جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد گھٹنے لگی اور کالجز کے ذمہ داران کو اس مسلئہ کا شدت سے احساس ہوا۔
ایک گائے راستہ بھٹک کر جنگل کی طرف نکل گئی۔ وہاں ایک شیر اس پر حملہ کرنے کیلئے دوڑا۔ گائے بھاگنے لگی ۔ شیر بھی اُس کے پیچھے دوڑتا رہا۔ گائےنے بھاگتےبھاگتےبالآخر ایک دلدلی جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ شیر نےبھی اس کے پیچھے چھلانگ لگادی لیکن گائے سے کچھ فاصلے پر ہی دلدل میں پھنس
گیا۔ اب وہ دونوں جتنا نکلنے کی کوشش کرتے دلدل میں اُتنا ہی پھنستے جاتے۔
بالآخر شیر غصے سے بھُنَّاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ بدتمیز گائے! تجھے چھلانگ لگانے کیلئے اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی۔ کوئی اور جگہ ہوتی تو میں تجھے چیر پھاڑ کر کھاتا اور صرف تیری جان جاتی، میں تو بچ جاتا لیکن اب تو
ہم دونوں ہی مریں گے‘ گائے ہنس کر گویا ہوئی:’’جناب شیر! کیا آپ کا کوئی مالک ہے شیر مزید غصے سے تلملاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ تیری عقل پر پتھر! میرا کہاں سے مالک آیا؟ میں تو خود ہی اس جنگل کا بادشاہ ہوں، اس جنگل کا مالک ہوں گائے کو پھر ہنسی آگئی، کہنے لگی: ’’بادشاہ سلامت ! یہیں پر
كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔ شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت
كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا. كسان كے جانے کے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا…. اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و
صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔ اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان