بادشاہ مرنے کے بعد بھی خدا ہی رھتا فرعون اور موسی کی کہانی ہر مسلمان نے پڑھی ہےجس میں فرعون کے کردار کو ہمیشہ منفی طور پر جانا جاتا ہے پرسوں قاہرہ مصر میں اس فرعون سمیت ۲۰ دوسرےفرعونوں کی ممیز ان کے اخری ارام گاہ کی طرف لایئ گیں اس منتقلی کی منظر کو دنیا نے دیکھا کہ کس ۱/۱۰
شان و شوکت اور وھی شاھانہ لباس اور موسیقی کی ترنم پر ان کا استقبال کیا گیا اور پر ھجوم راستوں سے رقص کرتی ہویئ پریوں کے جھرمٹ سے موجودہ صدر عبد لفتح السی سی کے سامنے سے لیجایا گیا تاریخ کبھی بھی اپنے اثرات ختم نہیں کرتی بشرطیکہ وہ ساتھ ساتھ لکھی جاتی رھی ہوجس خدا کو موسی نے۲/۱۰
پانی میں غرق کیا آج اسی کی میت آب وتاب سے لیجایئ گی اس کی کیا وجہ ہے کہ فرعون مسسیسپی کی آج بھی اتنی عزت ہے! اس کو جاننے کے لیے ایک واقعہ جو تاریخ کے اوراق میں گم تھا اس کو اپ کے سامنے لاتا ہوں! اس فرعون نے جب ھامون کو کہا کہ وہ خدایئ کا دعوی کرنا چاھتا ہے تو اس کو ھامون۳/۱۰
نے منع کردیا اور کہا کہ تمہیں کویئ بھی خدا نہیں مانے گا اس کے لیے تمہیں ایک کام کرنا ہوگا فرعون نے پوچھا کون سا کام؟ ھامون نے جواب دیا مصر کے جتنے مدرسے ہیں ان میں آج سے تعلیم وکھانا مفت ملنا چاھیے اور ہر بچی اور بچے کو کہا جاے کہ یہ لھانا تمہارے خدا فرعون کی طرف سے ملتا ہے۴/۱۰
بچے بڑے ہوتے گیے اور ان کے دماغ میں دو ہی باتیں تھیں کہ ہمارا رزق اور علم ہمارے خدا فرعون نے دیا ہے دوسرا کام جوھامون نے اس کو کہا کہ پورے مصر میں کسی مصری کے ساتھ ظلم ہو تو اس کو جلدی انصاف ملے کیونکہ خدا عادل ہے! فرعون نے یہ کام مسلسل ۲۰ سال کیا ہر مصری کو مفت کھانا،تعلیم ۵/۱۰
عدل و انصاف! جب بچے بڑے ہوگے اور ان کا دماغ پختہ ہوگیا تو اس نے خدا ہو نے کا دعوی کر دیا جس کو سب نے مان لیا اور اسی کے نام کے ترانے اور عبادت و شاعری کی جاتی! وہ مصری جو کیئ خداووں کی پوجا کرتے تھے اب ایک خدا کی پوجا کرنے لگے اور یہاں سے ایک خدا کا کنسپٹ پیدا ہوا جو بعد ۶/۱۰
میں توحید کہلایا!موجودہ دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں بھی بادشاہ سعودیوں کو عدل بھی دیتا ہے اور رزق بھی صحت و تعلیم بھی مفت مہیا ہوتی ہے جس کے بدلے کویئ سعودی اس کے خلاف نہیں بولتا اور کعبہ سے رزق جاری و ساری رھتا ہے! یہ دو مثالیں دینے کا میرا مقصد صرف اتنا ہے۷/۱۰
کہ معاشرہ اپنی حکومت سے دو بنیادی چیزوں کا دستگار ہوتا ہے پہلی خوراک و تعلیم و صحت اور دوسرا عدل و انصاف ! جب کسی ریاست کا حکمران اپنی عوام کو یہ کہے کہ ان چیزوں کو مہیا کرنے پر میرا نہیں خود ان اداروں کا کنٹرول ہے تو نہ وہ ریاست مدینہ بنتی ہے اور نہ وہ حکمران کبھی یاد۸/۱۰
رھتا ہے بلکہ وہ لوگوں کے دلوں سمیت اس دنیا کی کتابوں سے ہی مٹ جاتا ہے!عوام کبھی بھی بیوقوف نہیں ہوتے کیونکہ ہر عوام میں ایک موسی ضرور موجود ہوتا ہے! جس سے اس کی ریاست مدینہ کا پردہ اسی طرح چاق ہوتا ہے جس طرح دل کے اپریشن میں دل!کیونکہ ریاست مدینہ بھی عدل و رزق کے بنیادی۹/۱۰
اصولوں پر قائم ہوئ ہو گی نہ کہ عورتوں اور بیویوں کو پردے کے ہیچھے چھپا کر بے حیایئ کو روکنے کا نعرہ لگانے سے پوری دنیا میں تسلط قائم کیا ہو! پردہ یا بے حیائ روکنے سے روٹی اور علم مہیا نہیں ہو جاتا البتہ چھوٹی بچیوں اور بچوں کا ریپ بڑھتا چلا جاتا ہے! خان صاحب اخری بار ہے!۱۰/۱۰
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دنیا میں اس وقت تین بڑے مذاھب ہیں یہودیت عیسایئت اور اسلام! یہ تینوں مزاھب ایک دوسرے سے لنک ہیں جن کو کسی بھی طرح توڑا نہیں جاسکتا اور ان کی الہامی کتب میں موجود واقعات زبان کی وجہ سے مفہوم میں مختلف ہوسکتے ہیں مگر ان کے نہ ہونے کا کویئ انکار نہیں کرتا اس طرح کا ھابیل اور ۱/۱۵
قائن/قابیل کا واقعہ اصل میں توریت کی کتاب پیدائش میں درج ہے اور ؤھیں سے عیسایت اور پھر اسلام میں داخل ہوا! جب حوا حاملہ ہویئ تو اس نے قائن کو جنم دیا پھر اس کابھایئ ہابیل پیدا ہوا! ہابیل چرواھا تھا اور قائن کھیتی باڑی کرتا تھا- قصہ مختصر قائن/قابیل نے اپنے بھایئ کا قتل کر دیا۲/۱۵
قائن خدا کے حضور سے نکل گیا اور عدن کے مشرق میں ود کے علاقے میں جا بسا اور قائن/ قابیل اپنی بیوی کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہویئ اور اس نے حنوک کو جنم دیا تب قائن نے ایک شہر بسایا اور اپنے بیٹے کے نام پر حنوک رکھا حنوک سے عیراد پیدا ہوا اور عیراد سے محویا ایل پیدا ہوا۳/۱۵
قران کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے مطالب کسی اور زبان میں اس مفہوم میں کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس لیے ان کو سمجھنے کے لیے سیاق وسباق اور تصریف الایات اورقدیم عربی لٹریچر جو زیادہ تر شاعری پر مبنی ہے سے استفادہ کر کے سمجھا جا سکتا ہے! ان میں ایک لفظ “صلوۂ” ہے۱/۲۳
قران۱۱:۳۷: شعیب کیا تمہاری صلوہ تم کو اس کا حکم دیتی ہے کہ ہم ان کو چھوڑ دیں جن کی فرمانبرداری ہمارے آباواجداد کرتے آے ہیں اور یہ کہ ہم اپنے اموال میں سے اپنی مرضی کے مطابق خرچ نہ کریں”آیت کے دو حصے ہیں اور دونوں کو اگر ملا کر دیکھا جاے تو پتہ چلتا ہے کہ معاشی سسٹم کی ۲/۲۳
بات ہورھی ہے کیونکہ معاشی ناہمواری تنگدستی کا سب سے بڑا سبب ہوتا ہے کیونکہ خود کو اھل ایمان کہنے والوں نے معشیت کو صلوہ سے علیحدہ کر لیا ہے! حضرت شعیب کی قوم کی طرح ہمارا بھی یہی خیال ہے بھلا یہ کیسی صلاہ ہے جو ہمارے نجی معاملات میں دخل انداز ہو رھی ہے۳/۲۳
کمتعہ، نکاح انقطاعی یا نکاح منقطع کے نام سے مشہور مستحب شادی یا ازدواج ہے جس میں خاتون ایک صیغہ پڑھ کر ایک معینہ مدت اور معینہ حق مہر کے بدلے میں اپنے آپ کو ایک مرد کے ساتھ جسمانی جنسی تعلق قائم کرتی ہےاھل تشیع کا اجماع ہے کہ یہ نبی پاک کے زمانے میں رائج طریقہ تھا۱/۱۱
جس سے جنسی سکون حاصل کیا جاتا تھا اور اس میں عقد کر لیا جاتا ہےفاطمی فقہ قران کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں”"فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً" (ترجمہ: تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو”۲/۱۱
آج تک امامیہ کے درمیان کسی نے متعہ کے جائز اور مشروع ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا اور فقہ جعفریہ کی پیروی کرتے ہوئے متعہ کو ایران کے قانون میں تسلیم کیا گیا ہے۔ روایات نیز فقہائے اہل سنت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت ـ حتی کہ رسول خداؐ کے وصال کے بعد ۳/۱۱
یہ فلمیں اس لیے بن رھی ہیں کہ یہ گم ہوگیا ہے-جب بنی اسرائیل اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنے لگے اور کھلم کھلا وہ کام کرنے لگے جن سے اللہ نے انہیں منع کیا تھا تو یہ تابوت ان سے ایک جنگ کے دوران میں کھو گیا اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا- یہ تابوت حضرت طالوت کے زمانے میں واپس۱/۹
اسی بارے میں قرآن میں بھی ارشاد ہے،"۲:۲۴۸:ان لوگوں سے ان کے نبی نے کہا کہ طالوت کے بادشاہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین قلب کا سامان ہے اور وہ کچھ اشیاء بھی ہیں جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے اس کو فرشتے اٹھا کر۲/۹
لایئں گے-“حضرت داؤد کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں تھا اور اس کے لیے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے-لیکن یہ عالی شان گھر حضرت سلیمان۳/۹