ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ محسن نقوی 5، مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے- محسن نقوی کا شجرہ نسب پیر شاہ جیونہ سے جا ملتا ہے
آپ نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا
اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے پر لکھی شاعری بیان کرتے تھے
محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔
نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا
1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔
اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996ء کو لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو
24 مارچ 1928ء میں قصبہ دسویا ضلع ہوشیار پور، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سےتعلیم حاصل کی، روزنامہ جنگ اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک رہے
پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957ء میں شائع کیا، مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر لاہور میں مستقل آباد ہو گئے اور ان کا یہ شعر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ 1960ء کے عشرے ميں انہیں جيل جانا پڑا وہاں انہوں نے کچھ اشعار لکھے ”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر لیے۔ جالب نے 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بہت خوبصورت شاعری کی
جدید شاعری میں فراق کا مقام بہت بلند ہے۔ آج کی شاعری پر فراق کے اثر کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ حاضر جوابی میں ان کا مقابلہ نہیں تھا۔ بین الاقوامی ادب سے بھی شغف رہا۔ تنقید میں رومانی تنقید کی ابتدا فراق سے ہوئی۔
فراق وہ منفرد شاعر ہیں جنھوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں
فیض صاحب اردو کے عظیم شاعر ہیں جو تقسیمِ ہند سے پہلے ١٩١١ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت سٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے
فیض ١٣ فروری ١٩١١ء کو کالا قادر، ضلع نارووال، پنجاب، میں سیالکوٹی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد، سلطان محمد خان، ایک علم پسند شخص تھے۔ وہ پیشے سے ایک وکیل تھے اور امارت افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا
١٩٢١ میں آپ نے سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور یہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔
بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔
ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما۔ جوہر تخلص۔ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ آپ کو بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔
اعلٰی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا
اور کلکتہ جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔
انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔
ناصر کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔ انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ آگے کی تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے تھے۔
ناصر کاظمی وہاں کے ایک ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر بات کرتے تھے۔ تاہم اس کے باوجود بھی ناصر نے بنا بی اے پورا کیے تعلیم ترک کردی۔