یہ بات کس قدر حسیں
جو کہہ گئے معین الدیں
کہ دین کی پناہ حسین ہیں
*خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور عشق امام رضی اللّٰہ عنہ*
جب حضرت امام حسین کا روضہ مبارک مکمل ہوا اور گنبد کے اندر والی سایئڈ پہ اشعار و آیات لکھوانے کا مرحلہ درپیش ہوا
آیات مقدسہ کے بعد باری آئی کسی ایسی منقبت کی کہ جو لاجواب ہو، جس کا کوئی جواب نہ ہو۔ دنیا بھر سے منقبتیں اکٹھی کی گئیں، مراجعین بیٹھے تو سب کا انتخاب ہند الولی، خواجۂ خواجگان کشتۂ عشق حضور معین الدین چشتی اجمیری رح کا شعر ٹھہرا۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
ترجمہ:-
شاہ بھی حسین ہیں، بادشاہ بھی حسین ہیں
دین بھی حسین ہیں، دین کو پناہ دینے والے بھی حسین ہیں
سر دے دیا مگر نہیں دیا ہاتھ اپنا یزید کے ہاتھ میں
حقیقت تو یہ ہے کہ لا الہ الا اللّہ کی بنیاد ہی حسین ہیں
اس شعر میں مناقب و معرفتِ حسین کا ایسا لاجواب خزانہ موجود ہے کہ آج تک بڑے بڑے علماء و درویش ان اشعار کی گہرائی ناپ رہے ہیں۔
یہ شعر حضرت امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کے گنبد کی زینت ہے۔
اگر آپ نے،
گولی والی بوتل پی ہوئی ہے،
ریڑھی سے تازہ لـچھے بنوا کر کھائے ہوئے ہیں،
کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ہے،
رات کے وقت کالا دھاگہ باندھ کر لوگوں کے گھروں کی کنڈیاں "کھڑکائی" ہوئی ہیں،
بنٹے کھیلے ہوئے ہیں،
سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ہے،
شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ" سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ہے،
دو روپے والا نیلا نوٹ استعمال کیا ہوا ہے،
استاد سے مار کھائی ہوئی ہے،
ریاضي کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ہے،
عاد اعظم نکالے ہوئے ہیں،
پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں،
سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ہے،
تختی کو گاچی لگائی ہوئی ہے،
گھر سے آٹا لے جا کر تنور سے روٹیاں لگوائی ہوئی ہیں،
سکول کی دیوار پھلانگی ہوئی ہے،
غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں،
سہ پہر چار بجے "بولتے ہاتھ" دیکھا ہوا ہے،
پی ٹی وی پر کشتیاں دیکھی ہوئي ہیں،
چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کیا ہوا ہے،