رجیم چینج کے نتیجے میں ننگا ہونے والا بادشاہ اور اسکے بین الاقوامی ہینڈلرز اپنی مکمل شکست اور ختم ہوئ ساکھ کو بحال کرنے کی آخری کوشش ضرور کریں گے۔ یہ آخری کوشش سرحدوں پر حملے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ جس کا کامیابی سے دفاع کر کے
"ہم جاگتے ہیں تو آپ سکون کی نیند سوتے ہیں" کو دوہرایا جا سکتا ہے۔ ایسا موقع تین اطراف سے مل سکتا ہے۔ ایران افغانستان اور انڈیا۔ ایران سے صرف چھ سو میل سرحد لگتی ہے ایران میں رجیم چینج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایران میں حالات مستحکم ہوتے تو بی ایل اے کی آڑ لے
کر کوئ مس ایڈونچر بائیڈن اینڈ کمپنی کو یہ موقع فراہم کر دیتا لیکن داخلی انتشار پاکستان میں اہل تشیع افراد کی بہت بڑی تعداد اور ایران کے پاکستان میں موجود اثاثوں کی بناء پر ایرانی جارحیت کسی طور ممکن نہیں ہے۔ منطقی طور پر ہمیں مسئلہ مغربی سرحد افغانستان کی طرف سے
پیش آنا چاہیے جس کی سرحد دو ہزار کلومیٹر کے قریب ہے جہاں امریکی اثاثے داعش ٹی ٹی پی کی صورت میں موجود ہیں لیکن ایک قباحت پھر بھی ہے افغانستان سے باقاعدہ فوجی حملہ نہیں کیا جا سکتا افغان آرمی یعنی طالبان ایسی کوئ کوشش کر کے اپنی اکلوتی اخلاقی سپورٹ ختم نہیں کریں گے
مزید ایسی صورت میں پاکستان میں موجود تیس لاکھ افغانیوں کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا ہو گا۔ جتھوں کی صورت میں جھڑپیں روزانہ کا معمول ہے ایسی کسی جارحیت کی صورت میں دیا جانے والا جواب بھی فیس سیونگ یا ساکھ بحال نہیں کرے گا۔ لیکن ہماری طرف سے حاجی صاحبان و ہمنوا کی کوشش
سے 12 سو کلومیٹر والی مشرقی سرحد یعنی انڈیا کی جانب سے مسلئہ پیدا کیا جائے گا وجوہات سب کے علم میں ہی ہیں پچھتر سالہ دشمنی عمران خان کے آنے کی صورت میں نون لیگ کی صورت میں انڈیا کی مکمل انویسٹمنٹ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ گریٹر پنجاب جیسے پلان چوپٹ ہونا وغیرہ وغیرہ
دوسرے انڈیا باقاعدہ فوج رکھتا ہے اور فالس فلیگ آپریشن کرنے میں ماہر ہیں جسکا نظارہ ہم بالا کوٹ ڈرامہ کی صورت میں کر چکے ہیں۔ ایسا کوئ بھی حملہ پسپا کرنا یا جوابی کارروائی حاجی اینڈ کمپنی کو ملی نغمے بنانے کے بھرپور مواقع فراہم کرے گی۔ اس حد تک جانے کی وجہ صرف ایک ہے
عمران خان کے آنے کی صورت میں پاکستان روس چائنہ بلاک جوائن کرے گا جو جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کی مکمل جبکہ مشرق وسطی سمیت باقی تمام خطوں میں ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔
شخصی اور انفرادی مفادات ہر ادارے میں ہوتے ہیں کیونکہ ادارے انسانوں نے بنانے چلانے ہوتے ہیں جنکی اپنی پسند ناپسند کہیں نہ کہیں ظاہر ضرور ہوتی ہے لیکن ہمارے تمام ادارے چاہے فوج ہو بیوروکریسی ہو پارلیمنٹ ہو یا صحافت جسے ہم مملکت کا چوتھا ستون کہتے ہیں
1- پالیسی میں ناکام ہوگئے ہیں 2- پالیسی کے نفاذ (execution) میں ناکام ہو گئے ہیں 3- پالیسی کے نفوذ (to let it penetrate) میں بھی ناکام ہو گئے ہیں
56 کا آئین پالیسی نہ دے سکا
اور نہ ہی 62 کا آئین
73 میں پالیسی آئی تو عمل ندارد پاکستان کو اسکی ایلیٹ کلاس نے چراگاہ بنالیا
تو انکے بیرونی مربیوں نے شکار گاہ چنانچہ عوام ریوڑ کے ریوڑ ہی رہے۔ لیکن اس بار جب خون آشام درندے حسب معمول اپنی ازلی بھوک سے مجبور ہو کر ریوڑ کی طرف جھپٹے تو نجانے کہاں سے ایک گڈریا صورت شخص نمودار ہوا اور اس نے انہیں بچانے کی کوشش کی کل اس گڈریے کو انتباہی سزا دی گئی ہے کہ
دستیاب معلومات کے مطابق تھری فولڈ assassination attempt کی گئ۔ پسٹل والے کو عوام نے مار دیا فائرنگ کرنے والا ایک شخص پولیس کی تحویل میں ہے کم سے کم ایک شخص نے سڑک کے دائیں یا بائیں سے فائرنگ کی لیکن عمران خان کو اصل خطرہ اس چوتھے سے ہے @ImranRiazKhan
جس کے متعلق دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا تھا۔
"تمہیں قریب سے گولی ماری جائے گی"
اگر حملہ کرانے والا دھمکی دینے والا وہی شخص ہے تو اسکا آخری مہرہ عمران خان کے انتہائ نزدیک موجود ہے۔
پی ٹی آئ لیڈر شپ کو اس وقت انتہائ محتاط رہنا ہو گا کیونکہ چوتھا کوئ قابل اعتبار ترین شخص ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ خان صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں آمین ثم آمین
جنرل احسان نے آڈیو ٹیپ کی اونرشپ نہیں لی نہ ہی اور کسی نے جسکا مطلب ہے کنٹرولڈ لیکس
اس آڈیو سے جہاں آرمی کے نام پر جہاں بغلول کے آپشنز ڈسکس کر کے انکے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے وہیں یہ اسٹیبلش کرنے کی
کوشش کی گئ ہے کہ 1- آرمی پچھلے دو سال سے خان سے ناراض تھی کیونکہ اس کی کارکردگی اچھی نہیں تھی 2- رجیم چینج haphazard نہیں ہے اور نہ ہی کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے
اس آڈیو کا جواب اگر عمران ریاض دیں تو انکی بات زیادہ بہتر سنی جائے گی۔
اگر عمران خان فیل ہو گیا تھا
کارکردگی اچھی نہیں تھی تو پچھلے دوسال سے کرونا کی وجہ سے معیشت اوپر اٹھانے کے کم امکانات کے باوجود 6,7 فیصد گروتھ کیسے حاصل کر لی گئی ؟ یہ گروتھ فرضی نہیں ہے خود موجودہ حکومت اور انٹرنیشنل ادارے تسلیم کرتے ہیں۔
تو پھر یہ لیکس کرانے کا مطلب بغلول کا کالا منہ دھونا ہے یا پھر
یہ 2010 کا زمانہ ہے امریکیوں کو سن گن مل چکی تھی کہ اسامہ پاکستان میں چھپا ہوا ہے چنانچہ سی آئی اے نے ہزاروں کی تعداد میں کانٹریکٹر بھرتی کیے‘ امریکا میں موجود پاکستانی سفیر حسین حقانی سے ویزے لگوائے اور یہ کانٹریکٹرز پاکستان کے
مختلف شہروں میں پھیلا دیے گئے۔ 2010-11ء میں صرف اسلام آباد میں ہزار سے زائد کانٹریکٹرز تھے۔ یہ لوگ پرائیویٹ گھروں میں رہتے تھے امریکی سفارتخانے کے کاغذات استعمال کرتے تھے بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے تھے اور انھیں راستہ روکنے یا مزاحمت کرنے والوں کو
گولی تک مارنے کی اجازت تھی ریمنڈ ڈیوس بھی کانٹریکٹر تھا یہ کسی خفیہ مشن کی تکمیل کے لیے لاہور پہنچا یہ لاہور کے امریکی قونصل خانے میں رہتا تھا قونصل خانے کی گاڑیاں استعمال کرتا تھا اور سارا دن شہر کے مختلف حصوں میں پھرتا رہتا تھا یہ 27 جنوری 2011ء کی صبح پرائیویٹ کار پر قونصل
کیا ایسا کوئ شخص ہے جو ارشد شریف کی شہادت پر رویا نا ہو جس کی آنکھیں اسکا آخری سلام سن کر نم نا ہوئ ہوں۔ سچ کا راہی دیار غیر میں جس سفاکی سے قتل ہوا کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئ مثال ملتی ہے۔ مجھے پاکستانی تاریخ
میں ارشد شریف جیسا اکیلا کوئ
نظر نہیں آیا جس نے اس ملک پر پچھتر سال سے مسلط عسکری و سیاسی نحوست سے اکیلے ٹکر لی ہو۔ آخر کیوں ام حریم اور ان یتیم پریس کانفرنس کر کے کہتی ہیں ہم غدار نہیں ہیں ہم سے غلطی ہو سکتی ہے کیا غلطی ہوئ ..؟
یہ غلطی کہ ام حریم کے لوگ ارشد
کے پیچھے تھے انہیں نے ارشد کو دبئی سے نکلوایا انہی نے اپنے کسی ایجنٹ سے اسے کینیا جانے کا مشورہ دلایا وہی لوگ ارشد کے کینیا پہنچنے سے پہلے کینیا پہنچ چکے تھے وہاں کے سیکیورٹی اداروں کو ارشد کی ایف آئی آرز دکھا کر اسے دہشت گرد قرار دلا چکے تھے۔ اسکے مرنے کے بعد اسکا
ہماری فوج ہمارا سب سے قابل احترام ادارہ تھا۔ زیادہ تر ممالک کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ یہ شاید اس لیے ہے کہ کسی دوسرے ادارے کے ارکان ڈیوٹی کی اتنی قیمت ادا نہیں کرتے جتنی سپاہی کرتا ہے۔
فوج ہے جو ملک کو جوڑے ہوئے ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ بدعنوانی نے فوج کے کلچر میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی فوج نے اقتدار سنبھالا عوام نے زبردست تالیاں بجا کر فوجی حکمرانوں کا استقبال کیا۔
یہ افسانہ آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ فوج کو کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح
ایک تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے پوری گائے ذبح نہیں کریں گے۔
مشرف کے این آر او سے فوج اپنا وقار نمایاں طور پر کھونے لگی۔ یہ اس تبدیلی کا آغاز تھا کہ فوج نے چوری میں حصہ داری کے عمل میں باقاعدہ طور پر شمولیت اختیار کر لی ہے۔