#پاکستان
عورت_برائے_فروخت
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
⬇️
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ
⬇️
برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
میں ہوٹل کے سامنے کار رکی ہوٹل والا مجھے جانتا تھا
⬇️
اس نے جلدی سے کھانا پیک کیا مجھے دیا
میں کار میں بیٹھ گیا آ کر
میں اپنے ڈیرہ کی طرف چل دیا
چوکیدار نے دروازہ کھولا میں کار پارک کی
رات کے 11 بج رہے تھے
وہ مسلسل میری طرف دیکھے جا رہی تھی
میں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا
اسے کہا ہاتھ دھو لو
وہ کہنے لگی میں نے نہیں کھانا
⬇️
میں نے پیار سے کہا ڈرو نہیں کچھ نہیں ہو گا
وہ ہاتھ دھو کر آئی
میرے سامنے کرسی پہ بیٹھ گئی اور کھانا کھانے لگی
جب کھانا کھا لیا تو کچھ کھانا بچ گیا کہنے لگی یہ میں گھر لے جا سکتی ہوں میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
وہ چپ ہو گئی برقع اتارنے لگی میں نے کہا رک جائیں
⬇️
میرے پاس آ کر بیٹھ جائیں
وہ حیران تھی
میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی جلدی سے اہنا کام کریں مجھے واپس چھوڑ آئیں۔
میں نے کہا نہیں پوچھوں گا کیوں کرتی ہو ایسا
کیوں بیچتی ہو جسم
بس اتنا کہوں گا چھوڑ سکتی ہو کیا یہ سب
وہ میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی آپ پاگل لگ رہیں مجھے
⬇️
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا
ہاں پاگل ہی ہوں میں
سب پاگل ہی سمجھتے ہیں مجھے
وہ کہنے لگی اگر کچھ کرنا نہیں ہے تو مجھے واپس چھوڑ کر آو
میں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
پھر پرس سے 10k نکالے اس کے ہاتھ پہ رکھے
وہ حیران تھی کہنے لگی میں نے نہیں لینے
آپ کیوں دے رہے ہیں یہ پیسے
⬇️
مجھے؟
میں نے اس کے چہرے پہ ایک تھکن محسوس کی تھی
وہ اپنے آنسو روکے بیٹھی تھی
بار بار کہہ رہی تھی مجھے بس واپس چھوڑ کر آو
مجھے ڈر لگ رہا ہے.
میں نے اسے یقین دلایا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے
اچھا بتاو نا بہت درد دیا نا زندگی نے
یہ سننا تھا
اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں
⬇️
جیسے کوئی قیامت گر گئی ہو اس پہ
میں سمجھ چکا تھا کوئی بہت بڑا درد لیئے گھوم رہی ہے دروازہ کھولا کانپتی آواز میں بولی مجھے چھوڑ کر آو واپس
میں نے اسے بیٹھنے کا کہا
بتایا میرا نام ....ہے ڈرو نہیں
خود کو محفوظ سمجھو
اسے جب یقین ہو گیا پریشانی والی کوئی بات نہیں تو
بتانے لگی
⬇️
شوہر مر گیا تین بیٹیاں ہیں
سسرال والوں نے نکال دیا
ماں باپ فوت ہو چکے ہیں بھائی کوئی ہے نہیں ماموں کے گھر آئی
ماموں کے بیٹے نے میرے ساتھ زیادتی کی
میں نے جب مامی کو بتایا تو سب نے مجھے غلط کہا
مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا
دور کے رشتہ دار نے ایک بڈھے سے میری شادی
⬇️
کروائی
اس کے بھی بچے تھے
اس کے بچوں نے مجھے بہت ذلیل کیا
پھر وہ شوہر بھی فوت ہو گیا
بیٹیوں کو لیئے در بدر لیئے بھٹکنے لگی
نہ چھت تھی نہ روٹی تھی
بھوک افلاس تھی
سڑک پہ کھڑی تھی ایک صاحب آئے کہنے لگے ایک گھنٹے کے 5 ہزار دوں گا
نہ چاہتے ہوئے ماں کی ممتا حالات کی
⬇️
ستائی ہوئی کیا کرتی آخر چل دی
اب ہر روز جسم بیچتی ہوں کرائے گا گھر لیا ہے بیٹیوں کو اکیلا چھوڑ کر آتی ہوں
کیا کروں بہت بار سوچا خود کشی کر لوں لیکن بیٹیوں کو دیکھ کر ہمت نہیں ہوتی
وہ رو رہی تھی میں زمانے کی بے حسی محسوس کر رہا تھا
اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اس کہا کہ تمہارا
⬇️
بھائی ہے آج سے
تم اپنی بیٹیوں کو لو اور میرے ڈیرہ کے اوپر والے ایک روم میں رہو
وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی
کار میں بٹھایا اس کے گھر پہنچا
بیٹیاں سوئی ہوئی تھیں بہت پیاری تھیں
گود میں اٹھایا دل کو سکون ملا
وہ مسلسل روئے جا رہی تھی
مجھے کہنے لگی آپ فرشتے ہیں
آپ کون ہیں
⬇️
میں اسے اپنے آفس لے آیا
وہ دعائیں دینے لگی جھولی اٹھا کر نہ جانے کتنی دعائیں دیتی رہی میں نے اسے کہا جا کر سو جائیں
اپنے ڈیرہ میں گیا میرے سامنے سے وہ چہرہ گزرا جو ایک لڑکی اپنے شوہر سے جھگڑا رہی تھی
اسے کہہ رہی تھی مجھے طلاق دو تم کو میری قدر ہی نہیں ہے وہ اپنا گھر
⬇️
جلا رہی تھی اپنی بے وقوفی کی وجہ سے
وہ بیچاری کیا جانے زمانے کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں
زمانے کا ڈسنا کیا ہوتا ہے میں بتانا چاہتا تھا اپنا گھر جان بوجھ کر اجاڑنے والی لڑکیوں کو طلاقیں لینا آسان ہے اس کے بعد جینا موت ہے
کبھی ساس کا رونا کبھی نند کا سیاپا کبھی جھٹانی سے لڑائی
⬇️
یہ ہر گھر کی بات ہے۔
اس کا ہرگز مطلب طلاق لینا یا گھر اجاڑنا نہیں ہے کم عمری میں ہی میرے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں ہزاروں آنکھوں کے آنسو دیکھ کر
اپنے گھروں کو آباد رکھو.
عورت خدا کی قسم میرے معاشرے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک قیدی ہے
کبھی باپ کی پگڑی پہ لٹ گئی
⬇️
تو کبھی ساس کے زہر آلود لہجے پہ
کبھی شوہر کی انا پہ خاک ہو گئی تو کبھی اولاد کی وجہ سے
مرد اگر سمجھ جائیں میری اس تحریر کو تو شاید میرا معاشرہ بدل جائے۔
کسی کو کچھ برا لاگا ھو تو معزرت خواہ ہوں۔ 🙏
منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"ابابیلیں"
سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کاؤنٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔
سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔
میری دوائیاں کاؤنٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر
⬇️
بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے
مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے
مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کاؤنٹر پر چُپ چاپ کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا، وہ بار بار اپنے دُبلے پتلے ، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی اور جسم پر لپیٹتی تھی
⬇️
اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔پاؤں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا
'980 روپے'اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیرپیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا
⬇️
جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی
دلیل یہ تھی کہ
تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے أۓ ہو
جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے
یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی
⬇️
تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے.
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے.
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا
خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے
واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی
⬇️
بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی
خاتون نے لکھا ہے کہ :
میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی
ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے
ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد
⬇️
کسی بزرگ نے کہا کہ: "اللہ آپ کو آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا کرے"
جواب دیا کہ ہم زکوٰۃ دیتے ہیں ، صدقہ دیتے ہیں ، کام والی کے بچے کو تعلیم دلوارھے ھیں، ہم تو کافی آسانیاں بانٹتے ھیں
جواب ملا ;
کسی اداس اور مایوس کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اس کی لمبی بات کو
⬇️
تسلی سے سننا آسانی ہے۔
کسی بیوہ کی بیٹی کے رشتے کی تگ ودو کرنا آسانی ہے۔
آفس جاتے ہوے روز کسی یتیم بچے کو اسکول لے جانا آسانی ہے.
اپنی بھوک کے وقت دوسروں کی بھوک کا سوچنا آسانی ھے۔
سسرال کو اتنی عزت دینا جتنی داماد کو دیتے ھیں آسانی ہے۔
کسی بپھرے آدمی کی غلط بات برداشت کرکے
⬇️
اسکا غصه ٹھنڈا کرنا آسانی ہے۔
کسی کی غلطی پر پردہ ڈالنا آسانی ہے۔
ویٹر سے تمیز سے پیش آنا اور اپنے ملازم کی خوشی کا خیال رکھنا آسانی ہے۔
چھابڑی والے کو دام سے کچھ اوپر دے دینا آسانی ہے۔
چوکیدار گارڈ سے گرم جوشی سے گلے لگا کے ملنا
بے آسرا کے بچوں کا حال پوچھنا بھی آسانی ہے۔
⬇️
گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیھٹا ھی تھا کہ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے نوید افضل کا پتہ پوچھ رہے تھے.
مجھ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا اور پاس آئے.کپڑوں کی خستہ حالی اور چہرے پر جھریاں بہت کچھ بتا رہی تھی.
⬇️
بولے بیٹا یہ میرے پتر کا نام ہے.سنا ہے وہ اسی اسلام آباد شہر میں اپنے بچوں کے ہمراہ کچھ سال پہلے آیا تھا.
پھر کاغذ میں لپٹی کوئی چیز نکالی . یہ کسی کی تصویر تھی.مگر تصویر میں نظر انے والا شخص بہت کم عمر نظر آ رہا تھا.
میں نے پوچھا بابا جی یہ ہیں آپکے بیٹے ؟
⬇️
مگر یہ تو بہت کم عمر نظر آ رہے ہیں. بابا جی آپ سے کوئی رابطہ نہیں اور کب سے ؟
لرزتے ہونٹوں سے بولے بیٹا تاریخ یاد نہیں مگر بہت سال پہلے اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی تب اسکی نوکری نہیں تھی .
نوکری کے لیے ٹیسٹ دیا پھر بیوی کو لے کر شہر آگیا تھا.
⬇️
مجھے اپنے ہونہار شاگرد بہت یاد آتے ہیں. اردو میں تلفظ اور املا کی ایسی غلطیاں جن کو چیک کرتے ہوئے غصہ بھی مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے.
کلاس میں بچیوں سے کہا پہلے درخواست سنائیں پھر لکھیں۔
ایک بچی نے بخدمت جناب کو “بدبخت جناب” پڑھا میں نے تصحیح کر دی.
⬇️
پھر اس نے کہا: فوزیہ کو دو دن کی چھٹی عنایت کی جاوے.
میں نے پوچھا: آپکا نام فوزیہ ہے؟ جواب آیا درخواست میں یہی لکھا ہے. وہاں “فدویہ” لکھا تھا.
پرچے میں چچا کے نام خط آیا۔ کسی کے چچا شاید وفات پاچکے تھے۔ خط کے آغاز میں لکھا
“السلام علیکم یا اہل القبور”۔
⬇️
ایک طالب علم خط نویسی میں“امید ہے آپ بخیریت ہوں گے” کو “امید ہے آپ بیغیرت ہوں گے” لکھ ڈالتے ہیں.
پھپھوندی کو پھپھو…ندی پڑھتے ہیں
درختوں پر انجیر لٹکے ہوئے تھے، کو “درختوں پر انجینئر لٹکے ہوئے تھے” پڑھتے ہیں.
اکثر تو گھر جا کر بتاتے ہیں مس کہہ رہی تھیں آپ خود کشی پر دھیان دیں
⬇️
نامحرم کی محبت کو ہمیشہ شیطان مزین کرکے پیش کرتا ہے
بہت دل چاہتا ہے کہ نامحرم سے محبت والی باتیں کی جائیں ،
اس کی محبت اور اس سے محبت کا اعتراف کیا جائے لیکن !
یہ فتنہ ہوتا ہے ، آزمائش ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ میرا فرمابردار بندہ کتنی میری
⬇️
فرمابرداری کرتا ہے ، مجھے راضی رکھتے ہوئے نامحرم کی محبت سے دور ہو گا یا پھر مجھے ناراض کرکے نامحرم کے قریب جائے گا.
بعض اللہ سے سچی محبت کرنے والے لوگ اللہ کے لیے نامحرم کی سچی محبت کو چھوڑ دیتے ہیں ، انہی وقتی طور پر تکلیف تو ہوتی ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ انہیں حلاوت ایمانی
⬇️
نصیب فرماتا ہے ، یہ حلاوت ایمانی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ،
اور بعض کمزور ایمان والے لوگ اللہ کی نافرمانی کرکے نامحرم کے قریب ہوجاتے ہیں ، انہیں وقتی طور پر خوشی ہوتی ہے بس ، کیونکہ گناہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی لذت رکھی ہے
یہ اس گناہ والی لذت کو سکون اور راحت سمجھتے ہیں
⬇️