گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیھٹا ھی تھا کہ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے نوید افضل کا پتہ پوچھ رہے تھے.
مجھ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا اور پاس آئے.کپڑوں کی خستہ حالی اور چہرے پر جھریاں بہت کچھ بتا رہی تھی.
⬇️
بولے بیٹا یہ میرے پتر کا نام ہے.سنا ہے وہ اسی اسلام آباد شہر میں اپنے بچوں کے ہمراہ کچھ سال پہلے آیا تھا.
پھر کاغذ میں لپٹی کوئی چیز نکالی . یہ کسی کی تصویر تھی.مگر تصویر میں نظر انے والا شخص بہت کم عمر نظر آ رہا تھا.
میں نے پوچھا بابا جی یہ ہیں آپکے بیٹے ؟
⬇️
مگر یہ تو بہت کم عمر نظر آ رہے ہیں. بابا جی آپ سے کوئی رابطہ نہیں اور کب سے ؟
لرزتے ہونٹوں سے بولے بیٹا تاریخ یاد نہیں مگر بہت سال پہلے اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی تب اسکی نوکری نہیں تھی .
نوکری کے لیے ٹیسٹ دیا پھر بیوی کو لے کر شہر آگیا تھا.
⬇️
پہلے تو ماں زندہ تھی اب وہ بھی نہیں رہی. میں بھی کوئی کام نہیں کر سکتا.بڑی مشکل سے پتہ لگا کہ وہ اس شہر میں رہتا ہے. میں بڑی مشکل سے یہاں آیا ہوں. زندگی کا کیا بھروسہ بس ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہوں.
مگر بابا جی آپ کب سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہے ہیں؟
بولے کئی دن ہو گئے پتر.
⬇️
بس چلتا رہتا ہوں اور پوچھتا رہتا ہوں لوگوں سے.جہاں رات پڑے سڑک کنارے ہی سو جاتا ہوں.
اتنے میں ایک سرد ہوا کا جھونکا میرے جسم کو ٹھٹھرا گیا.
بابا جی آپکے پاس کوئی ایڈرس نہیں ایسے کیسے آپکو ؟ابھی لفظ منہ میں ہی تھے بولے تو خیر ہے پتر اپنے بیٹے کے شہر میں موت آئی
⬇️
تو اس سے آگے کیا ہے؟
باپ ہوں نا زندگی میں دیکھنا چاہتا ہوں. حشر میں تو پتر سنا ہے اپنی اپنی پڑی ہوگی.
میں نے تو حشر نہیں دیکھی بابا جی مگر حشر دیکھ رہا ہوں.
آنسو میرا چہرہ بھگو رہے تھے. .کہیں اس باپ کی محبت کی قیمت اس شہر کے بیٹوں کو نہ دینی پڑ جاے... ایک دو فون گھمائے اور
⬇️
نوید افضل کا پتہ چل گیا۔
بابا جی کو اس بدبخت بیٹے کے گھر تک لے کر گیا، بیل بجائی تو بٹ مین باہر آیا، بابا جی نے بتایا کہ وہ مینیجر صاحب کے والد ہیں اندر آنا چاہتے ہیں،
ملازم نے چونک کر کہا کہ مینیجر صاحب تو کہتےہیں انکے والدین کا انتقال ہوچکا ہے، اس پر میں نے زور دیا کہ
⬇️
آپ اندر جا کر بتائیں تو کہ باہر کون آیا ہے۔
ملازم سے بحث زور پکڑنے لگی تو بابا جی نے مداخلت کی، بڑے نرم لہجے میں بولے "سویرے کم تے جان لئی تے ایتھوں ای لنگے گا نا؟" میں نے بابا جی سے کہا یہ کیا بات ہوئی آپ مل تو لیں۔۔۔ بابا جی مڑے، چلتے ہوئے گیٹ کے سامنے سڑک پار
⬇️
درخت کے نیچے جا بیٹھے اور بولے، بس یہی سے دیکھ لیا کروں گا، اکھاں نوں ڈھنڈ ای چائ دی اے نا۔
یہ ٹویٹ لکھتے ہوئے بھی میری آنکھیں کئی بار نم ہوئی.بس ایک ہی فقرہ زہن میں گونج رہا ہے .
انہوں نے کہا کہ باپ ہوں نہ دنیا میں ملنا چاہتا ہوں حشر میں تو پتر اپنی اپنی پڑی ہو گی ۔
⬇️
خدارا قدر کریں اپنے والدین کی😭😭😭😭 یہ موتی پھر نہیں ملتے ۔
😭😭😭😭😭
ٓاللہ تعالیٰ ہمیں ماں باپ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماٰے۔ آمین۔
منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"ابابیلیں"
سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کاؤنٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔
سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔
میری دوائیاں کاؤنٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر
⬇️
بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے
مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے
مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کاؤنٹر پر چُپ چاپ کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا، وہ بار بار اپنے دُبلے پتلے ، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی اور جسم پر لپیٹتی تھی
⬇️
اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔پاؤں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا
'980 روپے'اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیرپیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا
⬇️
جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی
دلیل یہ تھی کہ
تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے أۓ ہو
جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے
یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی
⬇️
تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے.
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے.
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا
خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے
واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی
⬇️
بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی
خاتون نے لکھا ہے کہ :
میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی
ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے
ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد
⬇️
کسی بزرگ نے کہا کہ: "اللہ آپ کو آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا کرے"
جواب دیا کہ ہم زکوٰۃ دیتے ہیں ، صدقہ دیتے ہیں ، کام والی کے بچے کو تعلیم دلوارھے ھیں، ہم تو کافی آسانیاں بانٹتے ھیں
جواب ملا ;
کسی اداس اور مایوس کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اس کی لمبی بات کو
⬇️
تسلی سے سننا آسانی ہے۔
کسی بیوہ کی بیٹی کے رشتے کی تگ ودو کرنا آسانی ہے۔
آفس جاتے ہوے روز کسی یتیم بچے کو اسکول لے جانا آسانی ہے.
اپنی بھوک کے وقت دوسروں کی بھوک کا سوچنا آسانی ھے۔
سسرال کو اتنی عزت دینا جتنی داماد کو دیتے ھیں آسانی ہے۔
کسی بپھرے آدمی کی غلط بات برداشت کرکے
⬇️
اسکا غصه ٹھنڈا کرنا آسانی ہے۔
کسی کی غلطی پر پردہ ڈالنا آسانی ہے۔
ویٹر سے تمیز سے پیش آنا اور اپنے ملازم کی خوشی کا خیال رکھنا آسانی ہے۔
چھابڑی والے کو دام سے کچھ اوپر دے دینا آسانی ہے۔
چوکیدار گارڈ سے گرم جوشی سے گلے لگا کے ملنا
بے آسرا کے بچوں کا حال پوچھنا بھی آسانی ہے۔
⬇️
#پاکستان
عورت_برائے_فروخت
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
⬇️
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ
⬇️
برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
میں ہوٹل کے سامنے کار رکی ہوٹل والا مجھے جانتا تھا
⬇️
مجھے اپنے ہونہار شاگرد بہت یاد آتے ہیں. اردو میں تلفظ اور املا کی ایسی غلطیاں جن کو چیک کرتے ہوئے غصہ بھی مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے.
کلاس میں بچیوں سے کہا پہلے درخواست سنائیں پھر لکھیں۔
ایک بچی نے بخدمت جناب کو “بدبخت جناب” پڑھا میں نے تصحیح کر دی.
⬇️
پھر اس نے کہا: فوزیہ کو دو دن کی چھٹی عنایت کی جاوے.
میں نے پوچھا: آپکا نام فوزیہ ہے؟ جواب آیا درخواست میں یہی لکھا ہے. وہاں “فدویہ” لکھا تھا.
پرچے میں چچا کے نام خط آیا۔ کسی کے چچا شاید وفات پاچکے تھے۔ خط کے آغاز میں لکھا
“السلام علیکم یا اہل القبور”۔
⬇️
ایک طالب علم خط نویسی میں“امید ہے آپ بخیریت ہوں گے” کو “امید ہے آپ بیغیرت ہوں گے” لکھ ڈالتے ہیں.
پھپھوندی کو پھپھو…ندی پڑھتے ہیں
درختوں پر انجیر لٹکے ہوئے تھے، کو “درختوں پر انجینئر لٹکے ہوئے تھے” پڑھتے ہیں.
اکثر تو گھر جا کر بتاتے ہیں مس کہہ رہی تھیں آپ خود کشی پر دھیان دیں
⬇️
نامحرم کی محبت کو ہمیشہ شیطان مزین کرکے پیش کرتا ہے
بہت دل چاہتا ہے کہ نامحرم سے محبت والی باتیں کی جائیں ،
اس کی محبت اور اس سے محبت کا اعتراف کیا جائے لیکن !
یہ فتنہ ہوتا ہے ، آزمائش ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ میرا فرمابردار بندہ کتنی میری
⬇️
فرمابرداری کرتا ہے ، مجھے راضی رکھتے ہوئے نامحرم کی محبت سے دور ہو گا یا پھر مجھے ناراض کرکے نامحرم کے قریب جائے گا.
بعض اللہ سے سچی محبت کرنے والے لوگ اللہ کے لیے نامحرم کی سچی محبت کو چھوڑ دیتے ہیں ، انہی وقتی طور پر تکلیف تو ہوتی ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ انہیں حلاوت ایمانی
⬇️
نصیب فرماتا ہے ، یہ حلاوت ایمانی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ،
اور بعض کمزور ایمان والے لوگ اللہ کی نافرمانی کرکے نامحرم کے قریب ہوجاتے ہیں ، انہیں وقتی طور پر خوشی ہوتی ہے بس ، کیونکہ گناہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی لذت رکھی ہے
یہ اس گناہ والی لذت کو سکون اور راحت سمجھتے ہیں
⬇️