جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی
دلیل یہ تھی کہ
تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے أۓ ہو
جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے
یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی
⬇️
تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے.
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے.
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا
خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے
واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی
⬇️
بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی
خاتون نے لکھا ہے کہ :
میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی
ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے
ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد
⬇️
معمور تھے.
روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پرواگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر جانتے
اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا
ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ
برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے.
ٹرین کے سفر کے
⬇️
دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا
جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے تو
سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا
اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا
اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی
⬇️
ایک بار ایسا ہوا کہ
ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی
اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا
اُس نے ڈرائیور سے کہا کہ ;
ٹرین نہیں چلانی
ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ :
جو حکم چھوٹے صاحب
⬇️
کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ
اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا.
لیکن
بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا
بالآخر
بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا
⬇️
چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی
ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے
ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا
بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی
قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی
⬇️
جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیا.
جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاونڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضگی کا اظہار کرنے لگا
وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا
وہ زور زور سے کہہ رہا تھا
⬇️
یہ کیسا الو کا پٹھہ ڈرائیور ہے
ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے
میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا
میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہو گیا کہ :
یہ اُس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے.
یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا
⬇️
وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ
اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے
آج یہ واضع ہے کہ :
ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے
البتہ غلامی کو دیس سے نہیں نکال سکے
یہاں آج بھی کئی 1- ڈپٹی کمشنرز 2- ایس پیز 3- وزرا مشیران 4- سیاست دان 5- جرنیل
⬇️
صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں
اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ
ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالا طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی چاہئیے
⬇️
ورنہ صرف 14 اگست کو جھنڈے لگا کر اور موم بتیاں سلگا کر خود کو دھوکہ دے لیا کیجئیے کہ ہم آزاد ہیں.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"ابابیلیں"
سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کاؤنٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔
سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔
میری دوائیاں کاؤنٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر
⬇️
بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے
مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے
مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کاؤنٹر پر چُپ چاپ کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا، وہ بار بار اپنے دُبلے پتلے ، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی اور جسم پر لپیٹتی تھی
⬇️
اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔پاؤں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا
'980 روپے'اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیرپیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا
⬇️
کسی بزرگ نے کہا کہ: "اللہ آپ کو آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا کرے"
جواب دیا کہ ہم زکوٰۃ دیتے ہیں ، صدقہ دیتے ہیں ، کام والی کے بچے کو تعلیم دلوارھے ھیں، ہم تو کافی آسانیاں بانٹتے ھیں
جواب ملا ;
کسی اداس اور مایوس کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے اس کی لمبی بات کو
⬇️
تسلی سے سننا آسانی ہے۔
کسی بیوہ کی بیٹی کے رشتے کی تگ ودو کرنا آسانی ہے۔
آفس جاتے ہوے روز کسی یتیم بچے کو اسکول لے جانا آسانی ہے.
اپنی بھوک کے وقت دوسروں کی بھوک کا سوچنا آسانی ھے۔
سسرال کو اتنی عزت دینا جتنی داماد کو دیتے ھیں آسانی ہے۔
کسی بپھرے آدمی کی غلط بات برداشت کرکے
⬇️
اسکا غصه ٹھنڈا کرنا آسانی ہے۔
کسی کی غلطی پر پردہ ڈالنا آسانی ہے۔
ویٹر سے تمیز سے پیش آنا اور اپنے ملازم کی خوشی کا خیال رکھنا آسانی ہے۔
چھابڑی والے کو دام سے کچھ اوپر دے دینا آسانی ہے۔
چوکیدار گارڈ سے گرم جوشی سے گلے لگا کے ملنا
بے آسرا کے بچوں کا حال پوچھنا بھی آسانی ہے۔
⬇️
گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیھٹا ھی تھا کہ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے نوید افضل کا پتہ پوچھ رہے تھے.
مجھ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا اور پاس آئے.کپڑوں کی خستہ حالی اور چہرے پر جھریاں بہت کچھ بتا رہی تھی.
⬇️
بولے بیٹا یہ میرے پتر کا نام ہے.سنا ہے وہ اسی اسلام آباد شہر میں اپنے بچوں کے ہمراہ کچھ سال پہلے آیا تھا.
پھر کاغذ میں لپٹی کوئی چیز نکالی . یہ کسی کی تصویر تھی.مگر تصویر میں نظر انے والا شخص بہت کم عمر نظر آ رہا تھا.
میں نے پوچھا بابا جی یہ ہیں آپکے بیٹے ؟
⬇️
مگر یہ تو بہت کم عمر نظر آ رہے ہیں. بابا جی آپ سے کوئی رابطہ نہیں اور کب سے ؟
لرزتے ہونٹوں سے بولے بیٹا تاریخ یاد نہیں مگر بہت سال پہلے اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی تب اسکی نوکری نہیں تھی .
نوکری کے لیے ٹیسٹ دیا پھر بیوی کو لے کر شہر آگیا تھا.
⬇️
#پاکستان
عورت_برائے_فروخت
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
⬇️
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ
⬇️
برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
میں ہوٹل کے سامنے کار رکی ہوٹل والا مجھے جانتا تھا
⬇️
مجھے اپنے ہونہار شاگرد بہت یاد آتے ہیں. اردو میں تلفظ اور املا کی ایسی غلطیاں جن کو چیک کرتے ہوئے غصہ بھی مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے.
کلاس میں بچیوں سے کہا پہلے درخواست سنائیں پھر لکھیں۔
ایک بچی نے بخدمت جناب کو “بدبخت جناب” پڑھا میں نے تصحیح کر دی.
⬇️
پھر اس نے کہا: فوزیہ کو دو دن کی چھٹی عنایت کی جاوے.
میں نے پوچھا: آپکا نام فوزیہ ہے؟ جواب آیا درخواست میں یہی لکھا ہے. وہاں “فدویہ” لکھا تھا.
پرچے میں چچا کے نام خط آیا۔ کسی کے چچا شاید وفات پاچکے تھے۔ خط کے آغاز میں لکھا
“السلام علیکم یا اہل القبور”۔
⬇️
ایک طالب علم خط نویسی میں“امید ہے آپ بخیریت ہوں گے” کو “امید ہے آپ بیغیرت ہوں گے” لکھ ڈالتے ہیں.
پھپھوندی کو پھپھو…ندی پڑھتے ہیں
درختوں پر انجیر لٹکے ہوئے تھے، کو “درختوں پر انجینئر لٹکے ہوئے تھے” پڑھتے ہیں.
اکثر تو گھر جا کر بتاتے ہیں مس کہہ رہی تھیں آپ خود کشی پر دھیان دیں
⬇️
نامحرم کی محبت کو ہمیشہ شیطان مزین کرکے پیش کرتا ہے
بہت دل چاہتا ہے کہ نامحرم سے محبت والی باتیں کی جائیں ،
اس کی محبت اور اس سے محبت کا اعتراف کیا جائے لیکن !
یہ فتنہ ہوتا ہے ، آزمائش ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ میرا فرمابردار بندہ کتنی میری
⬇️
فرمابرداری کرتا ہے ، مجھے راضی رکھتے ہوئے نامحرم کی محبت سے دور ہو گا یا پھر مجھے ناراض کرکے نامحرم کے قریب جائے گا.
بعض اللہ سے سچی محبت کرنے والے لوگ اللہ کے لیے نامحرم کی سچی محبت کو چھوڑ دیتے ہیں ، انہی وقتی طور پر تکلیف تو ہوتی ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ انہیں حلاوت ایمانی
⬇️
نصیب فرماتا ہے ، یہ حلاوت ایمانی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ،
اور بعض کمزور ایمان والے لوگ اللہ کی نافرمانی کرکے نامحرم کے قریب ہوجاتے ہیں ، انہیں وقتی طور پر خوشی ہوتی ہے بس ، کیونکہ گناہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی لذت رکھی ہے
یہ اس گناہ والی لذت کو سکون اور راحت سمجھتے ہیں
⬇️