میں اگر پندرہ سے پچاس سال کے کسی پاکستانی مرد یا عورت سے یہ سوال کروں کہ آج چھبیس دسمبر ہے یکم جنوری کو لاہور کا موسم کیسا ہو گا۔ تو وہ فورا موبائل نکال کر کسی ویدر ایپ کو کھولے گا یا گوگل کے ذریعے بڑے وثوق سے لاہور کا موسم بتا @RoymukhtarRoy @aamirk690 #شاہ_عدن
دے گا۔ اونٹاریو سے لاس ویگاس کا فاصلہ پوچھوں تو گوگل سے صرف کلومیٹرز نہیں بتائیں گے بلکہ پیدل کار بس ہوائ جہاز سے کتنے گھنٹوں میں طے ہو گا یہ بھی بتائیں گے۔ اور گوگل کی دی ہوئ معلومات پر اتنے پریقین ہوں گے کہ بڑی سے بڑی شرط بھی لگا لیں گے۔ بحث کی تو لڑائ کی نوبت بھی آئے
گی۔ گوگل یا انگریزوں کی چھاپی بکس ہماری علمیت کا معیار ہے کیونکہ ہم نے نیوٹن کی گریوٹی تھیوری ایٹم اس میں موجود نیوٹرون پروٹون اور نیوکلس کو قرآن سے نہیں جانا جبکہ قرآن میں سب موجود ہے بلکہ انگریز سائنسدانوں کی وجہ سے جانتے اور مانتے ہیں۔ آج جب میں یہ سب
لکھ رہی ہوں میرے ہاتھ میں موجود موبائل اسے چلانے والا ہارڈوئیر سافٹویئر انٹرنیٹ کی بورڈ اینیمیشن انفارمیشن کا ہر ایک سورس گوگل وکی پیڈیا یہ سب بنانے والے انگریز سائنسدان ہیں سب تسلیم کرتے ہیں لیکن جیسے ہی میں کہوں کہ موبائل سگنلز آپکی دماغی لہروں کو ٹیون کر رہا
ہے تاکہ مستقبل میں آپکو کنٹرول کیا جاسکے فلموں ڈراموں گانوں کے ذریعے آپکی ذہن سازی کی جا رہی ہے تاکہ کریہہ الشکل ایک آنکھ والا دجال قابل قبول لگے تو اکثریت اسے جھٹلانے لگتی ہے جبکہ ایسا میں اپنی طرف سے نہیں کہتی یہی گوگل یہی وکی پیڈیا انگریز سائنسدانوں فلاسفرز ریسرچرز کے
حوالے سے بتا رہا ہوتا ہے۔
یہود و نصارٰی مسلمانوں کے دوست کبھی نہیں بن سکتے دنیا کی آخری جنگ مسلمانوں اور ان مذاہب کے درمیان ہو گی۔
ان احادیث پر سب کو یقین ہے۔
لیکن ہارپ کرونا ایبولا ایڈز قدرتی نہیں بلکہ یہود و نصارٰی کا مشترکہ منصوبہ ہے تاکہ مسلمانوں کی بالخصوص دنیا کی
بالعموم آبادی کم کی جا سکے اس پر یقین نہیں آتا۔
دو سو سال سے دنیا گول ہے چاند رات کو سورج کی روشنی سے چمکتا ہے پڑھانے والا انگریزی نصاب کل انگریز یہ کہہ کر تبدیل کر دیں کہ دنیا چوکور ہے چاند کی اپنی روشنی ہے تو میں آپ اور ہماری کٹ حجت پاکستانی قوم کیا کرے
گی ہمارے پاس کوئ تحقیق موجود ہے نہیں نا۔۔۔۔۔
تو خواتین و حضرات ہمارے پیر نے کہہ دیا رانا ثناء اللہ نے لیٹر جاری کر دیا یا میرے دادا نے بستر مرگ پر بتایا تھا کہ گدڑسنگھی پاس ہو تو پیسہ نواز شریف پر برسنے والی لعنتوں کی طرح برسنے لگتا ہے والے دور سے باہر نکل آئیں کٹ حجت
اور بحث کرنے کے بجائے کچھ سوچنے کھوجنے سمجھنے کا وقت نکالیں ہم عالم اسباب میں ہیں جہاں کامیابی کوشش کرنے والوں کو ملتی ہے۔
جارج آرویل کہتا ہے میڈیا لوگوں کو جس بات پر یقین کرنے کو کہتا ہے لوگ اس پر یقین کرتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔
بعض اوقات حقیقت لفظوں کے بجائے تصویروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے۔
موجودہ ملکی و بین الاقوامی #شاہ_عدن
حالات کو چند بولتی تصویروں سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
لاسٹ اینڈ فائنل اسکے بعد عقلمندوں کے لیے خاموشی اور عمل کی تیزی بچتی ہے جبکہ لاپرواہوں کے لیے یہ صرف فکشن ہے
چھ اپریل سن 1994 دوپہر کے وقت وسطی روانڈا میں گولا باری کر کے ایک کمرشل جہاز کو گرا دیا گیا جس میں روانڈا کے صدر ہیبیاری مانا اپنی سینئر سیاسی قیادت اور برونڈی کے صدر نتاریامرا سوار تھے۔ صدر ہیبیاری ہوتو
قبیلے سے تعلق رکھتے تھے انکی موت کی خبر ریڈیو پر نشر ہوتے ہی ہزاروں ہوتو قبائیلیوں نے توتسی قبیلے کی جانب مارچ کرنا شروع کیا۔ غصے میں بھرے ہوتو قبائلیوں نے توتسیوں پر پہلے پہل پتھر پھینکے اچانک ایک امریکی ہرکولیس طیارہ اس قبائلی ہجوم کے بالکل اوپر سے گزرا
جس کے لوڈنگ ریمپ پر ایک بہت بڑی مائکروویو ڈش نصب تھی۔ جہاز کے گزرتے ہی ہوتو قبائیلیوں کا غصہ آسمان کو چھونے لگا آنکھیں سرخ ہوئ اور وہ غضب ناک اوازیں نکالتے ہوئے توتسی قبائل پر حملہ آور ہو گئے چند ہی منٹوں میں ہزاروں توتسی قبیلے کے کٹے پھٹے
ہم کونسی زمین پر رہتے ہیں۔۔۔؟ سوال اسلیے پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قران مجید میں فرماتے ہیں اللہ الذي خلق سبع سمٰوات ومن الأرض مثلَہُن (الطلاق: ۱۲) (اللہ ایسا ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ان ہی کی طرح زمین بھی سات پیدا کی)۔
اس آیت اور تھریڈ کو لکھنے کا سبب ایک عجیب سی وڈیو بنی۔ آپ میں سے ہزاروں نے سمندر پر بنی فلمز ڈاکیومنٹریز دیکھی ہوں گی کیونکہ نیشنل جیوگرافک پاکستان میں تقریبا ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے The Blue Planet ،Life in The Freezer, Pacific Abyss, بنانے والے
ڈائریکٹر Mike degury نے ایک انٹرویو دیا جس کے آن ائیر ہونے کے چند دن بعد چار فروری دوہزار بارہ کو انکا ہیلی کاپٹر ایک دھماکے سے اڑا دیا گیا مائیک ایک آسٹریلوی فلم ڈائریکٹر کے ساتھ مارا گیا۔ انٹریو میں مائیک نے بتایا کہ وہ Blue Planet مووی کی شوٹنگ کے لیے گلف آف
پچھتر سال سے قائم وطن عزیز میں پنتالیس سال فوجی قیادت اور تیس سال سیاستدانوں نے حکومت کی لیکن آج انفارمیشن کے دور میں کم و بیش ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ ان تیس سالوں میں بھی بالواسطہ طور پر حکومت فوج کی ہی تھی۔ مملکت کی پالیسی @aamirk690 #شاہ_عدن
فوج چلا رہی تھی۔ آج جب میں یہ الفاظ لکھ رہی ہوں اس وقت بھی پس پردہ بوٹ کی حکمرانی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کو حکومت بنانے پالیسی بنانے کا اختیار کس نے دیا۔۔؟
ایسا اختیار قانونی یا اخلاقی دو وجوہات پر ہوتا ہے۔ تو کیا پاکستان کے دستور میں ایسا کوئ قانون ہے جس میں فوج
کو اختیار دیا جائے کہ وہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالے۔۔؟ غالبا ایسا کوئ قانون نہیں ہے۔ فوج انیس سو سینتالیس سے آج تک جب بھی اقتدار میں آئ دستور کو توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا۔ دستور توڑنے کی سزا موت ہے کسی کو ملی یا نہیں یہ الگ قصہ ہے۔ لیکن ایک چیز کی وضاحت ہو گئی کہ فوج کو قانونی اختیار
آج انسٹاگرام دیکھتے ہوئے بول نیوز کا ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں بابا وانگا کی دوہزار تئیس کی پیش گوئیوں کا ذکر کیا جا رہا تھا۔ کلپ میں ایک پیش گوئ تھی کہ دوہزار تئیس میں بچے لیبارٹریز میں پیدا ہوں گے۔
ذاتی طور پر میں پیشگوئی ٹائپ چیزوں پر کم ہی یقین رکھتی ہوں کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن یہ کلپ دیکھتے ہی چار دن پہلے پڑھا ایک آرٹیکل فلیش کی مانند چمکا جسے میں پیور پاکستانی کی طرح ہوائ بات سمجھ کر اگنور کر گئ تھی۔ پڑھیے۔۔ ہاشم الغیالی ایک
جرمن مالیکیولر بائیولوجسٹ ہیں جو فلم میکر پروڈیوسر سائنس کمیونیکیٹر ہیں۔ انکی کمپنی ایکٹو لائف EctoLife بانجھ جوڑوں کو بائیولوجیکل اولاد حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اج سے دس روز قبل انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ ہماری کمپنی ایکٹو لائف سالانہ تیس ہزار بچے
سلیم صافی کی ٹوئٹ تو یاد ہو گی جس میں ام یتیم کی آخری بال کے بعد خان کی حکومت گرائ گئ تھی۔
درحقیقت وہ رجیم چینج کی پہلی بال تھی۔ لاسٹ بال آج کرائ جا رہی ہے الیکٹرانک میڈیا پر شاید ہی خبر آئے کہ امریکی سینٹرل کمانڈ ہیڈ جنرل ایریک کوریلا آج
پاک افغان سرحدی باڑ کا معائنہ کر رہے ہیں اور اس وقت شدید لڑائ جاری ہے۔ چمن کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
سوئ ہوئ قوم کو مبارک ہو عنقریب انکے بہادر جرنیل امریکی آقاؤں کے سامنے سربسجود ہو کر ہوائ اڈے دینے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
یاد رہے ہری جھنڈی جری مجاہد اعظم باجوہ صاحب
عمران خان کے دور حکومت میں ہی دکھا چکے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح قربانی اور ذلت کا طوق اسٹیبلشمنٹ کے ٹوائلٹ ٹشو یعنی پی ڈی ایم کے گلے میں ڈالا جائے گا اور ہمارے سجیلے حاجیوں حافظوں کی بزدلی چھپ جائے گی۔
نئے ڈی جے بابو پریس کانفرنس کر کے کہیں گے کہ ہم تو بیچارے شودے حکم ماننے کے عادی