جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن کو دنیا کا پہلا خشک سالی کا شہر قرار دے دیا گیا! ان کی حکومت نے 14 اپریل 2023 کے بعد پانی فراہم کرنے میں ناکامی کا عندیہ دے دیا ہے۔ دنیا کا المناک سفر شروع ہو چکا ہے!
ایسا وقت ہم پر بھی آسکتا ہے!
1/5 👇
پانی کا استعمال کفایت سے کریں۔
پانی کا ضیاع بند کریں۔
یاد رہے کہ ہم نے لاتور کو بھی ریل کے ذریعے پانی بھیجا تھا!
اس حقیقت کو مت بھولیں کہ دنیا کا صرف 2.7% پانی پینے کے قابل ہے!
علاقے میں مختلف گروپس میں ڈسکشن کریں!
تمام قریبی ڈیم کم ہو گئے ہیں اور زیر زمین پانی کی
2/5 👇
سطح ڈوب گئی ہے۔
ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے آپ اس تحریک کو آسانی سے کامیاب بنا سکتے ہیں۔
1)۔ روزانہ گاڑی دھونے سے بچیں؛
2)۔ صحن میں سیلاب کو محدود کریں؛
3)۔ پانی کے نل کو مسلسل چلانا بند کریں۔
4)۔ بہت سے دوسرے اقدامات کے ساتھ پانی کی بچت؛
امریکی مصنف ڈینیل مارکے اپنی کتاب
”نو ایگزٹ فرام پاکستان“
میں لکھتا ہے کہ ہم امریکن پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے
اسکی وہ تین وجوہات بتاتا ہے
پہلی وجہ
پاکستان کا نیوکلیئر و میزائل پروگرام اتنا بڑا اور ایکسٹینسو ہےکہ اس پر نظر رکھنے کیلئے ہمیں مسلسل پاکستان کےساتھ انگیج رہنا پڑے گا
👇
دوسری وجہ
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے چین کی سول ملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں چین پر نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔
👈 تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کو بلکہ پوری دنیا کو ڈی سٹیبلائز کر سکتی ہے۔ 2/5 👇
پاک فوج پر نظر رکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے
وہ مزید لکھتا ہے کہ ہم نے 72سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو ڈویلپ ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور پاکستان کو اسلامی دنیا کو بھی لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی
جا سکتی
اس کیلئے ہم نے کچھ طریقے اپنائے ہیں 3/5 👇
مسجدوں سے لوگوں خصوصا“ بچوں کی بےرغبتی کے سلسلے میں
میکڈونلڈز کی مثال دینا چاہتا ہوں
وہاں آپ کو پلے ایریاز لازمی ملیں گے
وہ چاہتے ہیں کہ بچے ا پنے والدین سمیت یہاں کھیلنے کودنے آئیں
بچوں کے پلے ایریاز بنا کر ، یہ سارے اسکولز ، مالز ، ریسٹورنٹس ، 1/6 👇
بچپن سے ہی انھیں اپنا "عادی" بنا لیتے ہیں
یہ ایک انتہائی اسمارٹ اور (اپنے کاروبار کے حوالے سے) دور رس سوچ ہے جس کا انھیں زبردست فائدہ بھی ملتا ہے
افسوس کہ اس اسٹرٹیجک سوچ سے ہماری مسجدوں کی انتظامیہ والے بالکل عاری ہیں
گلف ممالک، خاص کر ترکی وغیرہ میں، میں نے مسجدوں میں 2/6 👇
بچوں کو ہنستے کھیلتے دیکھا ہے
پاکستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا
یہاں کی مسجدیں بچوں کے لیے کسی قسم کی کوئی کشش نہیں رکھتیں
نتیجتاً ایک عام بچہ، شروع سے ہی مسجد کے حوالے سے بیزاری پال لیتا ہے
وہاں کا ماحول اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ وہ وہاں سے جلد سے جلد نکل جانا 3/6 👇
مائیکروسیفلی (Microcephaly) نامی بیماری کے شکار بچوں کے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں اورا ن کے دماغ بھی پوری طرح نشوونما نہیں پاتے
ایسے بچوں کو ’دولے شاہ کے چوہے‘ کہا جاتا ہے
یہ ذہنی معذور افراد زیادہ تر شاہ دولہ کے مزار پر رہائش پذیر
1/16
👇
ہوتے ہیں
1879 ء میں ہیری ریوٹ کارنک
(Harry Rivett Cornic) (برطانوی) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباً دس سے بارہ بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو مکینیکل طریقے سے چھوٹا کیا
2/16
👇
جاتا ہے۔
اور اس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے خود بھی ان بچوں کے سروں پر پہنا دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے سر چھوٹے اور دماغ منجمد ہو جاتا ہے۔ یہ عمل ان بچوں کو ذہنی طور پے چوہوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ان کے سوچنے
3/16
👇
تھپڑ اتنے زور کا تھا کہ اس کا سر گھوم گیا اور اس نے آنسو بھری نظروں سے پوچھا صاحب جی میرا قصور ؟؟
صاحب : تم دیکھ کر نہیں گزر سکتے تمھاری گندے بورے ( تھیلا ) سے میری قمیض پر داغ لگ گیا ھے۔
صاحب جی میں تو سائیڈ پر تھا
صاحب : اب جاتا ھے کہ دوں ایک اور؟
1/6 👇
اسکا یہ روز کا کام تھا کہ
سارا دن سڑکوں سے کچرا چننا اور شام کو اسے ایک گودام والے کو بیچ کر سو ڈیرھ سو میں بیچنا ، تمام دن کی ذلت کے بعد بس اتنے ہی پیسے اکٹھے ہوتے کہ گھر کا خرچہ چلانے میں مزدور باپ کی کچھ مدد ہو جاتی
مگر جن کے نصیب کی سیاہی کبھی ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتی 2/6 👇
بچپن سے ہی ذلالت جن کا مقدر ٹھہرتی ھے، جنھیں ساری زندگی دوسروں کے نارواں سلوک سہنا پڑتا ھے وہ ایسے ہی ایک غریب گھرانے کا جشم چراغ تھا اور کل کے تھپڑ نے اس معصوم چراغ کی شخصیت کو چکنا چور کر دیا تھا اور ساتھ زمین پر پڑے نوکیلے پتھر نے اسکی دائیں گھٹنے پر بھی ضرب لگائی تھی
ایک عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ : اُن دنوں جب میں ھالینڈ میں رہ رہا تھا تو ایک دن جلدی میں ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔ بتی لال تھی اور سگنل کے آس پاس کوئی نہیں تھا، میں نے بھی بریک لگانے
⬇️
کی ضرورت محسوس نہ کی اور سیدھا نکل گیا۔ چند دن کے بعد میرے گھر پر ڈاک کے ذریعے سے اس خلاف ورزی "وائلیشن" کا ٹکٹ پہنچ گیا۔ جو اُس زمانے میں بھی 150 یورو کے برابر تھا۔
ٹکٹ کے ساتھ لف خط میں خلاف ورزی کی تاریخ اور جگہ کا نام دیا گیا تھا، اس خلاف ورزی کے بارے میں چند سوالات
⬇️
پوچھے گئے تھے، ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں؟
میں نے بلا توقف جواب لکھ بھیجا: جی ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ کیونکہ میں اس سڑک سے گزرا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے اس خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔
میں نے یہ جان بوجھ کر لکھا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ
⬇️