1/19
"حضرت عبداللہ شاہ قادری المعروف بابا بلھے شاہ رحمتہ اللہ "
آپ
کے والد سخی شاہ محمد درویش مسجد کے امام تھے اور مدرسے میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ بلّھے شاہ نے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے ساتھ قرآن ناظرہ تعلیم کے علاؤہ مروجہ دینی علوم حاصل کیے اور ساتھ ساتھ
2/19
شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہو ئے۔
آپ پہ یار کی نگاہ ناز ہوئی اور سید ہوتے ہوئے بھی ایک آرائیں کے مرید ہوئے اور ملامت کا طرہ سر باندھا اور دیونہ وار محبوب کی یاد میں رقص کناں رہے ۔
وہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے شاہ عنایت کے ہاتھ پر بیعت کی
3/19
بلھے نوں سمجھاون آئیاں
بھیناں تے بھرجائیاں
من لے بلھیا کہنا ساڈا
چھڈ دے پلّا رائیاں
آل نبی اولادِ علی نوں
توں کیوں لیکاں لائیاں؟
بلھے آکھیا !! عشق دیاں ریتاں کسے دی سمجھ نہ آئیاں
جیہڑا سانوں سیّد سدّے
دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے
بہشتیں پینگھاں پائیاں
4/19
رائیں سائیں سبھنیں تھائیں
رب دیاں بے پروائیاں
سوھنیاں پرے ھٹائیاں
تے کوجھیاں لے گل لائیاں
جے توں لوڑیں باغ بہاراں
چاکر ھوجا رائیاں
بلھے شاہ دی ذات کی پچھنا ایں؟
شاکر ھو رضائیاں
آپ قلندرانہ اوصاف کے حامل تھے آپ فرماتے ہیں
5/19
علموں بس کریں او یار
بس ہکو الف تیرے درکار
آپ اپنے شیخ کی محبت میں ایسے رنگے کہ ہر طرف آپ کا ڈنکا بجنے لگا اور ایک شاعر نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیاں کیا ہے
بیٹھا ہووے جے شاہ عنایت اَ گے
بلھا کر کے ہار سنگھار نَچے
6/19
کیوں نہ پتھر وی پگھل کے ہون پانی
جَدوں سامنے یار دے یار نَچے
جُڑے تال نال تال تے ناچ ہُندا
او ناچ کادا جو بے تال نَچے
بلھا اِک دے اَگے نچیا سی
اَگے بلھے دے کئی ہزارنَچے
عشق کی یہ خاصیت ہے جس ذات میں آپ فنا ہوتے ہیں وہی صورت آپ کو عطا کر دی جاتی ہے
7/19
اس بات پہ حدیث قدسی بھی ہے لیکن بیت ضعیف حدیث ہے لیکن پھر بھی آپ کے مشاہدے کے لیے
"من طلبنی وجدنی و من وجدنی عرفنی و من عرفنی احبنی و من احبنی عشقنی و من عشقنی قتله و من قتله فعلی دیته و انا دیته."
ترجمه: الله تعالی نے فرمایا:-
جو میری طلب کرتا ہے وہ مجھے پا لیتا ہے،
8/19
جس نے مجھے پا لیا اس نے میری پہچان کر لی، جس نے میری پہچان کر لی اس نے مجھے اپنا محبوب بنالیا، جس نے مجهے اپنا محبوب بنا لیا وہ مجھ پر عاشق هو گیا جو مجھ پر عاشق هوتا ہے میں اس کو قتل کر دیتا ہوں، جس کو میں قتل کرتا ہوں اس کی دیت مجھ پر لازم ہو جاتی ہے اور میری ذات هی اس
9/19
کی دیت هے."
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نا آکھو کوئی
انہوں نے شاعری میں شرع اور عشق کو ایک لڑی میں پرو دیا اور عشق کو شرع کی معراج قرار دیاان کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جو شرع پر چل کر پیغام حسینیت کو
10/19
فروغ دیتا ہے اور یزیدیت کو ہمیشہ کے لیے شکست دیتا ہے بلّہے شاہ نے پیار محبت کے پیغام کو فروغ دیا عربی فارسی میں عالم ہونے کے باوجود انہوں نے سرائکی کو ذریعۂ اظہار بنایا تاکہ عام لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکیں۔
آپ اپنی شاعری کے ذریعے طاقتور طبقے
11/19
مولوی جو انتشار پسند اور فرقہ پرست تھے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اک پاسے میرے رہن وہابی
اک پاسے دیو بندی
اگے پچھے شعیہ سُنی
تے ڈاڈی فرقہ بندی
وچ وچالے ساڈا کوٹھا
تے قسمت ساڈی مندی
اک محلہ تے اٹھ مسیتاں
میں کدی کراں پابندی؟
چل او بھلیا اُوتھے چلئیے
جتھے رہن عقل دے انے
12/19
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے
تے نہ کوئی سانوں منے
آپ کی شاعری عالمگیر پیغام محبت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور ذات پات ،فرقہ بازی سے بلند کو کر انسان سے محبت کا درس دیا ۔
میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ کے بارے میں
بلھے شاہ دی کافی سن کے ٹرٹدا ک فر اندر دا
13/19
وحدت دے دریا دے اندر اوہ بھی وتیا تردا
آپ کی ذات فذکرونی اذکرکم کا مظہر ہے اور آپ کی مزار آج بھی عاشقوں کے لیے مینارہ نور ہے
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
آخر میں کچھ منتخب کلام حضرت بابا بلھے شاہ کا کلام اور تصویر آپ کے زیر استعمال اشیاء کی ہے جو کہ
14/19
دربار کے
احاطے میں موجود ہیں
اب ہم گمّ ہوئے، پریم نگر کے شہر
اپنے آپ نوں سودھ رہا ہوں، نہ سر ہاتھ نہ پیر
خودی کھوئی اپنا پد چیتا، تب ہوئی گلّ خیر
لتھے پگڑے پہلے گھر تھیں، کون کرے نرویر ؟
بلھا شہہ ہے دوہیں جہانیں، کوئی نہ دسدا غیر
15/19
الف ﷲ نال رتا دل میرا،
مینوں 'بے' دی خبر نہ کائی ۔
'بے' پڑھدیاں مینوں سمجھ نہ آوے،
لذت الف دی آئی
'عیناں تے غینا' نوں سمجھ نہ جانا،
گلّ الف سمجھائی ۔
بلھیا قول الف دے پورے،
جہڑے دل دی کرن صفائی
اوہو بے صورت وچ صورت دے،
بن آپ محمد آیا اے
رکھ سامنے شیشہ وحدت دا،
16/19
اج رب نے یار سجایا اے.
بِن صورت دے رب نئیں لبدا،
اودی شکل نورانی مُکھ رب دا
جے او نہ ہُندا، نہ رب ہُندا،
لولاک خدا فرمایا اے.
اے گل کوئی یار خطا وی نئیں،
جے خدا اُو نئیں تے جُدا وی نئیں
آپے احمد بن کے حمد کرے،
تے محمد نام رکھایا اے.
17/19
بے حد رمزاں دسدا میرا ڈھولن ماہی
میم دے اولے وسدا میرا ڈھولن ماہی
چھیتی بوہڑی وے طبیبا، نئیں تے میں مر گئی آں
تیرے عشق نچایا، کر کے تھّیا تھّیا
ایس عِشقے دی جھگی وچ مور بولیندا
سانوں قِبلہ تے کعبہ سوھنا یار دسیندا
سانوں گھائل کر کے فیر خبر نہ لئی آ
18/19
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
بُلھے شاہ نے آندا مینوں شاہ عنایت دے بُو ھے
جس نے مینوں پوائے چولے ساوے تے سُوھے
جاں میں ماری ھے اڈی سانوں مل گیا پِیا
تیرے عشق نچایا کر کے تھّیا تھّیا
دلوں نماز تُوں پڑھدا ناہیں،
جئی نیتی جئی ناں نیتی
گِٹے گوڈھے مَل مَل دھونا ایں،
19/19
تیرے اندروں گئی ناں پلیتی
دُنیا دے دکھلاوے خاطر،
ایویں پَجھ پَجھ وَرنا ایں مسیتی
بُلھے شاہ چل اوتھے پڑھئے،
جنہاں کدی قضا ناں کیتی!
تحریر پڑھ کے مزہ آیا ہوگا کیونکہ تحریر کے ساتھ ساتھ شاعری کے ٹچ ہیں😊
🙏🙏🙏💐🙏🙏🙏🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
1/6 "حضـــرت موسیٰ علیـہ السلام کے زمانہ کا ایک گناہ گار شخص"
کتاب مُکاشِفۃُ القلُوب : صفحہ 170 , 171"
مصنف : حضرت امام غزالی رحمتہ اللّہ
حضـــرت موسیٰ علیـہ السلام کے زمانہ
میں ایک شخص ایسا تھا جو اپنی توبہ پر کبھی ثابت قدم نہیں رہتا تھا
جب بھی وہ توبہ
2/6 کرتا اُسے توڑ دیتا یہاں تک کہ اُسے اِس حال میں بیس سال گُزر گئے..
اللّہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ میرے اس بندے سے کہہ دو میں تجھ سے سخت ناراض ہوں..
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُس آدمی کو اللّہ کا پیغام دِیا تو وہ بہت غمگین ہوا اور جنگلوں کی
3/6 طرف نِکل گیا.
وہاں جا کر اُس گناہ گار شخص نے ایسی خوبصورت دعا کی کہ اللہ تعالی نے دوبارہ وحی فرمائی.
اُس شخص نے بارگاہِ ربّ العزت میں عرض کی.
اے ربِ ذُوالجـلال..
"تیری رحمت کم ہو گئی یا میرے گناہوں نے تجھے دُکھ دِیا؟
گزشتہ ایک تحریر میں ناظرین سے وعدہ کیا تھا کہ حجر اسود کہ بارئے میں جتنی تفصیل میسر ہو سکی آپ سب کے لیے مہیا کردوں گا تو اب تحریر کا آغاز کرتے ہیں
مسجد الحرام کے مرکز میں خانہ کعبہ کے مشرقی کنارے پر وہ مقدس پتھر نصب ہے جسے دنیا بھر کے مسلمان حجر اسود کے نام سے
2/18
جانتے ہیں۔ طواف کے ابتدا حجر اسود سے کی جاتی ہے اور یہ پتھر زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند ہے۔ حجر اسود کے متعلق تاریخی روایات یہی ہیں کہ حجر اسود یاقوت کا وہ پتھر ہے جسے جنت سے اتارا گیا اور اسے جبل ابو قبیس میں رکھا گیا۔ اس پتھر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں
3/18
اٹھاتے وقت خانہ کعبہ کی زینت بنایا اور اس کے بعد یہ خانہ کعبہ کا ایک جزو قرار پایا۔ حجر اسود سے متعلق سعودی گزٹ نے معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا ہے۔
کہ یہ صرف ایک پتھر نہیں بلکہ یہ پتھر آٹھ چھوٹے ٹکڑوں سے مل کر بنا ہے، جن میں سے سب سے بڑے کی جسامت ایک کھجور کے برابر ہے۔
1/23
"حضرت یوسفؑ کی قبر کاحیرت انگیز واقعہ احادیث کی روشنی میں"
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے،اس نے آپﷺ کی بڑی خاطر تواضع کی،واپسی میں
آپ ﷺ نے فرمایا:کبھی ہم سے مدینہ میں بھی مل لینا۔کچھ دنوں بعد اعرابی آپ ﷺ کے پاس آیا حضور ﷺ نے
فرمایا: کچھ چاہیے؟
2/23
اس نے کہا ہاں! ایک تو اونٹنی دیجیے، مع ہودج کے، اورایک بکری دیجیے جو دودھ دیتی ہو۔
آپ نے فرمایا:افسوس! تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا وہ واقعہ کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:جب کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ
3/23
بھول گئے،ہزار کوشش کی لیکن راہ نہ ملی۔آپ نے لوگوں کو جمع کرکے پوچھا یہ کیا اندھیرا ہے؟
تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرتِ یوسف علیہ السلام نے اپنے آخر وقت میں ہم سے عہد لیا تھا کہ جب مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں۔
1/25
"حضرت خضر علیہ السلام قرآن و حدیث کی روشنی میں"
(حصہ اول)
سورۃ کہف کی آیات ٦٠ تا ٨٢ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک خاص شخصیت سے ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ شخصیت تین کام ایسے سرانجام دیتی ہے جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔
2/25
اور ان سے اسی حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے اپنا راستہ الگ کر لیتےہیں۔ قرآن مجید میں اس شخصیت سے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ احادیث مبارکہ میں اس شخصیت کا تعین حضرت خضر علیہ السلام کے نام سے کیا گیا ہے۔
3/25
مفسرین و مؤرخین کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔
محمد حسین طباطبائی کے مطابق ان کا اصلى نام تالیا بن ملکان بن عبر بن
1/9 "خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ"
😔
دور جدید کے فرعونوں کی فرعونیت اور غریبوں پے ظلم دیکھ غم ذادہ بیٹھے بیٹھے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہہ کی یاد آگئی ایک مختصر سا قصہ ناظرین کی نظر🙏
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل کر حکومت کی.
2/9 راتوں کو اٹھ اٹھ کر پیرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے.
کہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی
ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے.
3/9 اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا .امیر المومنین آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے.آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا، جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہو ں تو
"حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا خانہ کعبہ کی تعمیر کا واقع"
زمین پر خانہ کعبہ پہلا گھر ہے جو اللّٰہ تعالی کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملنے آتے تھے۔
2/7 حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی بڑے ہو گئے تھے۔ طوفان نوح کے بعد حانہ کعبہ کی صرف بنیادیں رہ گئ تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پاس کی پہاڑی سے انہیں پتھر لا کر دیتے
تھے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ کام کرتے تھے۔
3/7 حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اللّٰہ تعالی سے دعا کرتے “اے اللّٰہ تو ہمارے کام کو قبول فرما بےشک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ اے اللّٰہ تو ہمیں اور