لیث بن ابی رقیہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ مال فئی میں عنبر خوشبو لائی گئی۔ ماحول معطر ہوگیا۔ حضرت نے اسے ہاتھ لگا کر دیکھا، پھر منشی سے کہا کہ اسے بازار میں بیچ کر پیسے سرکاری خزانے میں جمع کرا دو۔
اس دوران خوشبو سونگھنے کیلئے آپ نے ہاتھ ناک پر رکھے۔ فوراً ہی غلطی پر متنبہ ہوئے اور پانی منگوا کر وضو کر لیا۔ یعنی ہاتھوں سے اس کی خوشبو بھی صاف کرلی۔ لیث نے پوچھا کہ حضرت، آپ نے اسے استعمال تو نہیں کیا، صرف سونگھا ہی تو ہے، پھر بھی ہاتھ منہ دھونے کی کیا ضرورت؟ فرمایا:
لیث! تعجب ہے تجھ پر، عنبر کا یہی تو فائدہ ہے کہ سونگھا جائے، اسے کھایا پیا تو نہیں جاتا۔ پھر آپ کے پاس مشک خوشبو لائی گئی۔ (ظاہر ہے مشک اور عشق چھپائے کہاں چھپتے ہیں) پھر ماحول معطر ہوگیا تو آپ نے ناک ہی ڈھانپ لی کہ سرکاری خوشبو بھی ناک میں داخل نہ ہو۔ یہ تو مشہور ہے کہ جب
حکومتی امور نمٹا رہے ہوتے تو سرکاری چراغ جلاتے اور جب ذاتی کام کرنے لگ جاتے تو ذاتی چراغ جلاتے۔
سيرة عمر بن عبد العزيز ط-أخرى
المجلد 1: الصفحة 39)
خوف خدا اور فکر آخرت ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر ہمارے منافق حکمراں چونکہ نہ خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور نہ آخرت کا عقیدہ ہے۔
بس بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست اس لئے سرکاری خزانے اور توشہ خانے کو شیر مادر سمجھ کر جیسے لوٹتے ہیں، اس کی اک ادنیٰ سی جھلک ہی سامنے آسکی ہے۔
منقول #توشہ_خانہ