#چلو_چلو_مینار_پاکستان_چلو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک کا اہم ترین جز عبادات نہیں، بلکہ ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ اللّٰہ کی حاکمیت کا اعلان اور انسانوں کو "صرف" اسی سے ڈرنے کا پیغام تھا
سوشل in justice کے خلاف بھرپور جدوجہد کی
عبادات کا مرحلہ اور احکامات
تو بہت بعد میں آئے
ابتداء غلط کو غلط کہنے سے کی۔ اسے قوت سے روکا
آج کا مسلمان رانگ نمبر ہوچکا ہے۔ اس کا سارا زور محض عبادات تک محدود ہوچکا۔ ظلم کو وہ نارملائز کرچکا۔ اس کے خلاف خاموش بیٹھ چکا۔
بزدل، بیغیرت اور بے حمیت ہوگیا۔ اس میں اتنی ہمت بھی باقی نہ رہی کہ زبان سے ہی ظلم
کو روکنے کی کوشش کرلے۔
ہر دور میں، ہر طرح کی صورتحال میں، حق کے ساتھ کھڑا ہونا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے
نجاشی جیسے غیر مسلم بادشاہ کا اچھے لفظوں میں ذکر صرف اس لیے ملتا ہے کہ وہ موقع آنے پر حق کے ساتھ کھڑا تھا (بعد ازاں مسلمان ہوا)
یزید جیسے مسلمان کا برے لفظوں میں ذکر صرف
اس لیے ملتا ہے کہ وہ موقع آنے پر حق کے خلاف کھڑا تھا
زرا سوچیے کہ نجاشی کا اچھے اور یزید کا برے لفظوں میں ذکر کیوں ملتا ہے؟
کیونکہ دین میں، مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ حق اور باطل کی درست پہچان اور اس حوالے سے پوزیشن لینا اہم ترین ہے
ورنہ،
صرف عبادات کا معاملہ ہوتا تو دنیا کے ہر
مذہب میں عبادات موجود ہیں۔ اسلام کی کیا ضرورت تھی؟
اسلام کی ضرورت اس لیے تھی کہ ایک ایسی امت کا ظہور ہو جو باطل کے خلاف "عملی" جدوجہد کرنے کو واجب سمجھتی ہو
آج آپ اپنے ملک میں، اپنے اور اپنی قوم پر ہونے والے ظلم کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں رکھتے، تو کل کو امت کے حق میں کیا خاک
بولیں گے؟
اسلام کی جنگ کیا خاک لڑیں گے؟
میں کسی کو سیاسی ہونے کا "قطعی" نہیں کہہ رہا
آپ کو خود، اپنے طور پر جدوجہد کرنی ہے، بہت شوق سے کیجیے
آپ کو اپنی تحریک چلانی ہے، بیشک چلائیے
آپ کو کوئی سیاسی پارٹی پسند نہیں، تو اپنی جدوجہد کیجیے
پر کسی طور،
کیجیے تو سہی۔۔۔۔۔۔
بولیے تو سہی۔۔۔۔۔۔۔
اوپر سے نیچے تک، دائیں بائیں، ہر جہت میں آپ ظلم و زیادتی دیکھ رہے ہیں، اور لاتعلق ہوکر صرف عبادات پر فوکس کررہے ہیں تو یقیناً آپ کا دینی فہم نہایت ناقص ہے
#آئین_پاکستان_سے_غداری_نامنظور
کمپنی کا الیکشن سے بھاگنا ظاہر کرتا ہے کہ بالآخر انھیں عوامی قوت کا احساس ہو گیا ہے جو پوری ریاستی مشنری اور تمام اداروں کی ملی بھگت کے باجود ان کو عبرتناک شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو معزز گفانڈوز اور منشی پھدڑ سنگھ نے
کمپنی کے حکم پہ جو آئین شکنی کی ہے ، اس کا خمیازہ تو وہ جلد یا بدیر بھگتیں گے لیکن اب کمپنی کا عروج بھی ہمیشہ کےلیے ختم ہو گیا۔ آج کمپنی نے عوامی قوت کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے فرار کی راہ لی ہے۔
قانونی موشگافیوں میں الجھا کر بھی الیکشن سے کتنی دیر بھاگا جا سکتا ہے ؟ کتنی دیر
اس طریقے سے مارشل لاء نافذ رہ سکتا ہے ؟ کمپنی سمیت پڈم ٹولے کا اس کا احساس ہے۔ اب ان کا مقصد صوبائی انتخابات کو کھینچ کر عام انتخابات تک لے جانا ہے لیکن یہ الیکشن سے بھاگ نہیں سکتے۔ عوامی قوت سے خائف یہ وردی پوش غنڈوں پہ اب فرار کی راہیں مسلسل بند ہوتی جا رہی ہیں
#چوروں_کا_یار_خود_بھی_غدار
جس وقت ہم پاکستان کا پوری دنیا کے سامنے تماشا بنا کر، یہاں سے انویسٹمنٹ بھگا رہے ہیں، عین اسی وقت بھارت، دبئی کے بزنس جائنٹ Emaar گروپ کو کشمیر میں انویسٹمنٹ کروانے میں کامیاب ہوچکا
دبئی، بھارتی حکومت کے "زیر انتظام" کشمیر میں انویسٹ کررہا ہے
یعنی،
ریاست دبئی، پاکستان کے بھارتی کشمیر کے حوالے سے سرکاری مؤقف کو کھلم کھلا پیروں تلے روند چکی
یہ بھارت کی بڑی کامیابی ہے
یہ ابتداء ہے۔ اس گروپ کی دیکھا دیکھی، مختلف ممالک کے بزنس گروپ یہاں پر انویسٹمنٹ کرنے میں دلچسپی لینا شروع کریں گے۔
اب یہاں پر گڑبڑ کرنے کا مطلب ہے
انٹرنیشنل انویسٹرز کے مالی مفادات کو زک پہنچانا، جو وہ اور ان کے ملک کبھی برداشت نہیں کریں گے
محنتی اور مخلص قومیں اسی طرح قومی مفادات پر دل و جان سے فوکس کرتی اور نتائج حاصل کرتی ہیں
بھارت نے اس پر برسوں کام کیا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ معشیت سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ دنیا کو نت نئی
#ZamanPark_under_attack
لندن سے بھگوڑا چیختا ہے کہ عمران خان کو ہمارے سر پہ بٹھا رکھا ہے اور وہ پنجاب میں بیٹھ کر ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے۔ اسے یہاں سے نکالو یا مار دو ۔ ایک مہینے میں حالات نارمل ہو جائیں گے پھر میں واپس آ جاؤں گا ،
حافظ ڈرٹی پہ چلاتا ہے کہ یہ شخص تم سے گرفتار
نہیں ہو رہا ۔اس نے ہماری عزت خاک میں ملا دی ہے ،
ڈرٹی ہیری محسن نقوی اور رانا ثنا اللہ کو گندی گالیاں دے کر تلملاتا رہتا ہے کہ اسے پکڑو یا ختم کرو ،
رانا ثناء اللہ اور محسن نقوی آئی جی کو جھاڑ پلاتے ہیں کہ تم کیا کر رہے ہو ،
ایک خراب چھوکری جاتی امرا میں مٹھیاں بھینچ رہی
ہوتی ہے کہ عمران خان ڈان بن چکا ہے ، اس کا قصہ ختم کرو ،
المختصر عمران خان ان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں فول پروف انتظامات اور زمان پارک میں تھوڑ پھوڑ کے باوجود اس کا بچ جانا اور واپس زمان پارک ہی آنا ان کے توقعات کے برعکس تھا ۔ اب اس نے مینار پاکستان پہ اپنے
اسٹیبلشمنٹ کو جب بھی کسی سیاسی لیڈر کو ٹھکانے لگانا ہوتا تو وہ سب سے پہلے اس پر اینٹی اسٹیٹ کا ٹھپہ لگاتے اور کہتے کہ یہ شخص
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سودا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان کی اکثریتی عوام جو کہ پاکستان سے محبت کرتی ہے ان کے بہکاوے میں آ جاتی اور اسٹیبلشمنٹ کا کام آسان ہو جاتا جیسے انہوں نے شیخ مجیب رح کے ساتھ کیا.
اس کے بعد سب سے اہم طبقہ آتا ہے اور وہ ہے مذہبی طبقہ. یہ تو سب کو
ہی معلوم ہے کہ پاکستان میں مذہبی طبقہ بڑے بڑے شہروں سے ملک کے پسماندہ ترین دیہاتوں تک اپنی مضبوط جڑیں مضبوط کر چکا ہے. اور یہی وہ جڑیں ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ بڑی آسانی سے اپنے دشمنوں کے لیے پھان سی کے پھندے میں تبدیل کر دیتی ہے. بس کسی بھی لیڈر کے متعلق یہ مشہور کروا دو کہ وہ شخص