یہ 1982 میں مئی کی 29 ویں سہہ پہر اور شام کے تین بجکر پینتالیس کا واقعہ ہے جب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چاروں طرف دھماکے ہو رہے تھے اور ملٹری ہسپتال میں ایک خاتون زچگی کیلئے یہاں لائی گئی ، فوجی ہسپتال میں سخت سیکیورٹی
👇
نافذ تھی چھت پر نصب توپیں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار تھی ، ہسپتال کے اندر افغانستان کا صدر ببرک کارمل اور ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں ، شاید کوئی بہت اہم معاملہ رہا ہو ، زچگی تھیڑ کے باہر افغان صدر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک شخص اور بھی موجود تھا جس کا قد کاٹھ بالکل
👇
عراق کے صدر صدام حسین جیسا تھا اور وہ فلسطین کے روائتی لباس میں ملبوس تھا بے چینی سے راہداری میں ٹہل رہا تھا ، آدھے گھنٹے کے بعد زچگی روم کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر صاحب باہر آئے اور ایک بچی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی ، افغانی صدر نجیب احمد اور ان کی اہلیہ نے اس فلسطینی شخص
👇
سے بغلگیر ہو کر اسے مبارکباد دی ، یہ شخص پاکستان کے مرحوم وزیراعظم اور ایٹمی بم کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو تھا ، اندر جنم دینے والی خاتون فوزیہ تھیں جو افغانستان کے وزارت خارجہ کے افسر فصیح کی بیٹی تھی اور اس کے والد سی آئی اے اور افغان مجاہدین سے تھا ،
👇
جنم لینے والی بچی کا نام میر مرتضیٰ بھٹو نے فاطمہ رکھا اور اپنی آنکھوں سے لگا لیا
فاطمہ بھٹو جب تین سال کی ہوئیں تو والد اور والدہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ، اختلافات کی وجہ اس کی خالہ ریحانہ اور اس کے چاچو میر شاہنواز بھٹو عرف گوگی کی گھریلو زندگی تھی ، یاد رہے ریحانہ
👇
فوزیہ کی چھوٹی بہن تھی اور میر شاہنواز بھٹو کی اہلیہ تھیں دونوں کی شادیاں چند دنوں کے وقفے سے ہوئیں تھیں مگر دونوں بھائیوں نے شادی کی دعوت مشترکہ منائی تھی ، ایک دن فرانس کے شہر کانز میں میر شاہنواز بھٹو کی لاش ان کے فلیٹ سے برآمد ہوئی تھی اور یہیں سے اختلافات کی آگ اپنے عروج
پر پہنچی گو کہ فرانسیسی پولیس نے اس پرسرار موت کی وجہ زہر خوانی کی بدولت خودکشی بتائی تھی ۔
والدین کی علیحدگی کے بعد والد اسے شام کے دارالحکومت دمشق لے آیا اور تین سال تک اپنی بچی کو ماں بن کر پالتا رہا ، اسے کھلانے پلانے سے لیکر نہلانے دھلانے تک سب کام انجام دیتا رہا پھر اس
👇
کی ملاقات غنویٰ بھٹو سے ہوئی اور یوں غنویٰ بھٹو نے فاطمہ کی ساری ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لے لی
تقریباً گیارہ سال کے بعد 1993 میں فاطمہ کے والد میر مرتضیٰ بھٹو جلاوطنی ترک کرکے پاکستان واپس آئے جہاں فاطمہ بھٹو کی بڑی پھوپھی بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم تھیں اور ان کے شوہر
👇
نامدار آصف علی زرداری تھے ، شومئی قسمت سالے اور بہنوئی کی آپس میں نا بنی اور بات اس قدر بڑھ گئی کہ مونچھوں تک جا پہنچی
19 ستمبر 1996 کو میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے بچوں کے ساتھ سالگرہ منائی 20 ستمبر کو گھر سے یہ کہہ کر نکلے کے رات کا کھانا گھر میں ہی کھاؤں گا
سورج ڈوب چکا تھا
👇
اور رات آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلا رہی تھی ، غنویٰ باورچی خانے میں مصروف تھیں ، فاطمہ بھٹو بالکونی میں اپنے چھوٹے بھائی ذولفقار جونئیر جو اس کے پاس بیٹھا کھیل رہا تھا اور خود کسی کتاب کو پڑھنے میں مشغول تھی کہ اچانک اسے اپنے گھر کے باہر سے دھماکوں کی آواز سنائی دی گولیوں کی
👇
تڑ تڑ تڑ کی مسلسل آوازیں گونج رہی تھیں
فاطمہ نے چھوٹے بھائی کو سینے سے لگایا ، غنویٰ کچن سے نکل کر باہر آئیں اور نوکر سے کہا کہ دیکھو باہر کیا ہو رہا ہے ؟ نوکر کو گیٹ باہر کھڑے پولیس والوں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ باہر ڈاکوؤں سے مقابلہ ہو رہا ہے ۔
مگر بیٹی کو معلوم تھا کہ
👇
کہ اس کے پاپا کے ساتھ آج کل کون دشمنی کر رہا ہے ، فاطمہ نے فوراً ہاٹ لائن پر اپنی پھوپھو بینظیر سے رابطہ کیا جسے وہ وڈی بوا ( مطلب بڑی بوا ) کہتی تھی ، وزیراعظم کے اے ڈی سی نے فون اٹینڈ کیا تو اس نے اپنے تعارف کے بعد کہا مجھے بڑی بوا سے بات کرنی ہے ، اے ڈی سی نے جواب دینے کی
👇
بجائے یہ کہا کہ آپ کے گھر کی طرف تو سب خیریت ہے اور فون رکھ دیا جبکہ اس نے بینظیر کے رونے کی آوازیں بھی سنی تھیں اب اس کی پریشانی بڑھ گئی اس نے پھر فون ملایا اب کے فون اس کے پھوپھا آصف زرداری نے اٹھایا ، فاطمہ نے کہا کہ پھوپھا مجھے بڑی بوا سے بات کرنی ہے جس پر زرداری نے کہا
👇
وہ بات نہیں کر سکتی ، بار بار کہنے پر بھی پھوپھا نے بات کروانے سے انکار کر دیا تو آخر تنگ آ کر اس کے پھوپھا آصف علی زرداری نے کہا کہ
" تمہارا باپ مارا جا چکا ہے "
یہ سنتے ہی فاطمہ کے ہاتھ سے فون کا ریسیور گر گیا اور ریسیور گرتے ہی وہ یتیم ہو چکی تھی۔
باپ کی شہادت کے بعد اس نے
👇
روایتی سیاست پر لات ماری اور قلم تھام کر علم وادب کو اپنے لئے چن لیا۔
دھماکوں میں پیدا ہونے والی بچی دھماکوں میں یتیم ہوئی اور آج وہ علم کی بدولت عالمی سطح پر ہونے والی عالمی ادبی کانفرنسوں کی جز لازم ہے ، اس کے کئی مضامین عالمی سطح پر پڑھے جاتے ہیں ، اس نے کتاب لکھی ہے اور
👇
کئی کتابیں ہنوز لکھ رہی ہیں ، دنیا کے مشہور اخبارات اور میگزین میں ان کے لکھے مضامین اور آرٹیکل چھپتے ہیں
کل رات 28 اپریل 2023 بروز جمعہ بڑی خاموشی سے فاطمہ مرتضی سے فاطمہ گراہم جبران ہو گیئں
کافی عرصے بعد 70 کلفٹن سے کوئی خوشخبری سنائی دی ہے
فاطمہ بھٹو اور گراہم جبران
👇
دونوں تحریر و تصنیف کے شغل سے وابستہ ہیں۔
گراہم جبران بھی مصنف ہیں اور امریکی شہری ہیں
"ہم نے فاطمہ کی شادی کی رسم سادگی سے ادا کی".
ذوالفقار علی بھٹو جونیر کا ٹوئٹ
👇
مگر اس خوشی کے موقع پر ایک چیز کی شدت سے کمی محسوس کی گئی وہ غنوی بھٹو تھیں جنہوں نے فاطمہ بھٹو کی تربیت کی ہے ۔
سات سو سال قبل لکھی گئی ابن خلدون کی یہ تحریر گویا مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے:
“مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے،
👇
اس کے تمام حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے
👇
دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی،
👇
لڑکی کا رشتہ آیا۔ دادی نے کہا.. گھر بھی ہے آمدنی بھی ہے اپنے بھی ہیں ہاں کردو
شادی ہو گئی۔۔زندگی نشیب و فراز کے ساتھ گزر گئی۔
چند دہائیاں مزید گزر گئیں۔۔۔پھر لڑکی کا رشتہ آیا۔۔دادی یا نانی نے کہا کہ گھر بھی ہے، تعلیم بھی ہے، آمدن بھی ہے. ہاں کردیتے ہیں۔۔لیکن لڑکی نے کہا کہ 👇
ماں ان کا اور ہمارا ماحول بہت مختلف ہے، ہاں مت کیجیے گا
ماں سمجھ دار خاتون تھی اس کی سمجھ میں بات آگئی رشتےسے معذرت کر لی گئی
کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔۔اب وقت کچھ اور بھی بدل گیا۔۔ہر زمانے کی ترجیحات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں
ایک محنتی شریف لیکن غریب بچے کا رشتہ آیا ماں نے سوچا کہ
👇
جب میری شادی ہوئی تب میرا شوہر بھی زیادہ امیر نہیں تھا مگر محنتی تھا تو میں نے کچھ عرصہ مشکل لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاری۔۔اس رشتے پر غور کرتے ہیں۔۔
لیکن
بیٹی نے کہا "ماں مجھےامیر شوہر چاہئیے میں اپنی آدھی زندگی آپ کی طرح ترس ترس کر نہیں گزار سکتی۔۔چاہے بوڑھا ہو،
👇
انسانی عادتوں کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی ہے اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتا چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔
👇
یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ”ڈسین میکنگ“ (قوت فیصلہ) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتا چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ”ری چارجنگ“ کی ضرورت ہوتی ہے
👇
اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں۔
ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی
👇
مما مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، مجھے گرلڈ ٹماٹر کھانا ہے!!
میں لرز کر رہ گئی کہ گھر میں اب پھاکنے کو دھول بھی نہ بچی تھی. اچھا میرے لال میں کچھ کرتی ہوں.
یوسف، میرا سات سالہ بیٹا، میرا لاڈلا. وہ میری نیم شبی کی مقبول دعا، جیسے میں نے شادی کے آٹھ سال بعد بڑی
👇
منتوں مرادوں سے پایا تھا. میرے بھورے گھنگھریالے بالوں والا یوسف واقعی یوسفِ ثانی ہے. میرا تو دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ اسے ایک پل کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے دوں مگر دل پر پتھر رکھ کر اسکول بھیجنا ہی پڑا. اس کی جدائی کے آٹھ گھنٹے میرے لیے اٹھ صدی ہوتے. میں گیلری میں
👇
کھڑی اس کی راہ تکتی اور جیسے ہی اسکول بس پھاٹک پر رکتی میں لپک کر دروازہ کھولتی اور اپنی پھیلی ہوئی بانہوں میں اپنی زندگی کو سمیٹ لیتی. گرل ٹماٹر، یوسف کے پسندیدہ سبزی اور وہ ہر روز، دن کے کھانے میں لازمی کھایا کرتا.
آہ !! دس دنوں سے چلتی یہ جنگ. اب میرے گھر میں کھانے کو
👇
ایک تحریر بڑی پرانی
مگر ہر دور میں کوئی نہ کوئی کردار اسے زندہ رکھتا ہے
یہ 1998 کی بات ھے، مصر میں مشہور ڈانسر فیفی عبدو کا طوطی بولتا تھا،حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس تک سب فیفی کے ٹھمکوں کی زد میں تھے۔
قاہرہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد فیفی نے شراب
👇
پینے کیلئے بار کا رخ کیا ،شراب زیادہ پینے کی وجہ سے وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی اور بار میں ہنگامہ کھڑا کر دیا، ہوٹل میں وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور پولیس آفیسر فوراً وہاں پہنچ گیا،اس نے بڑے مودبانہ انداز میں فیفی سے کہا کہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اس طرح کی حرکتیں آپ کو زیب نہیں
👇
دیتی۔
یہ آفیسر خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کیلئے مشہور تھا اس ہوٹل میں قیام کرنے والی اہم شخصیات انہیں پسند کرتی تھیں،
وہ ایک فرض شناس آفیسر تھے۔
فیفی کو پولیس آفیسر کی مداخلت پسند نہ آئی اس نے نشے کی حالت میں ھی اعلیٰ ایوانوں کا نمبر گھمایا اور پولیس آفیسر کا کہیں دور تبادلہ
👇