پھل اور سایہ۔۔۔
دو دن پہلے تو بیٹے سےجھگڑ رہے تھے کہ تم نے توت کا درخت کیوں کاٹا ؟کہہ رہے تھے وہ سایہ دار تھا شدید گرمی میں نرمی کا ساماں کرتا اور پھل بھی خوب دیتا تھا ۔
آج کی بات یکسر مختلف تھی ان کا حکم تھا شام تک سفیدہ کا درخت کاٹ دیا جائے۔⬇️
حیرت سے سوال کیا ۔کبھی آپ درخت کاٹنے پر ڈانٹتے ہیں سفیدہ کے درخت کے بارے میں متضاد رویہ کیوں؟
کہنے لگے کئی سال سے لگا ہے نہ پھل دیتا ہے اور نہ ہی سایہ ساتھ والے درختوں کو بھی پنپنے نہیں دے رہا سارا رس چوس رہا ہے ارگرد کچھ بھی مفید بو نہیں پا رہے۔⬇️
نوابی شان سے بس اکڑا کھڑا ہے۔ اس جگہ امرود اور جامن کا پیڑ لگائیں گے جوپھل بھی دےگا اورسایہ بھی گھنا ہوگا۔
بات درختوں کی ہو رہی تھی۔ ذہن اپنےحکمرانوں میں جا الجھا۔
ایسے ہی تو ہیں۔ اکڑے ،غیر مفید ،نہ پھل دیتے ہیں نہ سایہ ،سارا رس سالہاسال سے نچوڑے جاتے ہیں ۔⬇️
بس فرق اتنا ہے چچاجان نے غیر مفید کو اکھیڑ کر کچھ مفید بونے کا فیصلہ کر لیاہے۔
جب کہ لوگ غیر مفید،رس چوستے ٹولے سے چھٹکارے کا فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے
نہ ہی کچھ مفید بونے کی فکر میں ہیں جو پھل دے اور سایہ بھی فراہم کرے۔ ابھی قوم بانجھ تو نہیں
ہوئی۔شاید کسی نشے کے زیر اثر ہیں سب۔
یا پھر زمین سے زہریلی جڑوں نے رس بچوڑ لی ہے اور اسے کسی مفید درخت کے قابل نہیں چھوڑا
تحریر #آسیہ عمران
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
مجھے ایک بار ایران کے ایک گمنام قصبے میں جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ اصفہان اور شیراز کے درمیان تھا‘ میں اس کا نام بھول گیا ہوں‘ مجھے وہاں رات گزارنا پڑ گئی‘ میں یہ جان کر حیران رہ گیا پورے قصبے میں فریج نہیں تھا‘ میزبان نے بتایا ہم خوراک کو فریج
میں رکھنا گناہ سمجھتے ہیں‘ میں حیران رہ گیا‘ وہ بولا‘ شاہ ایران کے دور میں حکومت عوام کو فریج خریدنے کی ترغیب دیتی تھی‘ قسطوں پر ٹی وی اور فریج مل جاتے تھے‘ پورے شہر نے فریج خرید لیے۔
ہمیں چند دن بعد احساس ہوا ہمارے دل تنگ ہو گئے ہیں‘ ہم نے فالتو کھانا فریجوں میں رکھنا شروع کر
دیا ہے‘ لوگ اس سے پہلے اضافی کھانا ضرورت مندوں یا ہمسایوں میں بانٹ دیا کرتے تھے‘ ہم میں سے ہر شخص اپنی ڈش ہمسائے کے گھر بھجواتا تھا اور ہمسائے اپنا کھانا ہمیں دے دیتے تھے‘ فریج نے میزبانی اور محبت کا یہ سلسلہ روک دیا‘ ہمارے امام صاحب نے ایک دن پورے شہر کو اکٹھا کیا اور فریج
"جب آپ ایسا کچھ دیکھتے ہیں، تو خوفزدہ نہ ہوں، فائر فائٹرز یا پولیس کو نہ بلائیں، حرکت نہ کریں اور انہیں قتل نہ کریں۔
یہ صرف مکھیاں ہیں جو صرف 24 گھنٹے سفر کرتی ہیں اور رکتی ہیں۔ انہیں پریشان نہ کریں اور ان کے⬇️
قریب جانے سے گریز کریں، وہ آپ کو تکلیف نہیں دیں گے۔
اگر آپ مدد کرنا چاہتے ہیں تو چینی کے پانی کے ساتھ ایک فلیٹ پلیٹ یا ٹرے رکھیں۔
شہد کی مکھیاں کھائیں گی، توانائی حاصل کریں گی اور اڑ جائیں گی۔⬇️
ہم سب کو ہجرت کرنے والی شہد کی مکھیوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہماری بقا کی بیمہ ہیں۔
شہد کی مکھیوں کے بغیر، زمین پر کوئی انسان نہیں ہوگا۔ 🐝🧡"
اگر ھو سکے تو ان کالونی بنا کر رکھ لیں تاکہ یہ اس میں سیٹل ھو جایں ان کی حفاظت کی وجہ سے بہار⬇️
مردان ساولڈھیر میں عوام کے ہاتھوں مولانا کے قتل کو عمران خان کے مخالف بڑھا چڑھا کے بیان کر رہے ہیں اور خوشیاں منا کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے کر مذید اگ کو پھونکیں دینے کے مترادف ہے۔۔۔
اس شخص نے عمران خان کے بارے میں نہیں مقامی ناظم کے بارے میں جزبات میں اکر بات کی مقامی ناظم ⬇️
نے بھی اس شخص کو روکنے کی پوری کوشش کی۔
دوسرا کسی کو بھی کسی کو قتل کرنے کا حق نہی یہ حکومت کا کام ہے سزا جزا ۔۔۔
اسکے علاوہ اس شخص کا دماغی توازن بھی چیک کرنا چاہئے تھا
مقامی لوگوں کے مطابق یہ ادھا پاگل تھا مکمل نارمل نہی تھا۔۔۔۔ پاگل کو سزا نہی دی جاتی جس طرح
حضرت عمر حضرت علی کے دور میں پاگل عورت کو قتل کرنے لے جای جا رہا تھااور حضرت علی نے قتل کرنے سے بچالیا تھا کہ یہ مجنون ہے مطلب مکمل ذہنی صحتمند نہی اور حضرت عمر نے حضرت علی کا شکریہ ادا کیا کہ انکو ناحق خون سے بچالیا۔۔۔
بحرحال عوام کو پکڑ کے جیل میں ڈالنا چاہئے تھا
بے شک اسکا کوئی علاج نہیں اور انجام موت ہے بلکہ ڈاکٹر حضرات لواحقین سے دستخط لے کے خود مریض کو زہر کا انجیکشن لگا دیتے ہیں کیونکہ مریض ہر کسی کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے اور جسکو کاٹ لے اس میں بھی Rabies virus منتقل ہو جاتا
ہے. اگر آپ کے علم میں کوئی ایسا مریض آئے تو برائے مہربانی اس کے گھر والوں کو بولیں کہ جو علاج میں ابھی بتانے لگا ہوں یہ ضرور آزما کے دیکھ لیں انشااللہ ضرور شفاء نصیب ہو گی.
عللاج نمبر 1 اگیوامریکانہ Agave Americana یہ قبرستانوں میں عام پایا جاتا ہے ..
پنجابی میں اس کو لپھڑا کیتے ھیں..کشمیر میں اس کو ,, کمال گندل ,, بولتے ہیں اس لیے کہ یہ کمال کی چیز ہے اور بہت سی بیماریوں میں استمال ہوتی ہے ۔۔اسے کیوڑہ بھی کہتے ہیں ۔
پہچان کیلیے اسکی تصویر لگا دی ہے. اس پودے کا ایک پتا مریض کے آگے پھینک دیں وہ خود ہی اسکو
نہلے پہ دہلا
ــــــــــــــــــــــ
ایک دفعہ مولانا ظفر علی خان کے نام مہاشہ کرشن ایڈیٹر "پرتاپ" کا دعوت نامہ آیا جس میں لکھا تھا:
"فلاں دن پروشنا فلاں سمت بکرمی میرے سُپّتر ویریندر کا مُونڈن سنسکار ہوگا۔ شریمان سے نویدن ہے,،⬇️
کہ پدھار کر مجھے اور میرے پریوار پر کرپا کریں۔ شُبھ چنتک کرشن."
( فلاں دن میرے بیٹے ویریندر کی سر مُنڈائی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تشریف لا کر مجھ اور میرے خاندان پر مہربانی کریں۔ )
مولانا نے آواز دی سالک صاحب! ذرا آئیے گا۔ فرمایا کہ مہربانی کرکے اس دعوت نامے کا جواب آپ میری
طرف سے لکھ دیجیے۔
"برسات کے دن ہیں، بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی، میں کہاں جاؤں گا، معذرت کر دیجیے۔"
میں نے اُسی وقت قلم اٹھایا اور لکھا:
"جمیل المناقب، عمیم الاحسان، معلّی الألقاب، مدیرِ پرتاپ السلام علیٰ من اتّبع الھُدیٰ!
نامۂ عنبر شمامہ شرفِ صدور لایا. از بس کہ تقاطرِ
"In a train, two children were running here and there. Sometimes they would fight with each other, and at times they would jump on top of seats.
The father, sitting nearby, was lost in his thoughts ⬇️
In between, when the children looked at him, he would put on an affectionate smile, and then the children would again get busy with their mischief and the father would keep looking at them lovingly.
⬇️
The co-travellers of the train were upset by the children's playfulness and annoyed by the father's attitude. Since it was night time, everyone wanted to rest.