پاکستان کی بطور ریاست ناکامی اور فقیرانہ تشخص کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔
وہ ہے آرمی چیف
تھوڑا تلخ ہے لیکن 47 سے 2023 تک بغور مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آج تک ریاست کی کوئ پالیسی ہی نہیں بنی کیونکہ ریاستی پالیسی چیف آف آرمی سٹاف #لا_الہ_الا_اللہ
کے دفتر میں بیٹھے ایک شخص کی خواہشات اسکی سوچ پر چلتی ہے۔ یہ انسٹیٹیوٹ اتنا یتیم ہے کہ خود اس دفتر میں بیٹھے شخص کو پالیسی دینے سے قاصر ہے۔ نتیجہ جو بھی یہاں بیٹھا اگر مضبوط شخصیت کا مالک سولجر ہو لڑنا چاہتا ہو تو 65 ہو جاتا ہے یا کارگل کا محاذ کھلتا ہے #لا_الہ_الا_اللہ
بزدل اور کمزور شخصیت کا مالک جاہ پسند ہو تو 71 ہوتا ہے یا انڈیا میں آرٹیکل 370 ختم ہوتا ہے۔
نظریہ ریاست کے خدوخال بناتا ہے اور سیاستدان ان کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی پالیسیز تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اصول مکمل طور پر اپنایا جائے تو ریاست کے چاروں
ستونوں میں سے کسی ایک پر کمزور شخصیت براجمان بھی ہو جائے تو بقیہ تین کی ثابت قدمی اور پالیسی کا تسلسل بگاڑ نہیں ہونے دیتی۔ بدقسمتی سے جس نظریہ پر پاکستان قائم ہوا جن لوگوں نے ریاست کے خدوخال تشکیل دینے تھے وہ قیام کے چند برسوں بعد ہی یا #لا_الہ_الا_اللہ
تو جلاوطن ہو چکے تھے یا مارے جا چکے تھے۔ اقتدار سکندر مرزا ایوب خان یحییٰ خان جیسوں کے پاس رہا جن کا نا تو ریاست کے قیام میں کوئ کردار تھا نا ہی وہ قیام پاکستان کے نظریے سے متفق تھے۔ یہ لوگ جاہ پسند موقع پرست تھے جنہیں اقتدار چاہیے تھا اور اپنے اقتدار #لا_الہ_الا_اللہ
کو دوام دینے کے لیے انہوں نے من پسند لوگ سیاست میں داخل کیے۔ طاقتوروں کے طفیلی سیاستدانوں نے اپنے آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے خوشامدی مفاد پرستوں کی پوری لاٹ کو سپورٹ کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کا ہر کلیدی عہدہ ان پڑھ جاہل موقع پرستوں #لا_الہ_الا_اللہ
کی میوزیکل چئیر بن گیا۔
پالیسی ساز ادارے یعنی ایوان بالا یا زیریں میں براجمان لوگ اول تو اس قابل تھے نہیں کہ ریاست کی سمت یا پچیس تیس سال کیلئے کوئ پالیسی بناتے دوئم کسی نے ذاتی یا کاروباری مفاد کی خاطر کوشش کی تو اسی آفس میں بیٹھے شخص کے مفادات #لا_الا_الہ_اللہ
سیاستدانوں کے مفادات سے متصادم تھے نتیجہ یا تو سیاستدان پھانسی چڑھا یا پھر ٹھڈے مار کر ایوان اقتدار سے نکال دیا گیا۔ ریاست کی بدقسمتی کا یہ چکر چلتا ہوا 2018 تک پہنچا تو ایک ایسا شخص اقتدار میں پہنچ گیا جس کے پوری دنیا میں کاروباری یا ذاتی مفادات نہیں تھے #لا_الا_الہ_اللہ
اس کے پاس صرف پچھتر سال پہلے والا نظریہ تھا۔ اپنے اسی نظریہ کے باعث اقتدار سے نکالا گیا اور آج وہ نظریہ اس ایک دفتر میں موجود شخص کے مفادات سے متصادم ہے۔ یہ جنگ عمران خان کی جنگ نہیں ہے یہ اقتدار اور اختیار کی جنگ بھی نہیں ہے
9 مئ کو کلفٹن کے ایک پٹھان ٹرانسپورٹر کو بنک سے کال موصول ہوئ کہ آپکی اکسٹھ لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن میں مسئلہ ہے آپ بنک آئیں مذکورہ ٹرانسپورٹر جیسے ہی بنک پہنچا اسے بٹھا لیا گیا اس کے ساتھ آٹھ اور ٹرانسپورٹرز جو نیازی #ReleaseImranRiazKhan
قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بنک میں موجود تھے۔ دو گھنٹے بعد اچانک پولیس آئ اور سب کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام کی جانب لے کر چل پڑی راستے میں سوال پوچھنے پر شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک بلڈنگ میں تمام کاروباری افراد کو رکھا گیا اور پوچھا گیا کہ آپ رقم کہاں
منتقل کر رہے تھے۔ نیازی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹرز کو ننگا کر کے رسیوں سے الٹا لٹکایا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان سے حلف نامہ لیا گیا کہ انکی ٹرانسپورٹ انکی سپورٹ پی ٹی آئ کیلئے استعمال نہیں ہو گی۔
جس وقت یہ لوگ حراست میں تشدد برداشت کر رہے تھے اس دوران
مسلمان جنگجوؤں کو نمبر ون بنانے والے ایلیمنٹس کیا ہیں۔۔۔؟
ایک لفظ میں سب کو لکھا جائے تو وہ لفظ ہو گا
"نظریہ"
حق کے لیے لڑنا شہادت کے لیے لڑنا سب ایک نظریے کی وجہ سے ہے جو اسلام ہمیں دیتا ہے۔
تو کیا یہ نظریہ صرف فوج کیلئے مختص ہے صرف فوجی گولی کھا کر #ReleaseImranRiazKhan
مسکرا سکتا ہے کوئ سویلین کیوں نہیں اسلام تو سب کا ایک ہی ہے۔
دراصل آج تک جنگ کے علاوہ سویلینز کبھی نظریے کیلئے کھڑے ہی نہیں ہوئے تھے۔ خان نے
لا الہ الااللہ
کہا اپنے حق کیلئے کھڑے ہونے کا درس دیا تو نوجوان کھڑے ہو گئے۔
پہلے ربڑ بلٹس آگ اور دھویں #ReleaseImranRiazKhan
میں رقصاں نوجوان نظر آئے اور کل گولی کھا کر مسکرانے والے دیوانے جو کمپنی سے اپنی آزادی اشرافیہ سے اپنے حقوق چھیننے کیلئے پرعزم ہیں۔
کمپنی + اشرافیہ کو ڈر ہے کہ انکی تعداد پانچ ہزار بھی نہیں ہے اور نظریے کی خاطر لڑنے والے پندرہ کروڑ نوجوان قطار میں کھڑے ہیں۔ #ReleaseImranRiazKhan
حالات عراق کی طرز پر خراب ہو رہے ہیں۔ آج سے پچیس سال قبل کا عراق بالکل ایسا ہی تھا جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کے پالتو جرنیل صدام کے رشتہ دار عوام پر ظلم ڈھا رہے تھے۔ میڈیا کنٹرولڈ تھا ظلم کو دہشتگردوں کے خلاف جنگ کہہ کر سرکاری بیانیہ
نشر کر دیتا تھا۔ پھر ہوا کیا۔۔۔۔؟ ڈالر کے بجائے دیگر کرنسی میں تجارت کا فیصلہ صدام حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ امریکہ نے حملہ کیا تو ڈکٹیٹر کے حکم پر ظلم کرنے والی عراقی فوج راتوں رات غائب ہو گئ کیونکہ انکی جڑیں عوام سے محبت نہیں بلکہ نفرت سے جڑی تھی اسی لیے دس
سے پندرہ لاکھ کے درمیان ٹرینڈ فوج رکھنے والے عراق پر چند ہزار امریکیوں نے نو سال تک قبضہ کیے رکھا۔ ظالم عراقی جرنیلوںجرنیلوں اور صدام کے رشتہ داروں کو عوام نے خود مخبری کر کے امریکیوں کے ہاتھ قتل کروایا یا انکی عوام کے ہاتھوں ذلت آمیز موت ہوئ۔ ان جنرلز کے پاس چھپنے کی جگہ نہیں
خاکم بدہن خان کو حکومت مل بھی گئی تو نہ مراد سعید ملے گا اور نہ گنڈاپور۔
گوراپلٹن کی پود نے قرآن پر حلف دے کر بلوچ رہنما کو پہاڑ سے اتارا تھا اور پھر اسی حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہید کردیا تھا خدا کرے میرے خدشات غلط ہوں لیکن گنڈاپور کا جارحانہ لہجے میں کہنا
کہ ہم اپنے لوگ لا کر خان کی حفاظت کریں گے وغیرہ غیرہ گوراپلٹن کی خاکی نرسری کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا اور مراد سعید کا جرم تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ اس نے جی ایچ کیو جانے والی سڑک پر جلسہ کردیا تھا اور سوات میں گوراپلٹن کی پود کے "ڈیزائن" کے بارے میں شعور پھیلا رہا
ہے۔
رنگ آمیزی کے لیے ایسے کسی معاملے کو کسی (سیاسی) کی "خواہش" قرار دینے کا مطلب اپنے ہاتھ صاف دکھانا اور "مجبوری" کا تاثر دینا ہوتا ہے
کمپنی کے گھسے پٹے رجسٹر کے تحت سیاسی یا غیر سیاسی آڑ ضرور پیدا کی جاتی ہے لیکن اصل کام ہمارے "لمبڑ ون" اپنے مرضی اور ایجنڈے کے تحت ہی کرتے
قوم راہنما کو فالو کرتی ہے۔ راہنما وہ راستہ دکھاتا ہے جس پر چل کر عروج حاصل کیا جاتا ہے۔
قائد نے ایمان اتحاد تنظیم دیا جو کسی بھی قوم کی ترقی کا منشور ہو سکتا ہے۔
افسوس وہ یہ منشور نافذ کرنے سے پہلے رحلت فرما گئے۔
اس کے بعد ہمیں صرف نعرے ملے منشور نہیں کسی نے
روٹی کپڑا اور مکان
کا نعرہ دیا
کوئ
مانگو کیا مانگتے ہو جیبیں بھر
کر لایا ہوں بیچتا رہا۔
اور کسی نے
بھٹو زندہ ہے
کا تحفہ دیا۔
درمیانی عرصہ میں وردی پہنے ڈاکو مسلط رہے۔
جنہوں نے قوم کو پاکستان فرسٹ کا نعرہ دے کر لاکھوں پاکستانی ذبح کروائے منشور کے نام پر انکے پاس کلاشنکوف اور ہیروئن تھی۔
قائد کے بعد حقیقی منشور " لا الہ الا اللہ " دینے والا زیر عتاب ہے۔
اسکا شلوار قمیض تسبیح " ایاک نعبد و ایاک نستعین" فرنگی غلاموں کو قبول نہیں۔
اگر ہم خوش قسمت رہے تو منزل پا لیں گے ورنہ پچھتر سال سے بھٹک بھی رہے ہیں ذلیل و رسواء بھی ہیں۔
انجام کار تقسیم ہو کر ختم بھی ہو جائیں گے۔
کل ایک میجر کو بیوروکریٹ کے چشم و چراغ نے طاقت دکھائ جواب میں میجر نے اپنی طاقت دکھائ۔
آئین اور قانون کی بات کو سائیڈ پر رکھتے ہیں کیونکہ ہم سرزمین بے آئین و قانون کے باسی ہیں۔
رد عمل کو ڈسکس کرتے ہیں۔
ہر اس ٹوئٹ پر جہاں اس واقعے کو بیان کیا گیا عوام @OfficialDGISPR
جذبات کچھ یوں تھے۔
کتے آپس میں لڑ پڑے۔
سؤروں کے درمیان لڑائ ہو گئ۔
مزا آیا۔
تالیاں۔
ایک دوسرے کو مارا کیوں نہیں۔
یقین کیجئے پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے نے اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اس جھگڑے کو اپنی تکلیفوں اور سختیوں کے چھوٹے سے کفارے کے طور پر دیکھا۔
ہمدردی اور مذمت کہیں دور دور
تک نظر نہیں آئ۔
یہ رویہ یہ سوچ ہماری سالمیت اور آپکے وجود کیلئے انتہائی تباہ کن ہے۔
صرف ایک سال پہلے کسی ایک شہادت پر پورے پاکستان کی جانب سے عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کیے جاتے تھے۔ آج رسمی محبت نبھانے والے انگلیوں پر گنے جاتے ہیں۔
فوج کی گزرتی گاڑیوں کو راستہ دینا سیلوٹ کرنا