چئیرمین عمران خان سر نے آج ٹوئیٹر سپیس پر بات کرتے ہوئے اس سارے کیس پر پہلی دفعہ اپنا موقف دیا، اس کو سمجھنا ہر انصافی پر فرض ہے تا کہ سوشل میڈیا پر اس کا موقف اور بیانیہ پھیلا سکیں۔ خان صاب نے کہا کہ
ہم بطور مسلمان باتیں تو بہت
کرتے ہیں لیکن ہمارے اندر عمل کی شدید ترین کمی ہے جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ میں نئے لیڈرز اور ویژنری لوگ پیدا نہیں ہو رہے۔ اس بات کا مجھے بہت دکھ تھا اور ہے۔ اس لیے میرا ایک خواب تھا کہ میں ایک ایسی یونیورسٹی بناؤں جہاں پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سہی اور حقیقی
تعلیمات دی جائیں تا کہ اگلی نسل میں وہ اوصاف پیدا ہوں جو صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں میں تھے جس نے مسلمانوں کو سپرپاور بنایا تھا اور ہماری فیوچر لیڈرشپ پیدا ہو سکے
اب ہوا یہ کہ ملک ریاض نے کہا کہ وہ القادر یونیورسٹی کو سپانسر کرے گا۔ اس سلسلے میں مئی 2019 میں اس کا
افتتاح ہوا اور ٹرسٹیز میں عمران خان اور اہلیہ عمران خان شامل ہیں۔ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق ٹرسٹیز کی کوئی تنخواہ نہیں ہے، ٹرسٹیز کا کام رضاکارانہ طور پر اوور سائٹ کے لیے ہے۔ یہ سب کچھ ٹرسٹ ڈیڈ میں لکھا ہوا ہے
دوسری طرف برطانیہ میں دسمبر 2019 میں ملک ریاض حکومتِ برطانیہ کے ادارے
این سی اے کے درمیان ایک خفیہ ایگریمنٹ سائن ہوا، حکومتِ برطانیہ نے ملک ریاض کی کچھ مشتبہ ٹرانزیکشنز پکڑی تھیں اور ملک ریاض نے کہا وہ یہ رقم 190 ملین پاؤنڈز سپریم کورٹ پاکستان کو واپس کر دے گا۔ این سی اے نے حکومتِ پاکستان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ اس معاہدے کو مانتے ہیں ؟
اگر حکومتِ پاکستان ہاں کرتی ہے تو یہ 190 ملین پاؤنڈ پاکستان آ جائیں گے اور اگر نہیں مانتے تو پھر آپ کو پوری رقم کے حصول کے لیے برطانیہ میں این سی اے کے خلاف کیس کرنا ہو گا
اب یہ معاہدہ کابنیہ کے سامنے آیا تو ہم نے اس پر لندن کے معروف وکلاء سے مشورہ کیا جنہوں نے بتایا کہ ہم
ماضی میں بھی ایسے کئی کیسز ہار چکے ہیں کیونکہ برطانوی عدالت کو کو ثابت کرنا ہو گا کہ یہاں سے برطانیہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے تو یہ وائٹ کالر کرائم ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کیس بھی ہار جائیں، اس رقم سے بھی جائیں اور الٹا جرمانہ بھرنا پڑ جائے اور یہ کیس بھی کم سے کم دو
چار سال چلے گا
اس سب کے بعد کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم این سی اے برطانیہ کا معاہدہ منظور کرتے ہیں اور اس طرح وہ 190 ملین پاؤنڈز سپرریم کورٹ پاکستان کے اکاؤنٹ میں آ گئے۔
وہ 190 ملین پاؤنڈ اس وقت سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پڑا ہوا ہے ، پیسہ واپس آ چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سے
عمران خان کو کیا فائدہ ہوا ؟ القادر یونیورسٹی کے اس پیسے سے عمران خان کو کیا فائدہ ہوا ؟ پیسہ تو سارا سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پڑا ہوا ہے اور یونیورسٹی پر تو ابھی تک ایک روپیہ لگا ہی نہیں تو کرپشن کیسے اور کہاں ہوئی اور عمران خان یا اہلیہ عمران خان پر کیا چارجز ہیں ؟
اب یہ ہے سارا کیس ۔۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ملک ریاض نے سیرت النبی کی تعلیمات پر یونیورسٹی بنانے کے لیے اس کی ذمہ داری لی اور آج جب مقدمہ لڑنے کا وقت آیا تو وہ چپ کر کے الٹا عمران خان کے خلاف ہو گیا۔ عمران خان کو چاہے پھانسی دے دو، ملک ریاض بس
اتنا بتا دو کہ روزِ محشر آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منہ کیسے دکھاؤ گے ؟
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے فوراً بعد ایک امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے ایڈمرل مائیکل ملن کو یہ پیغام پہنچایا کہ ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد فوج پر شدید ترین تنقید کی جا رہی ہے اور فوج اپنی خفت مٹانے کے لیے جمہوریت کا تختہ الٹ دینا چاہتی ہے، اس لیے صدر زرداری کا آپ
کے لیے پیغام ہے کہ آپ پاکستان کے خلاف ایک بڑا آپریشن کریں اور پاک فوج کی ہائی کمان بھی سنبھال لیں اور جوہری پروگرام تک رسائی بھی ہم آپ کو دے دیں گے۔ تا کہ جموریت پر سے یہ فوجی خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل سکے۔
ایڈمرل ملن نے اس غیر دستخط شدہ میمورنڈم کو زیادہ اہمیت نہ دی جس کی وجہ سے
معاملہ آگے نہ بڑھ سکا لیکن پاکستانی سیاست میں بھونچال اس وقت آیا جب منصور اعجاز نے 10 اکتوبر 2011 کو فنانشل ٹائمز میں یہ انکشافات کیے کہ یہ میمورنڈم حسین حقانی نے لکھا تھا جس پر میڈیا میں طوفان آ گیا اور حسین حقانی کو فوراً یہ بہانہ کرنا پڑا کہ ان کا بلیک بیری فون گم ہو گیا ہے
#imranKhanPTI
دنیا کی کسی مقبول سیاسی جماعت کو طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا ، دنیا کی کسی سیاسی تحریک کو قوت کے ذریعے نہیں کچلا جا سکتا ، دنیا کی کسی عوامی جدوجہد کو پاور کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا ۔ یہ آفاقی سچائی ہے جسے سمجھنے میں شاید پاکستانی قوم اور اسٹبلشمنٹ دونوں
کو دیر لگے لیکن یہی مسلمہ حقیقت ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف ایک نظریے پہ کھڑی ہے اور نظریہ طاقت سے ختم نہیں ہوتا بلکہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔ طاقت کا وجود تو خوف و ہراس بنائے رکھتا ہے لیکن طاقت کا استعمال عارضی خوف پیدا کرتا ہے اور پھر خوف ختم ہوتا جاتا ہے یہاں سے طاقت کا زوال شروع
ہو جاتا ہے ۔ یہی کچھ پاکستان میں مسلسل ہو رہا ہے ۔
دو سال پیچھے چلے جائیں تو ان کا خوف تھا۔ لوگ ان کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ان کا ڈنکہ بجتا تھا۔ ان کی فون کال پہ عدالتیں چلتی تھیں۔ میڈیا میں ان کے اپنے پلانٹڈ بندوں کے علاوہ کوئی ان سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتا تھا
عمران خان نے امریکہ میں ہونے والے الیکشن کا فایدہ اٹھاتے ہوئے کانگرسی راہنما سے پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ آواز اٹھانے کا مطالبہ کر کے امریکی پٹھووں کی ہوا کھینچنے کا انتظام کیا تو پالشی دانشوڑوں نے سوشل میڈیا پہ دولتیاں مار کر وین کرنا شروع کر دیا کہ
امریکہ سے اپنے ملک کی چغلیاں کیوں کر رہے ہو ؟
کفار سے سفارتی و اخلاقی مدد طلب کرنے والا ریاست مدینہ بنائے گا ؟
آئیے کچھ صدیاں پیچھے ریاست مدینہ کی جانب چلتے ہیں ۔
کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر جب کچھ صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا تو قریش کی طرف سے حبشہ کے بادشاہ
نجاشی کو پیغام بھیجا گیا کہ ان مسلمانوں کو پناہ مت دے اور ملک بدر کردے۔ بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کے وفد سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے دربار نجاشی میں تاریخی خطاب کیا۔ اپنے خطاب کا آغاز انہوں نے کچھ اس طرح سے کیا:
اے منصف بادشاہ!
اعلان نبوت ﷺ کے بعد بارہ، تیرہ سال تک صرف دین دعوت دی گئی، اس دوران سب سختیاں اور تکلیفیں برداشت کی گئیں لیکن اللہ کی طرف سے تلوار اٹھانے کا حکم نہیں آیا۔
پھر جب مشکلات حد سے بڑھ گئیں اور مکہ میں موجود مٹھی بھر مسلمانوں کی جان کو خطرات لاحق ہوگئے تو اللہ نے مدینہ کی طرف ہجرت
کا حکم جاری کردیا۔
مدینہ پہنچ کر نبی ﷺ نے سب سے پہلے وہاں موجود یہودیوں کے بڑے بڑے قبائل سے شہر مدینہ کا مشترکہ دفاع کرنے کا معاہدہ کرکے انہیں مدینہ کی مشترکہ فوج میں شامل ہونے پر مجبور کردیا۔ نبی کریم ﷺ کی اس حکمت عملی کو امریکی عسکری ماہرین نے اپنی کتابوں میں انتہائی
داشمندانہ پولیٹیکل اور ڈپلومیٹک سٹریٹیجی قرار دیا ہے جس کے تحت نبی ﷺ نے صرف ڈیڑھ سو مکی مہاجرین کے ساتھ مل کر دنیا کی خرانٹ ترین یہودی قوم کو مستقبل کے خلافت کا مرکز، مدینہ شہر کی حفاظت کرنے پر مجبور کردیا۔
ہجرت کے پہلے چھ مہینے نبی ﷺ نے معاشرتی حوالے سے مسلمانوں کو سیٹل
#پاکستان_کا_فیصلہ_عمران_خان
9/23 کا ڈرامہ بری طرح فلاپ ہو چکا ہے۔ حقائق سامنے آ چکے ہیں کہ پلان بنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ممکنہ ردعمل کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اشتعال دلانا ہے اور پھر پارٹی پہ دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر کچل دینا ہے۔ عمران خان کا پتہ صاف ہو جائے گا
جبکہ ملک میں کوئی پارٹی کا نام لیوا نہیں رہے گا۔ تمام راہنما اس کے بعد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیں گے اور یوں تحریک انصاف کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا لیکن یہ ڈرامہ فلاپ ہو گیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پبلک ردعمل ان کی سوچ سے بڑھ کر تھا جسے کنٹرول کرنا ممکن نہ رہا۔
سوچا تو یہ گیا تھا کہ آگ لگنے کے بعد سیدھی گولیاں چلیں گی اور گرفتاریاں شروع ہوں گی تو سڑکیں ویران ہو جائیں گی لیکن لوگ ان گولیوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ بالآخر عمران خان کو واپس لانا پڑا ورنہ اس دن بھی عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دینا کونسا مسئلہ تھا۔ طے تو یہ بھی ہوا تھا کہ عدالت
25 جنوری 1993 کی ایک انہتائی سرد صبح تھی جب امریکی ریاست ورجینیا کی فئیرفیکس نامی کاؤنٹی میں واقع سی آئی اے ہیڈکوارٹرز کی طرف جانے والی گاڑیاں بائیں مڑنے کیلئے ٹریفک لائیٹ کے سبز ہونے کا انتظار کررہی تھیں۔ رش کی وجہ سے بائیں مڑنے والی ٹریفک کو عام طور پر 5 منٹ لگ جایا کرتے تھے
اس دوران وہاں قطار میں کھڑی گاڑیوں میں سے براؤن رنگ کی ڈاٹسن سٹیشن ویگن میں سے ایک درمیانی عمر کا آدمی نکلا، اس کے ہاتھ میں سیمی آٹومیٹک ٹائپ 56 رائفل تھی اور اس نے وہاں ٹریفک لائیٹ میں کھڑی گاڑیوں پر فائرنگ شروع کردی جس سے دو لوگ موقع پر ہلاک اور چند ایک ذخمی ہوگئے۔
ہلاک ہونے والے سی آئی اے کے ملازمین تھے جو دفتر جا رہے تھے۔
وہ واپس اپنی گاڑی میں بیٹھا، تیزی سے گاڑی گھمائی وہاں سے فرار ہوگیا۔ 90 منٹ تک گاڑی کو مختلف جگہوں پر گھماتے رہنے کے بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ پولیس اس کا پیچھا نہیں کررہی تو وہ واپس اپنے اپارٹمنٹ آیا، رائفل کو پلاسٹک