#عمران_خان_ہماری_ریڈ_لائن
میں ایک آسیب زدہ کھنڈر کا باسی ہوں،جو قدیم راجوں کے ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے تاریخ کے پنوں سے حقیقت کے قرطاس پر منتقل ہوتے دیکھ رہا ہے۔ظلم و ستم کا شکار روحیں چیخ و پکار کر رہی ہیں لیکن شیطانی طاقتیں بال کھولےان کی بے بسی پر محو رقص @ImranKhanPTI 💞
ہیں،سازشوں میں گرا معصوم شہزادہ پھڑ پھڑا رہا ہے اور اس کے تمام ہمدرد دشمنوں کے ہاتھ پر بیعت کر گئےیا زیر عتاب ہیں،شہزادے کے چند وفادار جانیں وار گئے لیکن انہیں سلطنت کا غدار ٹھہرا دیا گیا،
تاریخ کے کوڑے دان سے چھانٹی کیے گئے چند مکروہ کرداروں میں چند ناموں کا اضافہ نظر آ رہا ہے،
شیطانی روحوں کا رقص جاری ہے،بدی کی طاقتیں عروج پہ ہیں،حق دھندلا گیا ہے،شام غریباں بپا ہے،ابر ستم برس رہا ہے،منحوس ٹٹیریوں کی آوازیں ماحول کو کربناک بنا رہی ہیں،سانس گھٹ رہا ہے،جانکنی کا عالم ہے،امیدیں دم توڑ رہی ہیں،کالی دیوی ایک نئے روپ میں خون ہی خون مانگ رہی ہے،اس کے چرنوں
میں شیطان کے چیلے جوان خون کی بلی چڑھا رہے ہیں،زبانیں گنگ کر دی گئی ہیں،ہُو کا عالم ہے،بولنا جرم ہے،خوف روحوں میں سرایت کر گیا ہے،
کچھ پردہ غیب سے ظہور میں آئے تو آئے ورنہ طاقت ہی آفاقی اصول نظر آ رہا ہے۔۔شہزادہ لیکن پر امید ہے-اس کی امید ہی اس کی طاقت ہے۔اہل نظر منتظر ہیں اور
ہم جیسے عامی انگشت بدنداں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کھنڈر زمین بوس ہو گا یا شہزادہ اسے از سر نو تعمیر کرے گا۔۔۔؟؟؟
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لیبیا کے معمر قذافی کا اصل ولی عہد اس کا بیٹا سیف الاسلام قذافی تھا جس کی دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ سیف الاسلام دبئی کے ماڈل سے بہت متاثر تھا اور چاہتا تھا کہ لیبیا کے دارلحکومت ٹریپولی کو بھی دبئی کی طرح ماڈرنائز کرسکے۔ اس مقصد کیلئے ضروری تھا
کہ لیبیا پر عائد امریکی پابندیاں ختم کی جاتیں۔ چنانچہ سیف الاسلام نے اپنے باپ کرنل قذافی کو مجبور کرنا شروع کردیا کہ وہ امریکی مطالبات مان کر اپنے تعلقات بحال کرلے۔
2003 میں لیبیا نے باضابطہ طور پر امریکہ کے ساتھ رابطے استوار کرنا شروع کردیئے اور ایک ایک کرکے تمام شرائط مانتے
گئے جن کے بعد لیبیا پر امریکی پابندیاں ختم ہوجاتیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ لیبیا امریکہ کو اپنی دفاعی ٹیکنالوجی کے بارے میں مکمل آگاہ کرے گا اور جن زرائع سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی گئی، ان کے بارے میں بھی بتائے گا۔
2003 کی آخری سہ ماہی میں کرنل قذافی نے فائلوں کا ایک پلندہ
مسلم لیگ ن کے مختلف ایم این اے اور ایم پی ایز کے خلاف چھپنے والی آخبارات میں ریپ کی خبریں،
1- ن لیگی ایم پی اے اور وزیراعلی پنجاب کے معاون خصوصی منور احمد گل کا 35 سالہ خاتون سے مبینہ ریپ-- لیکن شہباز شریف نے منور گل کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہونے دیا-
2- 15 سالہ لڑکی کے والد کا
ن لیگی ایم این اے اور آج کے محترم تجزیہ کار جناب ایاز میر صاحب پر زیادتی کا الزام-- لیکن الحمداللہ اس کیس کا بھی کچھ نہیں ہوا-
3- ن لیگی رہنما جناب مہر غلام دستگیر کی آٹھویں جماعت کی طالبہ سے زیادتی، پولیس نے مظلوموں کی فریاد تک نہ سنی!!
4- فورٹ عباس میں باپ کے سامنے بیوی اور
بیٹی کے ساتھ 5 افراد کا گینگ ریپ- ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں چھوڑ دیا گیا اور ان میں سے ایک ملزم موٹروے ریپ کیس میں مرکزی ملزم ہے-
5- مسلم لیگ کے فیصل آباد کے ایم این اے کا بیٹوں کا خاتون کا گینگ ریپ- رانا ثنا اللہ نے خاتون کو کریکٹر لیس قرار دیا-اور ملزمان بری ہوگئے
#میں_کلاں_ہی_کافی_آں
عمران خان بیچارہ کیا کرے۔۔؟
تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی عقل کل ہے۔۔دس دن پوسٹس کر لیں دو دن سڑک پہ نکل کر سیلفیاں بنا لیں۔۔یا جلسوں میں مفلر پہن کر شرکت کر لی تو ہمیں لگتا ہےعمران خان کو ل کا بھی نہیں پتہ۔۔اسے ہر فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سے
پوچھنا چاہئیے۔ جنہوں نے زیر ناف بال مونڈنے کا فیصلہ کبھی وقت پر نہیں کیاوہ بھی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں کہ خان درست وقت پر فیصلہ نہیں کرتا۔۔جنہیں گھر والے اہم فیصلہ کرتے وقت "چل اوئے یدی دیا"کہہ کر باہر بھیج دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں خان ان سے پوچھ کر فیصلے لے۔۔جن کی ساری زندگی ابے
کے پریشر کی وجہ سے گا ن ڈ غلامی کرتے گزرتی ہے وہ بھی چاہتے ہیں کہ خان پریشر کو ہینڈل کرنا ان سے سیکھے۔۔جو قاری صاحب کے پریشر پر فوری شلوار اتار کر عونڈیاں ہو جاتے ہیں وہ بھی اس بدترین فسطائیت میں کھڑا رہنے والے لیڈرز کو گالیں دے رہے ہیں۔۔
میرے بھائی۔۔۔خان لیڈر ہے،
1977 میں قومی اتحاد کی تشکیل اور بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا، بھٹو کی حکومت ختم ہوئی، اسے پھانسی لگی اور اس کے بعد قومی اتحاد کہاں گیا، کسی کو خبر تک نہ ہوسکی۔
1988 میں آئی جے آئی کی تشکیل میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ یہ اتحاد کافی کامیاب بھی رہا،
1990 میں مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومت بھی ہاتھ آگئی لیکن 1993 میں یہ اتحاد کہاں گیا، کچھ خبر نہ ہوسکی۔
2000 میں مشرف نے ن لیگ سے ق لیگ بنائی، الیکشن ہوئے، حکومت بھی ملی لیکن پھر ق لیگ کہاں گئی، کسی کو پتہ نہ چل سکا۔
اسی طرح 2002 کے الیکشن کے بعد مشرف نے پیپلزپارٹی سے
پیٹریاٹ گروپ نکالا جس کی سربراہی فیصل صالح حیات نے کی۔ 2008 میں پیٹریاٹ کا دھڑن تختہ ہوگیا اور وہ کہاں گئے، کسی کو خبر نہ ہوئی۔
2002 میں ہی اسٹیبلشمنٹ نے ایم ایم اے بنائی، دو صوبوں میں حکومت، مرکز میں اپوزیشن لیڈری اور ہر طرح سے مشرف کی سپورٹ - لیکن 2008 میں ایم ایم اے کہاں گئی
اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے فوراً بعد ایک امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے ایڈمرل مائیکل ملن کو یہ پیغام پہنچایا کہ ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد فوج پر شدید ترین تنقید کی جا رہی ہے اور فوج اپنی خفت مٹانے کے لیے جمہوریت کا تختہ الٹ دینا چاہتی ہے، اس لیے صدر زرداری کا آپ
کے لیے پیغام ہے کہ آپ پاکستان کے خلاف ایک بڑا آپریشن کریں اور پاک فوج کی ہائی کمان بھی سنبھال لیں اور جوہری پروگرام تک رسائی بھی ہم آپ کو دے دیں گے۔ تا کہ جموریت پر سے یہ فوجی خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل سکے۔
ایڈمرل ملن نے اس غیر دستخط شدہ میمورنڈم کو زیادہ اہمیت نہ دی جس کی وجہ سے
معاملہ آگے نہ بڑھ سکا لیکن پاکستانی سیاست میں بھونچال اس وقت آیا جب منصور اعجاز نے 10 اکتوبر 2011 کو فنانشل ٹائمز میں یہ انکشافات کیے کہ یہ میمورنڈم حسین حقانی نے لکھا تھا جس پر میڈیا میں طوفان آ گیا اور حسین حقانی کو فوراً یہ بہانہ کرنا پڑا کہ ان کا بلیک بیری فون گم ہو گیا ہے
چئیرمین عمران خان سر نے آج ٹوئیٹر سپیس پر بات کرتے ہوئے اس سارے کیس پر پہلی دفعہ اپنا موقف دیا، اس کو سمجھنا ہر انصافی پر فرض ہے تا کہ سوشل میڈیا پر اس کا موقف اور بیانیہ پھیلا سکیں۔ خان صاب نے کہا کہ
ہم بطور مسلمان باتیں تو بہت
کرتے ہیں لیکن ہمارے اندر عمل کی شدید ترین کمی ہے جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ میں نئے لیڈرز اور ویژنری لوگ پیدا نہیں ہو رہے۔ اس بات کا مجھے بہت دکھ تھا اور ہے۔ اس لیے میرا ایک خواب تھا کہ میں ایک ایسی یونیورسٹی بناؤں جہاں پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سہی اور حقیقی
تعلیمات دی جائیں تا کہ اگلی نسل میں وہ اوصاف پیدا ہوں جو صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں میں تھے جس نے مسلمانوں کو سپرپاور بنایا تھا اور ہماری فیوچر لیڈرشپ پیدا ہو سکے
اب ہوا یہ کہ ملک ریاض نے کہا کہ وہ القادر یونیورسٹی کو سپانسر کرے گا۔ اس سلسلے میں مئی 2019 میں اس کا