Discover and read the best of Twitter Threads about #Indology

Most recents (17)

#ancient
#History
قدیم ھندوستانی تاریخی مآخذات
(Ancient Hindustani Historical Sources)
اگرھندوستان کی قدیم تاریخ تلاش کی جائےتو تمام موءرخین میں اختلاف ہی نظر آئےگاکیونکہ اس عہدکی کوئی مستندتاریخ ملنامشکل ھے۔
ھندوستان میں تاریخ نویسی کارواج نہیں تھااورجوتاریخ ہمیں رامائن،مہابھارت Image
ویدوں کے اشلوک کی صورت کی صورت میں مہیا ھے وہ زیادہ تر دیومالائی قصے کہانیوں پر زیادہ مشتمل ھے۔
اس لیے ھندوستان کے بارے میں زیادہ مواد ہمیں سکوں، کتبوں اور پتوں پر درج تحریروں سے ملتا ھے۔ پھرکالی داس کی تحریریں، رومی، یونانی، چینی سیاحوں کی تحریریں جیسے 5ویں صدی کاسیاح فاہیان اور ImageImage
ہرش کی "ہرش چرت" وغیرہ ہیں۔
اسکو علاؤہ مستند تحریری مآخذات یہ ہیں؛
راج ترنگنی (ترن گینی)__
کشمیری موءرخ کلہن (Kalhana) کی سنسکرت زبان میں کشمیر کی تاریخ پر لکھی گئی یہ کتاب 1184 ق م سے 1148ء تک کا کشمیر بیان کرتی ھے آر اسے ہی ھندوستان کی پہلی مستند تاریخ کی کتاب کا درجہ حاصل ھے۔ ImageImage
Read 6 tweets
#Indology
#Rajhastan
تاج جھیل محل (اودے پور، ریاست راجھستان)
Taj Lake Palace ( Udaipur)__1746
منی تاج محل یعنی تاج محل (آگرہ) کی نقل
یہ نظر کا دھوکہ نہیں بلکہ وہی دودھیا، اجلے اور سنگ مرمر سے بنے جھروکے، محرابیں گویا تاج محل (آگرہ) سے قریبی مشابہت
تاج جھیل محل راجستھان کےشہر اودے ImageImageImageImage
پور میں جھیل پچولا (Lake Pichola) پر 18ویں صدی کا ایک سابق شاہی گھر ھے۔
 یہ محل مہارانا جگت سنگھ II کے لیے 1743 اور 1746 کے درمیان بنایا گیا تھا۔
محل کی تاریخ تھوڑی عجیب ھے کہ جگت سنگھ دوم کے والد مہارانا سنگرام سنگھ دوم نے اپنے بیٹے کو قریبی جزیرے کےکسی اور محل میں عورتوں کےساتھ ImageImageImageImage
رہنے سے منع کیا تھا کہ وہ اس وقت تفریح ​​کر رہا تھا، اس لیے اس کے بیٹے نے اس کی جگہ ایک نیا جھیل محل تعمیر کیا۔
محل نے مختلف مشہور مہمانوں کی میزبانی کی، جن میں جیکولین کینیڈی، لارڈ کرزن(1899-1905)، ملکہ الزبتھ اور برطانوی اداکار ویوین لی شامل ہیں۔
1988 میں ImageImageImageImage
Read 4 tweets
#Indology
#Archaeology
#architecture
Rock-Cut
قلعہ گوالیار (مدھیہ پردیش، بھارت)
Gwalior Fort (MadhiyaPardesh)__3 AD
پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک ناقابلِ تسخیرقلعہ جوتیسری صدی میں مقامی بادشاہ سورج سین (Suraj Sen) کاتعمیرکردہ ھے، چٹانی طرزتعمیر کاشاندارماڈل ھے۔
قلعہ گوالیار اوراس میں
واقع اندرونی تالاب, جسے "سورج کنڈ" کہا جاتا ھے، مقدس و بابرکت خیال کیا جاتا ھے۔
سورج سین کے 83 جانشینوں نے قلعے کو کنٹرول کیا۔ لیکن 84 ویں بادشاہ تیج کرن نے یہ قلعہ کھو دیا.
قلعے کے اندر یادگاروں اور نوشتہ جات بھی موجود ہیں۔ ایک شہنشاہ جس کا نام میہیرکولا (Mihirakula) تھا اس وقت
کے دوران قلعے پر حکمرانی کی۔ بعد میں نویں صدی میں ، گورجارا پرتیہارس (Gorjara Pratiharas) نےقلعے پر قبضہ کیا اور ٹیلی کا مندر (Teli ka Mandir) بھی تعمیر کیا۔
1398 تک، تین صدیوں تک ایک دومسلمان خاندانوں نے بھی اس قلعے پرحکمرانی کی۔ مان سنگھ آخری اورسب سےممتازحکمران تھا۔ اس نے فورٹ
Read 7 tweets
#Indology
#architecture
#Rajhastan
مہرگڑھ قلعہ (جودھ پور، بھارت)
1460ء__ھندوستان کے شاندار ماضی کا عکاس
ریاست راجھستان کے دوسرے بڑا شہر جودھ پورمیں واقع 1200 ایکٹر پر پھیلا منفرد قلعہ مہرگڑھ جسے "جودھ پورقلعہ" بھی کہا جاتاھے، کی قلعے کی تاریخ راجہ راءوجودھ سےجاری ھے جس نےاسے 1460
میں تعمیر کروایا اور اسی نسبت سے اسکا نام بھی منتخب کیا۔
وہ پہاڑی جس پر طاقتور قلعہ کھڑا ھے درحقیقت ایک سنیاسی کاگھر تھاجسے چیریا ناتھ جی کے نام سےجاناجاتاھے۔ اپناگھر کھونےپر اس نےزمین پر لعنت بھیجی۔
جودھ پورشہرکی بنیادبھی 1459میں راجہ جودھ نےہی رکھی جوایک راجپوت تھااور راجپوتانہ
کےتاریخی علاقے کےجنگجو حکمرانوں میں سے ایک تھا اور جودھپور کی شاہی ریاست کے دارالحکومت کےطور پر کام کرتاتھا۔
جودھ پور کے کچھ حصے 18ویں صدی کی دیوار سےگھرےھوئے ہیں۔ مہران گڑھ قلعہ، جس میں مہاراجہ کامحل اور ایک تاریخی میوزیم بھی ھے، ایک الگ تھلگ چٹان پربنایا گیا ھےجو شہر پرحاوی ھے۔
Read 6 tweets
#ancient
#civilization
#Archaeology
#India
دھولاویرا گاءوں (بھارتی گجرات)(Dholavira Town)
3500 قبل مسیح تا 1800 قبل مسیح
تہذیب وادی سندھ (Indus Valley Civilization, ICV)کی 1400سائیٹس میں سے 925 بھارت میں، 475 پاکستان میں اور چند ایک افغانستان میں پائی گئی ہیں۔
ریاست گجرات (بھارت)
میں واقع ڈھولاویرا قصبہ جس کا مقامی گجراتی نام Kotada Timba ھے، قدیم "وادی سندھ کی تہذیب" کی لاتعدادباقیات رکھنے کی وجہ سے ھندوستان کے لیے نہایت اہمیت کاحامل آثارقدیمہ کا مقام ھے۔
یہ ہڑپہ تہذیب کے قدیم شہر کےکھنڈرات کی نمائندگی کرتا ھےجو 3000 قبل مسیح سے 1800قبل مسیح تک 1,200 سال
کے عرصے میں آباد تھا۔ یہ سائٹ بھارتی ریاست گجرات کےضلع کچ کے گاؤں دھولاویرا (جہاں سے اس کا نام پڑا) کے قریب واقع ھے۔ دھولاویرا کا 250 ایکڑ رقبہ رن کچھ کے خدیر جزیرے پر پھیلا ھوا ھے۔
دھولاویرا سائیٹ سے 400 سےزائد علامتی نشان اور Inscriptions جو بائیں سےدائیں تحریرہیں،پائے گئے ہیں۔
Read 5 tweets
#Indology
#Church
#India
کانپور میموریل چرچ (کانپور, اتر پردیش) 1875
Kanpur Memorial Church (Canpur، Utter Pardesh)__1875
لومبارڈی گوتھک (Lombardi Gothic) اسٹائل میں ایسٹ بنگال ریلوے کے آرکیٹیکٹ والٹر لانگ بوزی گرانویل(Walter Long Bozzi Granville, 1819-1874) کا تعمیر کردہ شاہکار
یادگاری چرچ ایک متاثر کن تعمیراتی عمارت ھے جسے "All Civil Cathedral" بھی کہا جاتا ھے۔
یہ چرچ 1875میں برطانوی فوجیوں کی جرات اوربہادری کی یاد میں تعمیر کیاگیاتھا جنہوں نے1857 کےکانپور، اترپردیش میں ہنگامہ خیزسپاہی بغاوت میں اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
میموریل چرچ مصلوب شکل(Crucifix)
میں سرخ ریت کے پتھر سے بنا ھے جس کے درمیان میں اسپائر کیساتھ کیمپینائل (گھنٹی ٹاور) ھے۔چرچ کے مرکز میں ایک فرشتہ کا ایک خوبصورت مجسمہ کھڑاھے جسے نامور بیرن کارلو ماروچیٹی نے ڈیزائن کیاھے۔
چرچ کے اندر یادگاری میزیں، نوشتہ جات اور یادگاریں ہیں جو ان فوجیوں کوخراج عقیدت پیش کرتی ہیں
Read 4 tweets
#Indology
#architecture
#UtterPardesh
بٹلر پیلس (لکھنؤ، بھارت)
Butler Palace (Lukhnow, India)__1915
Groundbreaking: 1st Feb. 1915
ہریالی کے بیچوں بیچ کھڑا، ماہر تعمیرات سردار ہیراسنگھ کا تعمیراتی جنون جو کبھی تہلکہ مچانے والا ایک محل تھا آج وقت کے خاموش ہاتھوں خستہ حالی کاشاہکار!
1915 میں اودھ کے ڈپٹی کمشنر سپنسر ہارکورٹ بٹلر (DC Spencer Harcourt Butler) کے لیے محمود آباد کےمہاراج محمد علی محمد نے تعمیر کروایا. یہ محل برطانوی رہائش گاہ اور پھر کنگ محمودآباد کے وارث کی ذاتی ملکیت کےطور پر کام کرتاتھا.
نوابوں کا شہر، تحریک آزادی 1857 کے آغاز کا شہر اور اردو
کے مسکن کے حوالوں سے پہچانے جانے والے شہر لکھنؤ میں بعض یادگاریں ایسی بھی ہیں جنہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملی حالانکہ وہ تاریخی ورثہ کہلانے کی مستحق ہیں۔ بٹلر پیلس لکھنؤ میں ایک ایسی ہی یادگار ھے۔
کبھی بٹلر پیلس منشیات کے عادی افراد کے گھر کے طور پر استعمال ھوا،
کبھی 1965 کی جنگ میں
Read 5 tweets
#Indology
#Mughal
#architecturelovers
#India
Kanch Mahal (Agra, Uttar Pradesh)
کانچ محل (آگرہ، اتر پردیش)__1619ء
 اس محل کی تعمیر کےپیچھے جوکہانی ھے وہ کم لوگوں کے علم میں آتی ھے کیونکہ پہلی نظر میں کانچ محل کی مربع شکل اس کاگرویدہ کرتی ھے۔ یہ دومنزلہ مغل طرزِتعمیرجسے 1605 سے1619 ImageImageImageImage
کے درمیان 14 سال میں تعمیر کیا گیا، آگرہ کے اسکندرا قلعہ میں اکبر کے مقبرے کے قریب باغات کےبیچ کھڑاھے۔
کانچ محل شاہی خواتین کے لیے ایک تفریحی مقام (Ladies Resort) تھا۔ پھراسے مغل شہنشاہ جہانگیر نے شکار (Hunting Lodge) کیلیےاستعمال کیا۔ پھر یہ ڈھانچہ چرچ مشنری سوسائٹی کی دیکھ بھال ImageImageImage
میں آ گیا اور بعد میں اسے محکمہ آثار قدیمہ نے سنبھال لیا۔
حویلی کی دیواریں پیچیدہ طور پر تراشے گئے سرخ پتھر سے بنی ہیں جن میں شراب کے گلدان، عربی، پھولوں کی کریپر اور ہندسی شکلوں کے ڈیزائن ہیں۔
کانچ محل میں داخل ھونے پر، آپ کی آنکھ نیلی، سبز اور نارنجی چمکدارٹائلوں کے موزیک سےجڑی ImageImageImageImage
Read 4 tweets
#LesserKnownFacts
#Indology
#ancient
#indusvalleycivilization
"وادیِ سندھ کی تہذیب" (IVC) کے زوال کی وجوہات
4000 BC - 1500 BC
جنوب ایشیائی علاقوں ہڑپہ، موہنجوداڑو (سندھ، پاکستان) اور ڈھولاویرا، راکھی گڑھ (ریاست گجرات، بھارت)، 4000 سال قبل مسیح درجہ بہ درجہ ابھرنےوالی، پھیلنے والی
یہ شاندار تہذیب کیسے 3500 سالوں میں زوال کا شکار ھو گئی؟
کیسے یہ شہر مٹی تلے دب گیا؟
کیسےاس تہذیب کا آرٹ، کلچر اور مذہب وقت کے ہاتھوں اوجھل ھو گیا؟
کیوں یہ تہذیب تسلسل برقرارنہ رکھ سکی اورڈوب گئی؟
موءرخین (Historians), ماہرِ آثارِقدیمہ (Archaeologists) اور ماہرِ ھند (Indologists)
اس کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں جیسے؛
کچھ اس تہذیب کے زوال کی وجہ خشک سالی کو قرار دیتے ہیں کہ جب دریاؤں نے راستہ بدلا تو یہ شہر اجڑے؛
کچھ قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلوں کو اس کے زوال کی وجہ قرار دیتے ہیں؛
کچھ کے نزدیک ان لوگوں نے زمین پر بہت زیادہ کاشت کی، زمین کوریتلا کیا،دھاتیں
Read 5 tweets
#Indology
#England
#RoyalFamily
"کوہ نور ہیرا"
Koh-i-Noor Apple
مغلوں کےتاج کافخر،سکھوں کی مالا کاگوہر نایاب بیضوی(مانند انڈہ)ہیراجسکا 1304ءمیں وزن 186قیراط تھا, برطانیہ کےتاج کی چوٹی تک کیسےپہنچا؟
ریاست حیدرآباد(بھارت)کی گولکنڈہ مائن (Golkonda Mine)سےدریافت ھونےوالا کوہ نورہیرا
جس کی آج قیمت 12B$ ھے، جنوبی ایشیاء ( South Asia) کی 1400 سالہ طویل تاریخ کاعکاس ھے، غم ماز ھے۔
کوہ نور برطانوی سامراجی (Colonialism), غیر ملکی قبضے، جنگوں، قتل و غارت، ہماری حماقتوں اور بزدلی کی یاد دلاتا ھےاور ان گنت سوالات کوجنم دیتاھے۔
6 مئی2023 کوجس تاج نےرسم تاجپوشی کےسلسلے
میں برطانیہ کی ہزاروں سالہ شہنشاہیت کے امین ملکہ Camilla Parker اور بادشاہ چارلس کے سر پر سجایا جانا ھے اس میں جڑا "کوہ نور ہیرا" ہمیں ایک تلخ اور تکلیف دہ ماضی کی یاد دلاتاھے۔
فارسی زبان کے لفظ "کوہ نور" جس کےمعانی ہیں "روشنی کا مینار" (Mountain of Light), دنیا کاسب سےبڑاہیراھے۔
Read 7 tweets
#Indology
#Archaeology
#Temple
شری دوارکا دھیش مندر (جھل راپتن، ریاست راجھستان)
Shri Dwarkadheesh Temple (Jhalrapatan, #Rajhastan)
2500 سالہ قدیم
جھل راپتن شہرکی ڈسٹرکٹ جھلوار (District Jhalawar)کےگومتی ساحل (Gomti Coast)کےپرسکون مقام پرکھڑا دوارکادیش مندر لارڈکرشنا(Lord Krishna)
کیلئے مخصوص ھے۔
ماہر آثار قدیمہ کے مطابق یہ مندر 1200 سال پرانا ھے لیکن موءرخین اس مندر کو 1400 قبل مسیح میں بھگوان سری کرشنا کے پڑپوتے وجرنابھ سے جوڑتے ہیں۔
وجرنابھ نے جب اس مندر کو تعمیر کیا تھا یہ یہ ایک شاندار ڈھانچہ تھا جو بحیرہ عرب کے پانیوں سےاٹھتا دکھائی دیتا تھا۔
اس مندر
کو "جگت مندر" بھی پکارا جاتا ھے، اسے جھل ظالم سنگھ نے گیارہویں صدی میں تازہ کیا۔
اس کاشاندار نقش و نگار 43 میٹر بلند اور 52گزکپڑے سےبنابڑاجھنڈا 10 کلومیٹر دورسے دیکھا جا سکتا ھے۔
مندر نرم چونے کے پتھر سے بنایا گیا ھے اور اس میں ایکمقبرہ اور ایک مستطیل ہال ھے جس کے3اطراف پورچ ہیں۔
Read 4 tweets
#Indology
#Uttarpardesh
#partition1947
منگل پانڈے (اکبر پور ،ریاست اترپردیش ھندوستان)
Mangal Pandey (Akberpur, UP Hindustan)
19 جولائی 1827 تا 10 مئی 1857
پہلےکسی کومذہب کیخلاف اکساءو اورجب وہ طیش میں آکر کوئی قدم اٹھائےتو اسے"بغاوت" کا نام دےکرلٹکادو۔
یہ وطیرہ ہمیشہ سےفرنگیوں نے
ھندوستانیوں سے روا رکھا اور اسی "بغاوت" کا ایک مجرم منگل پانڈے تھا جس نے 1849 میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شمولیت اختیار کی۔
آزادی کی وہ جنگ (1857) جسے انگریز "بغاوت" کہتے ہیں، کاپہلا قطرہ منگل پانڈے اعلیٰ ذات برہمن زمیندار خاندان کاسپاہی مضبوط عقائد کامالک تھا لیکن پانڈے
کے کیریئر کے عزائم ان کے مذہبی عقائد سے ٹکرا گئے جب اس نے یہ سنا کہ اسلحے کو لوڈ کرنے کے لیے چکنائی والے کارتوس کے سروں کو جان بوجھ کر گائے یا سور کا سور کا گوشت تھا، جو بالترتیب ہندوؤں یا مسلمانوں کے خلاف تھا۔
مارچ 1857 میں پانڈے نے اپنے ساتھی سپاہیوں کو بیرک پور (Barrickpur) کی
Read 5 tweets
#Indology
#ancient
#StepWell
#Architecture
اگریسن کی باؤلی (دہلی، بھارت)
Agrasen ki Baoli (India)
دہلی کے قلب میں واقع مہابھارت (Ancient Sanskrit Epic Script) کے دور میں تعمیر کی گئی یہ زیرزمین آرائشی سیڑھی جو کبھی پانی کا ذخیرہ تھا آج شاندار فن تعمیر اور قدیم انجینئرنگ کی مہارت
کا ایک دنگ کر دینے والا نمونہ ھے۔
اس بارے میں کوئی واضح تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ھے کہ شاندار اگراسین کی باؤلی کب اور کس نے تعمیر کی تاہم بہت سے مورخین کاخیال ھے کہ اسکی تعمیر مہابھارت (महाभारतम्) کےدور میں کسی اور نےنہیں بلکہ اگروہ (Agroha) کے سوریا ونشی خاندان کے بادشاہ مہاراجہ
اگرسین (Maharaja Agresan) نے کی تھی۔
14ویں صدی میں اسے اگروال برادری کے لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا جو مہاراجہ اگرسین کی اولادکے طور پرہی جانےجاتے تھے۔
بائولی کی تعمیراتی خصوصیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اسے تغلق خاندان (1321-1414) یا لودھی خاندان (1451 سے 1526) کے دہلی پر دور حکومت میں
Read 5 tweets
#Indology
#ancient
#Varanasi
شہر وارانسی__تاریخ سےچند اوراق
اترپردیش (انڈیا)___1100قبل مسیح
شہروارانسی__جنوبی ھندوستان کی ریاست اترپردیش میں واقع ہندؤوں کامقدس ترین شہر بلکہ روحانی دارالخلافہ (Spiritual Capital)
شہر وارانسی__کی وجہ تسمیہ یہ کہ شہرکی سرحدیں دوندیوں (ورونہ اور آسی) ImageImage
سے ملتی ہیں جو گنگا میں بہتی ہیں۔ شہر کا نام انہی دو دریاؤں کیوجہ سے ھے۔
شہروارانسی__شیو دیوتا کا مسکن جو ہندؤ مت میں الہی کا سب سے اہم مظہر ھے۔
 شہروارانسی__ دریائے گنگا کے کنارے آباد وہ دریا جو ہندومت کے مقدس ترین دریاؤں میں سے ایک ھے۔
2,500سال سےزیادہ عرصےسےھندو یاتریوں نےگنگا
گنگا میں نہانے کے لیے وارانسی کی طرف اڑان بھری ھے کیونکہ مقدس دریا میں غسل کو پاک کرنے والا سمجھا جاتا ھے۔
شہر وارانسی__میں جو بھی مرتا ھے وہ مبارک گنا جاتا ھے۔
شہروارانسی__کنارے شمشان گھاٹ ھونے کے باعث یہ شہر بحری قزاقوں کیلئے زریعہ آمدنی بھی کہلایا۔
گویا وارانسی شہر کی روح گنگا
Read 4 tweets
1-A lot of #Spiritual #Sadhakas have asked me about #Mantra

The following is a little synopsis

A Mantra is a sacred word or phrase of spiritual significance and power.

(1/7)

#Indology.
2-Hymns; "that which saves the one who reflects"

(from the verb root ‘man’ = "to think")

Along with the #Brahmanas, as hymns Mantras constitute the ritual section of the #Veda (#KarmaKanda) (2/7)

#Indology.
3-Mantras are classified according to their metres

#Gayatri has 24 syllables with 9 subdivisions

#Usnik has 28 syllables with 7 subdivisions

#Prakrti has 40 syllables with 8 subdivisions

#Brhati has 36 syllables with 9 subdivisions. (3/7)

#Indology.
Read 7 tweets
René Guénon (1886-1951) was as I mentioned recently perhaps the most prominent #traditionalist of the 20thC - a thread on him 1/ ImageImage
Starting from his interests in #traditionalist Catholic circles, #Freemasonry, #occultism he studied mathematics and philosophy and later #Indology at the #EPHE in #Paris 2/
He got a BA in philosophy 1915 from #EPHE but failed his aggrégation 1919 though he still managed to get a job at Catholic schools, his doctorate was also rejected 1921 #EPHE 3/
Read 14 tweets
प्रणाम - रघु राम की नगरी अयोध्या से।

#travel #Ayodhya
Journey of #Ayodhya begins with Litti Chokha at Guptaar Ghat #travel #vegetarian #incredibleindia
Sri Ram Paduka at Guptargarhi or Chakrahari Tirth at #Ayodhya #travel #indology
Read 43 tweets

Related hashtags

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!