چاچا افلاطون Profile picture
Psychologist, Writer, philosopher, Historian, Columnist پاکستان، اسلام ، قادیانی،خونی و بادی لبڑلز میرے اکاٶنٹ سے تین میل دور رہیں۔

Sep 28, 2021, 25 tweets

آج بات کرتے ہیں عقل کو دنگ کردینے والے تاریخ کے اس عظیم مسلمان ساٸنسدان کی جو بلاشبہ جدید ساٸنس کا بانی ہے، جن کے استوار کردہ قوانین پر چل کر ساٸنس نے اتنی ترقی کی ہےاور مذید تجربات جاری ہیں۔
ہم سب یہی جانتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سر آئزک نیوٹن ہی دنیا کے سب سےبڑے سائنسدان
(1/25)

(2/25)
رہے ہیں،خاص طور پر فزکس کی دنیا میں ان کی خدمات بے مثال ہیں ۔
آئزک نیوٹن کو جدید آپٹکس یا علم بصریات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔کشش ثقل اور حرکیات کےاپنے قوانین کے علاوہ ،نیوٹن نے لینسوں اور پرزم کےساتھ حیرت انگیز تجربات کیے۔ ہم سب اپنے اسکول کے دنوں میں ، ان مرتب کئے ہوئے

(3/25)
بصریات کے قوائد کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ہم نے مرتب شدہ اس قانون کو بھی بڑی دل چسپی کےساتھ پڑھا کہ جب روشنی کسی پرزم سے گزرتی ہے تو یہ سات رنگوں کے قوس قزح میں تقسیم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیوٹن نے اپنے نظریات کے مطالعے کے لئے ایک مسلم سائنس دان ”الحزین“

(4/25)
کی دریافتوں کا سہارا لیا جو نیوٹن سے سات سو سال قبل پیدا ہوا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ نویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں عرب اور مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں جو تحقیق کی اور تجربات کی روشنی میں جو اصول وضع کیے وہ موجودہ سائنس

(5/25)
کے لئے بنیاد بنے۔ اس عرصے میں عرب دنیا میں ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا اور مسلمان سائنس دانوں نے محیر العقول تحقیق کی۔ ان کے قائم کردہ نظریات کو جدید ترین تحقیق بھی آج تک غلط ثابت نہیں کر سکی۔ اس تمام عرصے میں عرب اور خاص

(6/25)
طورپر مسلمان دنیا میں سائنسی علوم میں جس قدر تحقیق و ترقی ہوئی وہی جدید سائنس کی بنیاد ثابت ہوئی۔ مسلمانوں کے اس سنہری دور کےبڑے ناموں میں ابو علی الحسن بن الہیثم کا نام سب سےزیادہ نمایاں اور روشن ہے۔جن کو یورپ میں عام طور پر انکے لاطینی نام الحزین سے بھی جانا جاتا ہے اور

(7/25)
دنیا انہیں ”ابن الہیثم “ کے نام سے بھی جانتی ہے۔
ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں 965ء میں ہوئی۔
ابتداٸی تعلیم بصرہ سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلیے بغداد روانہ ہوۓ۔ ان کو بچپن ہی سے ساٸنسی علوم کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
پھر بعد ازاں وہ طبیعات ، ریاضی ، انجنیئرنگ،

(8/25)
فلکیات اور ادویات کے مایہ ناز محقق بن کر ابھرے ۔اسکے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ کے بلانے پر رخت سفر باندھا اور مصر چلے گٸے۔
996ء میں وہ فاطمی خلافت مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی،
مصر

(9/25)
کے حاکم بامر اللہ فاطمی نےانہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا، ابن الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے جہاں اس وقت “السد العالی”(السد العالی ڈیم) قائم ہے اور اس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے زمانے کے امکانات

(10/25)
کے حساب سے یہ کام ناممکن ہےاور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کر دیاجسے وہ پورا نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ الحاکم بامر اللہ کے پاس جاکر معذرت کر لی۔ جس پر وہ دس سال قید میں رہے ۔
ابن الہیثم کو بھی ہر سائنسدان کی طرح اپنی دریافتوں کو تحریر کرنے کے لیے وقت اور تنہائی کی

(11/25)
ضرورت تھی۔ جس پر قدرت کی طرف سے اس قید کو انہوں نے غنیمت جانا اور اسطرح سے انہیں اپنی تحقیق،مقالے لکھنے کا وقت مل گیا۔
ابن الہیثم دنیا کےوہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نےدرست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انہوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو

(12/25)
غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہےانہوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی بات ثابت کرنے کےلیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلےکسی نے نہیں کیا تھا۔
ابن الہیثم نے بطلیموس کے نظریات قبول نہیں کیے، بلکہ انہوں نے

(13/25)
بطلیموس کے روشنی کے حوالے سے بہت سارے نظریات کی مخالفت کی اور انہیں رد کردیا،انکی روشنی کےحوالےسےدریافتیں جدید سائنس کی بنیاد بنیں، مثال کےطور پر بطلیموس کا نظریہ تھا کہ دیکھنا تب ہی ممکن ہوتا ہےجب شعاع آنکھ سےکسی جسم سے ٹکراتی ہے، بعد کےسائنسدانوں نے اس نظریہ کو من و عن

(14/25)
قبول کیا، مگر ابن الہیثم نے اس نظریہ کی دھجیاں بکھیر کر ثابت کیا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور شعاع آنکھ سے نہیں بلکہ کسی جسم سے دیکھنے والے کی آنکھ سے ٹکراتی ہے۔
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف یعنی مڑنا دریافت کیا، انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور

(15/25)
کرنےکیلیےعدسوں کا استعمال کیا۔ان کی سب سےاہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے۔ انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جسمیں آج کی جدید سائنس بھی رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔
علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اور شاہکار تصنیف ”کتاب المناظر“

(16/25)
ابن الہیثم نے لکھی تھی۔کروی اورسلجمی آئینوں پر تحقیق بھی ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ انہوں نےلینس کی میگنی فائنگ پاور کی بھی تشریح کی۔انہوں نےاپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے بنائے۔ حدبی عدسوں پران کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں مائیکرو سکوپ اور ٹیلی اسکوپ کی ایجاد ممکن

(17/25)
ہوئی۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے پر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا، جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (آنکھ کا پردہ)، کیٹاریکٹ اور کورنیا جو ابھی تک

(18/25)
مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصے ’پتلی‘ کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ لاطینی میں مسور کو لینٹل کہتے ہیں،جو بعد میں لینس بن گیا۔دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ بھی ابن الہیثم کی ہی قابل فخر ایجاد ہے، جس سے تصویری صنعت کا آغازہوا۔

(19/25)
انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔
سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصانیف شمار کی گئی ہیں جو سائنس پر ان کا

(20/25)
احسان عظیم ہے۔ راجر بیکن اور کیپلر نے ابن الہیثم کے کام سے بہت استفادہ کیا، جب کہ گلیلیو نے اپنی دوربین انہی کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے بنائی۔
یہ عظیم مسلمان ساٸنسدان ساٸنس پر مذید توجہ دینے کیلیے اندلس (اسپین) بھی گٸے۔
ابن الہیثم دنیا کے پہلے، درست اور سچے سائنسدان

(21/25)
تھےجنہوں نے بتایا کہ ہم چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اس نے اپنے تجربات کے ذریعہ ثابت کیا کہ ایمیشن کا نظریہ(جس میں کہا گیا ہےکہ ہماری نظروں سے روشنی ان چیزوں پر پڑتی ہے جو ہم دیکھتے ہیں) جو افلاطون ، یوکلڈ اور ٹولیمی نے تشکیل دیا تھا ، وہ غلط ہے۔
ابن الہیثم نے ثابت کیا کہ

(22/25)
ہم اس لئے دیکھتے ہیں کیونکہ روشنی ہماری آنکھوں کے اندر جاتی ہے۔ انکا اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ریاضی کے فارمولوں کا سہارا لینے پر انہیں پہلا نظریاتی ماہر طبیعیات بھی کہا جاتا ہے۔
لیکن ابن الہیثم کی شہرت ان کے پن ہول کیمرے کی دریافت کے لئے زیادہ پھیلی ۔ابن الہیثم نے

(23/25)
روشنی کے طشتت کو بھی دریافت کیا کہ روشنی مختلف رنگوں میں کس طرح تقسیم ہوتی ہے۔ ابن الہیثم نے سائے ، قوس قزح اور چاند گرہن کا بھی مطالعہ کیا اور بتایا کہ روشنی کس طرح زمین کے کرۂ ہوا سے ہٹ جاتی ہے۔ ابن الہیثم نے کرۂ ہوا کی بلندی کو قریب قریب درست طریقے سے ناپ لیا اور ان

(24/25)
کے مطابق زمین کے کرۂ ہوا کی بلندی تقریبا 100 کلومیٹر ہے۔
کچھ اسکالرز کا کہنا ہے کہ یہ ابن الہیثم ہی تھا جس نے سیاروں کے مدار کی تشریح کی تھی اور اسی بنیاد پر کوپرنیکس ، گیلیلیو ، کیپلر اور نیوٹن نے بہت بعد میں جاکر سیاروں کی حرکیات کا نظریہ دیا تھا۔
زندگی کے آخری دنوں

(25/25)
میں ابن الہیثم ہسپانیہ سے واپس مصر لوٹ آۓ جہاں 1039ع میں انکا انتقال ہو گیا۔
چاچا افلاطون بقلم خود

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling