RH Riaz Profile picture
میرا پرانا اکاونٹ 42k والا ہیک ہو گیا ھے دوستوں سے فالو کرنے کی درخواست

Nov 18, 2021, 13 tweets

انگریزوں نےجب قلات پر قبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی1947 میں قیام پاکستان کےوقت بھی گوادر سلطنت عمان کا حصہ تھا

پاکستان نےاپنےقیام کےفورا بعد #گوادر کی بازیابی کیلئےآواز اٹھائی1949 میں اس مسئلےکےحل کیلئےمذاکرات بھی ہوئےجو کسی فیصلےکےبغیر ختم ہوئے ادھر شہنشاہ ایران
👇1/13

#گوادر کو ایران میں شامل کرنےاور اسےچاہ بہار کی بندرگاہ کےساتھ ملاکر توسیع دینےکےخواہش مند تھے
انکی اس خواہش کی پشت پناہی امریکی COA کر رہی تھی۔

سنہ 1956میں جب فیروز خان نون پاکستان کےوزیر خارجہ بنےتو انھوں
نےیہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا اور اسے
ہرصورت میں حل کرنےکا فیصلہ کیا
👇2/13

انھوں نےیہ مشن وقارالنسا نون کو سونپ دیاجنھوں نےانتہائی محنت
کےساتھ یہ مسئلہ حکومت برطانیہ
کےسامنےپیش کیاانھوں نےگوادر پر پاکستانی استحقاق کےحوالےسے برطانوی حکومت اور پارلیمانی حلقوں میں زبردست مہم چلائی

اس سلسلےمیں انھوں نےچرچل
سےبھی ملاقات کی اور برطانیہ
کےہاؤس آف لارڈز
👇3/13

یعنی ایوان بالا میں بھی پاکستان کی بھرپور لابیئنگ کی اور یہ مؤقف پیش کیاکہ گوادر قلات خاندان کی جاگیر تھا جو اب پاکستان میں شامل ھےلہٰذا قلات کی اس جاگیر کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہیے

وقارالنسا نون نےیہ جنگ تلوار کی بجائےمحض قلم دلائل اور گفت و شنید
👇4/13

کی مدد سےجیتی جس میں برطانیہ
کےوزیراعظم ہیرالڈ میکملن نےکلیدی کردار ادا کیا آٹھ ستمبر 1958کو گوادر کا علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا
اسی روز آغا عبدالحمید نےصدر پاکستان کےنمائندہ کی حیثیت
سےگوادر اور اسکےنواحی علاقوں کا نظم و نسق سنبھال لیا

ایک ماہ بعد اکتوبر1958میں ملک میں
👇5/13

مارشل لا کےنفاذ کےساتھ ہی فیروز خان نون کی وزارت عظمی کا خاتمہ ہوگیا تاہم بیگم وقارالنسا نون کی سماجی اور فلاحی خدمات کا سلسلہ جاری رہا

وہ ایک طویل عرصےتک پاکستان ریڈکراس سوسائٹی اور سینٹ جان ایمبولینس کی چیئرپرسن رہیں
وہ قائداعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ اور پاکستان ٹورزم
👇6/13

ڈیولپمنٹ کارپوریشن کےبورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن رہیں1978میں جنرل ضیا الحق نےانھیں مشیر کےعہدے پر فائز کیا اور وزیر مملکت برائےسیاحت مقرر کیا

1979میں انھوں نےپاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی چیئرپرسن کا عہدہ سنبھالا انھوں نےپاکستان میں یوتھ ہاسٹلز کےقیام اور ترقی میں بھی
👇7/13

نمایاں کردار ادا کیا1987میں انھیں پرتگال میں پاکستان کاسفیر مقرر
کیاگیا اس منصب پر وہ دو سال فائز رہیں بیگم وقارالنسا نون کئی
غیرسرکاری تنظیموں کی بھی روح رواں رہیں جن میں سینیئر سٹیزن فاؤنڈیشن، وائلڈ لائف فنڈ اور انگلش سپیکنگ یونین کے نام سرفہرست ہیں

بیگم وقارالنسا نون
8/13

نےاپنےدورہ روس کی یادداشتوں کو سفرنامےکی شکل بھی دی
انھیں متعدد ملکی بین الاقوامی اعزازات بھی ملے23مارچ1958کو گوادر کو پاکستان میں شامل
کروانےکی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرنےپر حکومت پاکستان نےانھیں نشان امتیاز کےاعزاز سےسرفراز کیا مگرانکا سب سےبڑا اعزاز
"مادر مہربان"
👇9/13

کا خطاب تھا جو انھیں پاکستانی عوام نےعطا کیاتھا
ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نےاپنی کتاب 'تنہائیاں بولتی ہیں' میں لکھاھےکہ
یورپ میں پیدا ہونےوالی اس عظیم خاتون نےجب ایک پاکستانی سےناتا جوڑا تو اپنا تن من دھن سب اس پر اور اسکی قوم پر قربان کر دیا
انھوں نےکبھی پیچھےمڑ کر نہیں دیکھا
👇10/13

اور سر نون کی وفات کےبعد بھی اپنا جینا مرنا اپنےشوہر کےوطن سےوابستہ رکھا

بیگم وقارالنسا نون کی اپنی اولاد نہیں تھی لیکن وہ فیروزخان نون کی پہلی اہلیہ کےبیٹوں کو سگی اولاد کی طرح چاہتی تھیں اور وہ بھی انکا احترام سگی ماں کی طرح کرتےتھے
سر نون بھی ان سے بےکراں محبت کرتےتھے
👇11/13

اور لاہور مسلم ٹائون میں انھوں نے اپنی وسیع و عریض کوٹھی کا نام الوقار رکھا تھا۔ وقار النسا نون نے عورتوں، بچوں اور غریبوں کی امداد کو تاعمر اپنا وظیفہ بنائے رکھا۔

انھیں اپنے شوہر کی جائیداد کی آمدنی سے جو حصہ ملتا وہ بھی بھلائی کے کاموں میں لگا دیتیں، انھوں نے کیمبرج
👇12/13

اور آکسفرڈ یونیورسٹیوں میں پاکستانی طالب علموں کے لیے دو وظائف بھی مقرر کر رکھے تھے۔

بیگم وقار النسا نون سنہ 2000 میں 16 جنوری کو اسلام آباد میں وفات پا گئیں، جہاں انھیں ایچ 8 کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا
#مادر_مہرباں
قوم کو گوادر کا تحفہ دینےوالی
وقار النسا نون
End
شیئر🙏

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling