Muhammad Mohsin Profile picture
Nature lover/ writer & activist https://t.co/CbHuEGLiOc #کچن_گارڈننگ_کو_فروغ_دیں #آؤ_شجرکاری_کریں

Feb 4, 2022, 26 tweets

دودھ‼️
پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پرشمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے اوپر دودھ کی پیداوار والے ممالک میں بالترتیب ہندوستان، چین اور امریکہ شامل ہیں۔ ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ سے زائد ہےجن سے سالانہ پنتالیس بلین لیٹرسے زائد دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں دودھ کی زیادہ پیداوار دینے والی گائیں اور بھینسوں میں ساہیوال کی گائیں اورنیلی راوی بھینسیں مشہور ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر بھینس کے دودھ کوترجیح دی جاتی ہے اور اس کی وجہ بھینس کے دودھ کا گائے کے دودھ سے گاڑھا ہونا ہے۔

بھینس کے دودھ میں چکنائی کا تناسب پانچ فی صد کے لگ بھگ ہوتا ہے جب کہ گائے کے دودھ میں یہ مقدار ساڑھے تین فی صد ہے۔ طبی ماہرین گائے کے دودھ کو انسانی صحت کے لیےزیادہ بہتر قراردیتے ہیں۔چند ملکوں کے سوا دنیا بھر میں ڈیری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گائے کا دودھ ہی استعمال کیا جاتاہے

ملک میں استعمال کردہ دودھ میں سے ستانوے فیصد دودھ چھوٹے گھرانوں سے حاصل کیا جاتا ہے جن کے پاس زیادہ سے زیادہ چھ سے آٹھ جانور ہیں، اسی وجہ سے یہ دودھ جراثیم سے پاک کرنے کے لئے مختلف مراحل سے نہیں گزارا جاتا جو کہ لوگوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔

کچھ چھوٹی موٹی کمپنیاں ہیں جو دودھ کو اکھٹا کر کے ان کو مختلف مراحل سے گزار کر ڈبوں میں پیک کرتی ہیں اور بہت سی دودھ کی نئی اقسام کو پیش کرتی ہیں،ان میں پیسچرائزڈ۔یو ایچ ٹی،کنڈنسڈ،پاﺅڈر اور مختلف اقسام شامل ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈیری فارمزکی تعداد تقریباً30ہزارہے۔

دودھ کی زندگی اﷲ تعالیٰ نے 4 گھنٹے رکھی ہے۔ اس کے بعد دودھ پھٹ جاتا ہے۔ اس کو مزید دیرپا بنانے کے لیے فریج، برف اور چلر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چلر دودھ کو 4 سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کرتا ہے، جس کی وجہ سے دودھ کی زندگی 4 گھنٹے سے بڑھ کر 16 گھنٹے تک ہو جاتی ہے،

جبکہ برف اور فریج میں 44 سینٹی گریڈ پر رکھا جاتا ہے، جس کے بعد دودھ کی زندگی 8 سے 10 گھنٹے بڑھ جاتی ہے اور کیمیکل مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ٹائمنگ بھی جدا جدا دیتے ہیں، لیکن کیمیکل جتنے زیادہ استعمال کیے جائیں گے دودھ اتنا ہی گاڑھا اور مضر ہوگا

خالص تازہ، قدرتی دودھ میں اتنی بچت نہیں ہے کہ اس سے 4 ارب سالانہ ایڈورٹائزنگ کا بجٹ نکالا جاسکے۔ تازہ دودھ تو نسل در نسل سے چلتا آرہا ہے اور ہمارے آباؤ اجداد زیادہ صحت مند تھے یا آج کی نسل؟ کون ڈبے کا دودھ پیتا تھا اور کون تازہ؟ یہ بات سب کے سامنے ہے۔

سوال یہ ہے گوالے اگر احتیاط نہیں کرتے تو دودھ پیک کرنے والی کمپنیاں دودھ لیتی کہاں سے ہیں؟ ہمارے قریب میں ''ایک مشہور کمپنی'' والے روزانہ سوا لاکھ لیٹر دودھ کی پیکنگ کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی ایک بکری بھی نہیں ہے،

جبکہ انہوں نے انڈسٹری لگانے سے پہلے یہ حلف اٹھایا تھا کہ ہم دودھ کی پیداوار کے لیے اپنا انتظام کریں گے، مگر آج تک ان کے پاس کچھ نہیں۔ دودھ پیک کرنے والی تمام کمپنیاں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اگر ہم اپنے جانور خود پالیں تو کتنی مشکلات اٹھانی پڑے گی؟

دودھ دوہے جانے کے بعد جب کمپنیاں تازہ دودھ اکٹھا کرنا شروع کرتی ہیں تو دودھ کی زندگی تو وہیں پوری ہوجاتی ہے، کیونکہ 6سے 8 گھنٹے کے سفر کے بعد دودھ پیکنگ سینٹرز تک پہنچتا ہے اور دودھ کی اپنی زندگی صرف 4 گھنٹے ہوتی ہے۔
پھر کمپنیوں والے اس کو دیرپا بنانےکےلیے اس میں کیمیکل ڈالتے ہیں

جس کے باعث دودھ سینٹر میں پہنچتے پہنچتے زہر بن چکا ہوتا ہے۔ مزید ظلم یہ کہ کمپنیوں میں دودھ پہنچ جانے کے بعد ''دودھ غذائیت سے بھرپور نہیں ہوتا'' بلکہ غذائیت کو کریم کے نام پر نکال لیا جاتا ہے۔
یہ کریم باہر کے ممالک میں بٹر مِلک (Butter Milk) کے نام سے ایکسپورٹ ہو جاتی ہے

باقی رہ جاتا ہے پھوک، جس میں پاؤڈر اور 6 ،7قسم کے کیمیکل مکس کر کے گاڑھا کیاجاتا ہے۔ یہ ہے ہائی جینک ملک کی کہانی!جس میں دودھ نہیں بلکہ ہے پانی اورہم اسے White Milk نہیں بلکہWhite Metirl کہتے ہیں
اس کو ہائی جینک مِلک کے نام سے متعارف کروایاجاتاہے،جبکہ اس کے اندرتوکچھ رہا ہی نہیں

پوری دنیا میں Milk UHT (الٹرا ہیٹڈ ٹریٹڈ مِلک) کو کیمپنگ مِلک کا نام دیا گیا ہے۔ UHT Milk کو دنیا میں اس لیے متعارف کروایا گیا کہ یہ لوگ اس کو صرف مجبوری کی حالت میں ایک فیصد کی حد تک استعمال کرسکتے ہیں
کبھی کسی علاقے میں آسمانی آفت آجائے یا علاقے میں دودھ کا قحط پڑ جائے تو

دور دراز کے علاقوں میں دودھ پہنچانے کے لیے اس طریقے کو اختیار کیا جاتا ہے۔ دودھ کا نام کیمپنگ ملک بھی اس لیے رکھا گیا کہ کسی مقام پر لوگ ایمرجنسی کی صورت
میں کیمپوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ حکومت یا فلاحی اداروں کے پاس ایسے وسائل نہیں ہےں کہ دودھ کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔

آپ اگر کسی بھی ڈبے والے دودھ کی پیکنگ دیکھیں تو اس کی اندرونی ساخت سلور رنگ میں ایلومینیم فوائل سے کی جاتی ہے۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ ایلومینیم فوائل پیکنگ میں کینسر کے اثرات ہوتے ہیں، جو لوگ پیکنگ والا دودھ،چائےکا بلا ناغہ اہتمام کرتے ہیں وہ جلد کینسر مبتلا ہوجاتے ہیں

دودھ کو ایک خاص طریقہ کار کے ذریعے مختصر عرصے کے لیے ایک سو پنتالیس سے ایک سو پچاس فورن ہیٹ درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جراثیم کو ختم کردیا جائے اور پھر اسے ٹھنڈا کرکے بوتلوں میں بھرا جائے، اور اس کے بعد اسے بازار میں لایا جائے۔ اس طریقہ کار کو پیسچرائزیشن‼️ کہا جاتا ہے

پیسچرائزیشن کے ذریعے دودھ کو ایکولائے اور بیکٹریا سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں سے پاک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بائیس فیصد دودھ پیسچر ائزڈ کیا جاتا ہے اور باقی گوالے فروخت کرتے ہیں۔ عام طور پر لوگ پیسچرآئزڈ دودھ کی بجائےگوالوں کےمہیا کردہ دودھ کااستعمال کرتے جو پیٹ جگر بیماری باعث

گوالے دودھ کی مقدار کو زیادہ کرنے کے لئے دودھ میں پانی یا کیمیکل ملاتے ہیں جس سے دودھ آلودہ ہوجاتا ہے اور اس کی غذائیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگ گوالوں کی اصلیت سے واقف ہیں مگر پھر بھی وہ یہی جراثیم زدہ اور غیر پیسچر آئزڈ دودھ استعمال کرتے ہیں۔

گوالوں کا مہیا کردہ دودھ استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پیسچرائزیشن کا عمل جراثیم کے ساتھ ساتھ دودھ میں سے مفید اجزاءکو بھی ختم کردیتا ہے اسلئے وہ خالص دودھ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے

اکثر لوگ دودھ کو ابال کرپینے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ دودھ میں موجود انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والے جراثیم مرجائیں جبکہ ایسا کرنے سے جراثیم کے ساتھ ساتھ دودھ کے فائدے مند اجزاءبھی ضائع ہو جاتے ہیں۔

اس کی نسبت پیسچرائزیشن کے طریقے سے دودھ کی غذائیت بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور جراثیم کو بھی مار دیا جاتا ہے۔ پیسچرائزیشن کے ذریعے دودھ کو ٹھنڈا کر کے ڈبوں اور بوتلوں میں مشینوں کے ذریعے بھر دیا جاتا ہے۔

ڈبوں میں بند خوراک میں BPAیا بیسفنول اے نامی کیمیکل کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔BpAیا بیسفنول اے نامی یہ کیمیکل کینز اورڈبوں میں لگی حفاطتی کوٹنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیٹرا پیک پیکنگ بھی ہمارے لئے کوئی خاص مفید نہیں ہے۔

پاکستان میں متعدد کمپنیاں ٹیٹراپیک یا ڈبوں میں بند فروخت کئے جانے والے دودھ کو صحت بخش دودھ کہہ کر فروخت کر رہی ہیں جو کہ غلط ہے۔ اس کی نسبت پیسچر ائزڈ یعنی بوتلوں میں فروخت کیے جانے والے دودھ میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ اولا ڈبہ بند دودھ، خشک دودھ اور ٹی وائٹنرز کا استعمال فورا بند کر دیں۔ کھلے دودھ کی حوصلہ افزائی کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گوالوں کا اخلاقی معیار بھی بلند کرنا ہوگا۔ دودھ دینے والے جانوروں کو انجکشن نہ لگائیں۔ لالچ ، اخلاق ، صحت اور معیشت تینوں کی دشمن ہے۔

لہذا لالچ سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس بارے میں آگاہی مہم چلائیں۔ گھر اور باہر ہر جگہ خود بھی ملاوٹ سے نفرت کا اظہار کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ ملکی مصنوعات کو رواج
دیں اور غیر ملکی و ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔ اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھیں۔

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling