#مادر_محترم
انگریزوں نےجب قلات پر قبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی 1947میں قیام پاکستان کےوقت بھی گوادر سلطنت عمان کا حصہ تھا
پاکستان نےاپنےقیام کےفوراً بعد گوادر کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائی 1949 میں اس مسئلےکےحل
کیلئےمذاکرات بھی ہوئےجو کسی فیصلےکے بغیر ختم ہوئے
👇1/14
ادھر شہنشاہ ایران گوادر کو ایران میں شامل کرنے اور اسے چاہ بہار کی بندرگاہ کے ساتھ ملا کر توسیع دینے کے خواہش مند تھے۔ ان کی اس خواہش کی پشت پناہی امریکی سی آئی اے کر رہی تھی۔
سنہ 1956 میں جب فیروز خان نون پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا
👇2/14
اور اسے ہر صورت میں حل کرنے کا فیصلہ کیا
انھوں نے یہ مشن وقار النسا نون کو سونپ دیا، جنھوں نے انتہائی محنت کے ساتھ یہ مسئلہ حکومت برطانیہ کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے گوادر پر پاکستانی استحقاق کے حوالے سے برطانوی حکومت اور پارلیمانی حلقوں میں زبردست مہم چلائی۔
اس سلسلے میں
👇3/14
انھوں نے چرچل سے بھی ملاقات کی اور برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز یعنی ایوانِ بالا میں بھی پاکستان کی بھرپور لابیئنگ کی اور یہ مؤقف پیش کیا کہ گوادر قلات خاندان کی جاگیر تھا جو اب پاکستان میں شامل ہے لہٰذا قلات کی اس جاگیر کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہیے۔
👇4/14
وقار النسا نون نے یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم، دلائل اور گفت و شنید کی مدد سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیراعظم ہیرالڈ میکملن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آٹھ ستمبر 1958 کو گوادر کا علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اسی روز آغا عبدالحمید نے صدر پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے گوادر
👇5/14
اور اس کے نواحی علاقوں کا نظم و نسق سنبھال لیا۔
ایک ماہ بعد اکتوبر 1958 میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی فیروز خان نون کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ ہو گیا تاہم بیگم وقار النسا نون کی سماجی اور فلاحی خدمات کا سلسلہ جاری رہا۔
وہ ایک طویل عرصے تک پاکستان ریڈکراس سوسائٹی
👇6/14
اور سینٹ جان ایمبولینس کی چیئرپرسن رہیں۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ اور پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن رہیں۔ 1978 میں جنرل ضیا الحق نے انھیں مشیر کے عہدے پر فائز کیا اور وزیر مملکت برائے سیاحت مقرر کیا۔
1979 میں انھوں نے پاکستان ٹورزم
👇7/14
ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی چیئرپرسن کاعہدہ سنبھالا
انھوں نےپاکستان میں یوتھ ہاسٹلز کےقیام ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔1987 میں انھیں پرتگال میں پاکستان کا سفیر مقرر کیاگیا اس منصب پر وہ دو سال فائز رہیں۔ بیگم وقار النسا نون کئی غیر سرکاری تنظیموں کی بھی روح و رواں رہیں
👇8/14
جن میں سینیئر سٹیزن فاؤنڈیشن، وائلڈ لائف فنڈ اور انگلش سپیکنگ یونین کے نام سرفہرست ہیں
بیگم وقار النسا نون نےاپنے دورۂ روس کی یادداشتوں کو سفرنامے کی شکل بھی دی۔انھیں متعدد ملکی اور بین الاقوامی اعزازات بھی ملے۔23 مارچ 1958 کو گوادر کو پاکستان میں شامل کروانےکی جدوجہد میں
👇9/14
نمایاں کردار ادا کرنے پر حکومت پاکستان نے انھیں نشان امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ مگر ان کا سب سے بڑا اعزاز 'مادر مہربان' کا خطاب تھا جو انھیں پاکستانی عوام نے عطا کیا تھا۔
ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے اپنی کتاب 'تنہائیاں بولتی ہیں' میں لکھا ہے کہ 'یورپ میں پیدا ہونے والی
👇10/14
اس عظیم خاتون نے جب ایک پاکستانی سے ناتا جوڑا تو اپنا تن من دھن سب اس پر اور اس کی قوم پر قربان کر دیا۔ انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور سر نون کی وفات کے بعد بھی اپنا جینا مرنا اپنے شوہر کے وطن کے ساتھ وابستہ رکھا۔
بیگم وقار النسا نون کی اپنی اولاد نہیں تھی
👇11/14
لیکن وہ فیروز خان نون کی پہلی اہلیہ کے بیٹوں کو سگی اولاد کی طرح چاہتی تھیں اور وہ بھی ان کا احترام سگی ماں کی طرح کرتے تھے۔ سر نون بھی ان سے بے کراں محبت کرتے تھے اور لاہور مسلم ٹائون میں انھوں نے اپنی وسیع و عریض کوٹھی کا نام الوقار رکھا تھا۔ وقار النسا نون نے عورتوں،
👇12/14
بچوں اور غریبوں کی امداد کو تاعمر اپنا وظیفہ بنائے رکھا۔
انھیں اپنے شوہر کی جائیداد کی آمدنی سے جو حصہ ملتا وہ بھی بھلائی کے کاموں میں لگا دیتیں، انھوں نے کیمبرج اور آکسفرڈ یونیورسٹیوں میں پاکستانی طالب علموں کے لیے دو وظائف بھی مقرر کر رکھے تھے۔
👇13/14
بیگم وقار النسا نون سنہ 2000 میں 16 جنوری کو اسلام آباد میں وفات پا گئیں، جہاں انھیں ایچ 8 کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
#مادر_محترم
تیری عظمت کو سلام 🙋♀️
پلیز دعا کریں
فالو اور شیئر کریں 👇
Share this Scrolly Tale with your friends.
A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.