چاچا افلاطون Profile picture
Psychologist, Writer, philosopher, Historian, Columnist پاکستان، اسلام ، قادیانی،خونی و بادی لبڑلز میرے اکاٶنٹ سے تین میل دور رہیں۔

Nov 24, 2022, 27 tweets

*مشرقی پاکستان الگ ہونے کے اندوہناک حقاٸق*
پاکستان ٹوٹنے کے اصل محرکات کے سلسلے میں ایک ایسے شخص کی باٸیوگرافی حاضر خدمت ہے جو پاکستان کی تاریخ کا عیاش ترین حکمران تھا جس کی راتیں اور دن شراب اور شباب میں گزرتے تھے جسکی نحوست سے ہی پاکستان کا مشرقی حصہ الگ ہو کر علیحدہ
(1/27)

(2/27)
ملک بنگلہ دیش بنا تھا۔۔
دوستو۔۔! برصغیر کی تاریخ حریص لالچی ماٸع پرستوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک طرف انگریز کے خلاف برصغیر کے آزادی پسند برسرپیکار تھے تو دوسری طرف انہی برصغیر کے باشندوں میں انگریز کے تلوے چاٹنے والے غدار بھی موجود تھے۔انگریز اپنے انہی پٹھوٶں کو بڑے بڑے عہدے

(3/27)
دیتا اور انہی میں سے بعض کو اعلیٰ کارکردگی پر خان بہادر کا لقب اور میڈل دیتا۔
اسی طرح کا ایک خان بہادر آغا سعادت علی خان بھی تھا جو انگریز کی انڈین پولیس میں ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔
قزلباش قوم سے تعلق رکھنے والے اسکے آباٶاجداد دو صدی پہلے افغانستان کے راستے برصغیر آۓ اور

(4/27)
پشاور کو اپنا مسکن بنایا۔
انگریز کے اس خان بہادر ، سعادت علی خان نے نوکری کے اواٸل میں پنجاب کے شہر چکوال میں سکونت اختیار کی۔
1917 میں اسکے گھر چھٹے نمبر پر بیٹا پیدا ہوا۔ اس بچے نے بتدریج عمر کے ساتھ انگریز کے زیراثر تعلیم مکمل کی۔ جوان ہوا اور 1938 میں انگریز کے

(5/27)
زیرکمان برصغیر کی فوج میں کمیشن حاصل کرکے دوسری عالمی جنگ میں انگریز کیلیے متعدد محازوں پر خدمات سرانجام دیں
پاکستان بننے کے بعد اسے 1962ء میں مشرقی پاکستان کے گیریژن آفیسر کمانڈنگ مقرر کیا گیا۔ ستمبر 1966ء میں جنرل محمد موسیٰ خان کے ریٹائر ہونے پر افواج پاکستان کا

(6/27)
کمانڈر انچیف مقرر ہوا۔ اور یوں وہ پاکستان کی تاریخ میں جنرل یحییٰ کے نام سے رقم ہوا۔
اپنے ابتدائی دور میں تو یہ جنرل یحییٰ بڑا فرمانبردار رہا لیکن جب صدر جنرل ایوب خان کا زوال شروع ہوا تو موصوف نے پر پرزے نکالنا شروع کیے۔
ہوا کچھ ایسے تھا کہ 1965ء کی جنگ کے بعد طلبہ

(7/27)
نے معاہدۂ تاشقند کے خلاف تحریک چلادی جو کافی شدت اختیار کر گئی۔۔ جو رفتہ رفتہ ایوب خان کے خلاف ایک طاقت کی سی شکل اختیار کر گئی تھی۔
جسے بعد ازاں جب بزور طاقت دبایا گیا تو عام لوگوں کے دِلوں میں یہ تحریک شعلے کی طرح جل اُٹھی تھی۔
ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو جو کہ

(8/27)
وزیر خارجہ تھا اسے بھی وزارت سے ہٹا کر اپنے پاٶں پہ کلہاڑی ماری۔
قلمدان چھن جانے کے بعد بھٹو نے عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوۓ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔
1966ء میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن

(9/27)
نے 6 نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان کی سیاسی اور عوامی دونوں سطحوں پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کا مترادف قرار دے کر شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور

(10/27)
بھی پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خون ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کرلی۔ مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔
یہی وقت تھا

(11/27)
جب 23 مارچ 1969ء کو جنرل یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحییٰ خان نے باقاعدہ مارشل لا نافذ کرنے کا

(12/27)
اعلان کر دیا اور اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔
30 جون 1970ء کو سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی۔ سابق ریاست بہاول پور کو پنجاب میں اور کراچی کو سندھ میں شامل کر دیا گیا۔ اور سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو ملا کر مالاکنڈ ایجنسی قائم

(13/27)
کی گئی۔
دوستو۔۔! یہاں ایک اہم بات ذکر کرتا چلوں کہ جنرل یحییٰ خان وہسکی کا بہت بڑا شوقین تھا وہ اس دوران اپنی منفرد پہچان ایک بڑے شرابی کے طور پر کروا چکا تھا۔ شراب کے ساتھ ساتھ موصوف عورتوں کا بھی خوب رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھے ان میں آئی جی پولیس کی بیگم،

(14/27)
بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، گلوکارہ نورجہاں، اقلیم اختر رانی عرف جنرل رانی، کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام خضرحیات ٹوانہ کی سابقہ بیگم،

(15/27)
انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم، شگفتہ، نغمہ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔
ان کے علاوہ کٸی آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر

(16/27)
خواتین انکے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔
یحییٰ خان نے 7 ستمبر، 1970ء کو قومی اسمبلی اور 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے شفاف ترین انتخابات کروا کر ملکی و عالمی میڈیا کو حیران کردیا۔جس پر پہلی بار پاکستانی خوش ہوۓ اور جنرل یحییٰ کے اتنے بڑے عیبوں کو دیکھنے کے باوجود اسکی تعریفوں

(17/27)
میں جُت گٸےکہ شاٸد جنرل یحییٰ سنہری تاریخ رقم کرےگا۔۔
7 دسمبر 1970 کے دن انتخابات ہوۓ۔
ملک کے تقریباً پانچ کروڑ ستر لاکھ ووٹروں میں سے ایک بہت بڑی تعداد نےحب الوطنی کے جذبے سےسرشار ہوکر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا۔
اس پرجوش الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ قومی اسمبلی

(18/27)
کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے 167 نشستیں حاصل کرکےمیدان مار کر پاکستان کی واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت بنانے کا بڑا مینڈیٹ حاصل ہوگیا تھا۔
لیکن مغربی پاکستان میں سب ششدر رہ گئےتھے کہ یہ کیا ہوگیا؟
عوامی لیگ کے مدمقابل ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی تھی

(19/27)
جو قومی اسمبلی کی 80 نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی۔
یہ منظر دیکھ کر صدر یحییٰ خان نے اپنے حواریوں کو ملا کر نیا کھیل شروع کردیا۔۔عوامی لیگ کو حق رکھنے کےباوجودحکومت نہیں بنانے دی گئی، جس کا نتیجہ پاکستان کے مشرقی حصے میں احتجاج کی صورت میں نکلا، یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے

(20/27)
خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا۔جسکا بھرپور فاٸدہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اٹھاتے ہوۓ مکتی باہنی بن دی اور مشرقی پاکستان میں فوج اتار دی۔
16 دسمبر، 1971ء کو مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کے قبضے اور مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پورے

(21/27)
ملک میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔
20 دسمبر، 1971ء کو جنرل یحییٰ نےاقتدار پیپلزپارٹی کے چٸیرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔
8 جنوری، 1972ء کو یحییٰ خان کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے اسے نظر بند کر دیا گیا۔
جولائی 1977ء میں ملک میں مارشل لا نافذ

(22/27)
کرکے جنرل ضیاالحق نے اسے رہا کر دیا۔
”اب کچھ اہم باتیں“
یحییٰ خان پہلا فوجی جنرل بنا جس نے اپنے سابقہ باس ایوب خان کی حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ اورجس نے ملک گیر مارشل لاء بھی لگایا تھا۔
اس نے کچھ اچھے کام بھی کئے تھے جن میں سے ون یونٹ توڑنا ، صوبے بحال کرنا ، آزادانہ اور

(23/27)
منصفانہ انتخابات منعقد کرانا شامل ہیں لیکن انتقال اقتدار میں وہ بڑا ہی بددیانت اور جابر ثابت ہوا تھا۔ یحییٰ ایک ایسے آئین کی تشکیل پر بضد تھا جس میں طاقت کا منبع صدر یا آرمی چیف رہے۔۔۔
اسلیے وہ اکثریتی پارٹی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کو یہ حق دینے پر کسی طور بھی تیار نہیں

(24/27)
تھا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ جنرل یحییٰ نے ملک تڑوا لیا لیکن اقتدار سے دستبردار ہونے کو ہرگز تیار نہیں ہوا۔
اگر سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی سویلین کو حکومت نہ دیتا جو اس کے اس پریس ریلیز سے ظاہر تھا جو اس نے 20 دسمبر 1971ء سے نئے آئین کی صورت میں ملک پر مسلط کرنا تھا

(25/27)
یاد رکھیں ۔۔! جنرل یحییٰ خان پاکستان کا پانچواں آرمی چیف ، پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا بڑا ولن ثابت ہوا کہ جس کےدور میں پاکستانی فوج کو تاریخ کی شرمناک ترین فوجی شکست ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن اور مغربی پاکستان سے بھارت پر حملہ کرنا
(جاری ہے)

(26/27)
اس کے فوجی کیرئیر کے تباہ کن فیصلے ثابت ہوئے تھے جن میں پاکستان کا پہلا وائس آرمی چیف جنرل حمید بھی برابر کا شریک تھا جسے فورسٹار جنرل بنایا گیا تھا۔
دس اگست 1980 کو جنرل یحییٰ خان دنیا سے رخصت ہوا۔
اس کی موت سب طاقتور حکمرانوں کیلیے ایک بڑا سبق ہونا چاہیے تھا مگر

(27/27)
ہمارے ناعاقبت اندیش اداروں کے سربراہان اور حکمران شعور کے اس لیول سے بہت نیچے ہیں۔
#چاچاافلاطون بقلم خود

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling