Dr. Bano Profile picture

Apr 25, 2023, 16 tweets

افغانستان پچھلی کئی دہائیوں سے عالمی منظر پر موضوع بحث بناہوا ہے
پہلے روس کی یلغار پھر اندرونی خانہ جنگی اس کے بعد نائن الیون کا واقعہ اور امریکہ کی چڑھائی
یوں افغانستان دہائیوں سے شورش زدہ علاقہ رہاہے
مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان شورشوں سے دور افغانستان میں امن کا ایک علاقہ
👇

ایسا بھی جہاں آج تک کوئی نہ پہنچ سکا نا طالبان ، نا اسٹوڈنٹ اور نا ہی امریکن۔ اس علاقے کو "واخان" کہتے ہیں

مزارِ شریف سے تقریباً 600 کلومیٹر مشرق میں "واخان کوریڈور" ہے جو کہ باقی ملک سے ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ بدخشاں خطے میں واقع 350 کلومیٹر طویل
👇

یہ خطہ دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں ہندوکش ، قراقرم اور پامیر کے ملنے کے مقام پر واقع ہے

زندگی کے شور شرابے سے دور یہ علاقہ امن و شانتی کی سر زمین ہے ،
"واخان" کوریڈور میں چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیاں رہتی ہیں جیسے کہ "خاندد" جن میں سادہ پتھر ، کیچڑ اور لکڑی سے گھر بنے ہوتے ہیں۔
👇

ان میں سے کچھ بڑے دیہات بھی ہیں جو ایک کچے راستے سے آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔ اس کچے راستے کو اکثر دریائے پنج کا پانی ناقابل استعمال بنا دیتا ہے اور راستوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے

یہاں زیادہ آبادی نہیں ہے اور یہاں پہنچنا مشکل ہے۔ کچھ ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ یہاں ایک ایسی جگہ ہے
👇

یہ دنیا میں دور دراز ترین اور خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے

واخان سے 80 کلو میٹر دور ایک گاؤں ہے جس کا نام "اشکاشم" ہے وہ بھی واخان سے زیادہ جڑا ہوا نہیں ہے کیونکہ وہاں تک کی مسافت اور راہ گزار بہت مشکل ہیں جس میں پیدل پہنچنے میں دو دن لگ جاتے ہیں، واخان دیگر علاقوں سے
👇

کٹا ہوا ہے۔ کچھ دیہات تو اشکاشم سے چار روز کی پیدل مسافت پر ہیں۔ یہاں سے قریب ترین بڑا شہر "دشنبے" ہے جو تاجکستان کا دارالحکومت ہے اور یہاں سے تین دن کی مسافت پر ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ یہ علاقہ جیسے ایک گزرا زمانہ ہو
جب لوگ سرحد پار کر کے تاجکستان میں داخل ہوتے ہیں وہاں کی
👇

سڑکیں ، فون ، اور بجلی وغیرہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ہم کہاں آ گئے ہیں م؟

تقریباً 2500 برسوں سے واخان کوریڈور واخائی برادری کا گھر ہے
اس وقت ان کی آبادی تقریباً 12 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اگرچہ زیادہ تر افغان قدامت پسند سنی مسلمان ہیں مگر وخائی "اسماعیلی"( آغا خانی) ہیں
👇

جو کہ اسلام کے شعیہ مسلک کا ایک فرقہ ہے
یہ اسماعیلی فرقہ پاکستان میں بھی بہت پر امن طریقے سے زندگی بسر کرتا ہے ، سیاست اور زندگی کے دوسرے بکھیڑوں سے دور انسانیت پر یقین رکھنے والا فرقہ ہے جو کسی کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا بس ملک سے وفادار ہوتا ہے

یہاں خواتین برقعہ
👇

نہیں پہنتیں اور نہ ہی یہاں مساجد ہیں۔ اس کی جگہ وخائی جماعت خانے ہیں جو کہ عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ کمیونٹی سینٹر (فلاح) کا کام بھی کرتے ہیں

واخان میں ایک مغربی مرد سیاح بغیر اجازت کے وخائی خاتون کی تصویر کھینچ سکتا ہے اور اس پر کوئی ناراض نہیں ہوتا افغانستان کے کسی دوسرے
👇

علاقوں میں کوئی سیاح ایسا سوچ بھی نہیں سکتا

انتہا پسندی کی عدم موجودگی اور اس خطےکا دور دراز ہونا اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دا عش اور طالبان جیسی تنظیمیں یہاں نہیں پہنچ سکی ہیں اسی لیے جب باقی سارے ملک میں جنگ چھڑی ہوتی ہے تو واخان میں اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آتے ۔

👇

واخائی لوگ اس نیم بنجر خطے میں گندم ، جو ، مٹر ، آلو ، سیب اور خوبانی کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کے کھیت گلیشئرز کے پگھلتے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ امیر خاندانوں کے پاس بھیڑ بکریاں ، کچھ اونٹ ، گھوڑے یا گدھے ہوتے ہیں جن سے وہ ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں ۔م

واخان کے لوگوں کا پسندیدہ
👇

کھیل "بزکشی" کھیل ہے ، کہتے ہیں جدید رگبی کھیل آس کی کاپی ہے ، یہ کئی صدیوں پرانا کھیل ہے جسے گھوڑوں پر سوار ہو کر رگبی کے طرح کھیلا جاتا ہے ۔ اس کھیل میں بکری کے جسم کو گیند بنا کر کھیلتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پولو کا کھیل بزکشی سے نکلا ہے۔ اس کھیل کے قوائد و ضوابط بالکل بھی
👇

نہیں ہوتے کیونکہ کھلاڑی ایک دوسرے کو مکے ، ٹانگیں مار کر بھی اس بکری کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کھیل میں ہڈیاں ٹوٹنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

وخائی دیہات ایک دوسرے کے ساتھ یہ کھیل کھیلنا بہت پسند کرتے ہیں، خاص طور پر نوروز کے موقع پر جو ہر سال 21 مارچ کو
👇

منایا جاتا ہے جب بہار کے موسم کا پہلا دن ہوتا ہے ۔ مگر افغانستان کے دوسرے علاقوں میں بزکشی زیادہ سیاسی ہے ، جہاں اشرافیہ کی طاقت دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، مگر یہاں اس کھیل کا محور مقابلہ اور برادری ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو واخان کو سب سے انوکھا اور منفرد
👇

بناتا ہے۔

افغانستان کی داخلی صورتحال کے باوجود اس علاقے کی امن شانتی پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ یوں کہا جائے کہ افغانستان کے ماحول سے اس کا بالکل جدا گانہ ماحول ہے ۔

کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ اس علاقے سے 13 ویں صدی میں مارکو پولو یہاں سے گزر کر چین گیا اور سکندرِ اعظم بھی یہیں
👇

سے گزرے تھے ، ان قدیم راستوں کے نشانات ، راستے میں ٹھہرنے کے مقامات اور بدھ بت کے نشانات بھی نظر آتے ہیں۔

تین کروڑ بیس لاکھ سے زائد آبادی والے ملک افغانستان میں یہ بیس ہزار نفوس پر مشتمل کمیونٹی سکھ و چین سے زندگی گزارتے ہیں۔

تحریر و تحقیق
نثار نندوانی

Copied
#موناسکندر

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling