افغانستان پچھلی کئی دہائیوں سے عالمی منظر پر موضوع بحث بناہوا ہے
پہلے روس کی یلغار پھر اندرونی خانہ جنگی اس کے بعد نائن الیون کا واقعہ اور امریکہ کی چڑھائی
یوں افغانستان دہائیوں سے شورش زدہ علاقہ رہاہے
مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان شورشوں سے دور افغانستان میں امن کا ایک علاقہ
👇
ایسا بھی جہاں آج تک کوئی نہ پہنچ سکا نا طالبان ، نا اسٹوڈنٹ اور نا ہی امریکن۔ اس علاقے کو "واخان" کہتے ہیں
مزارِ شریف سے تقریباً 600 کلومیٹر مشرق میں "واخان کوریڈور" ہے جو کہ باقی ملک سے ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ بدخشاں خطے میں واقع 350 کلومیٹر طویل
👇
یہ خطہ دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں ہندوکش ، قراقرم اور پامیر کے ملنے کے مقام پر واقع ہے
زندگی کے شور شرابے سے دور یہ علاقہ امن و شانتی کی سر زمین ہے ،
"واخان" کوریڈور میں چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیاں رہتی ہیں جیسے کہ "خاندد" جن میں سادہ پتھر ، کیچڑ اور لکڑی سے گھر بنے ہوتے ہیں۔
👇
ان میں سے کچھ بڑے دیہات بھی ہیں جو ایک کچے راستے سے آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔ اس کچے راستے کو اکثر دریائے پنج کا پانی ناقابل استعمال بنا دیتا ہے اور راستوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے
یہاں زیادہ آبادی نہیں ہے اور یہاں پہنچنا مشکل ہے۔ کچھ ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ یہاں ایک ایسی جگہ ہے
👇
یہ دنیا میں دور دراز ترین اور خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے
واخان سے 80 کلو میٹر دور ایک گاؤں ہے جس کا نام "اشکاشم" ہے وہ بھی واخان سے زیادہ جڑا ہوا نہیں ہے کیونکہ وہاں تک کی مسافت اور راہ گزار بہت مشکل ہیں جس میں پیدل پہنچنے میں دو دن لگ جاتے ہیں، واخان دیگر علاقوں سے
👇
کٹا ہوا ہے۔ کچھ دیہات تو اشکاشم سے چار روز کی پیدل مسافت پر ہیں۔ یہاں سے قریب ترین بڑا شہر "دشنبے" ہے جو تاجکستان کا دارالحکومت ہے اور یہاں سے تین دن کی مسافت پر ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ یہ علاقہ جیسے ایک گزرا زمانہ ہو
جب لوگ سرحد پار کر کے تاجکستان میں داخل ہوتے ہیں وہاں کی
👇
سڑکیں ، فون ، اور بجلی وغیرہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ہم کہاں آ گئے ہیں م؟
تقریباً 2500 برسوں سے واخان کوریڈور واخائی برادری کا گھر ہے
اس وقت ان کی آبادی تقریباً 12 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اگرچہ زیادہ تر افغان قدامت پسند سنی مسلمان ہیں مگر وخائی "اسماعیلی"( آغا خانی) ہیں
👇
جو کہ اسلام کے شعیہ مسلک کا ایک فرقہ ہے
یہ اسماعیلی فرقہ پاکستان میں بھی بہت پر امن طریقے سے زندگی بسر کرتا ہے ، سیاست اور زندگی کے دوسرے بکھیڑوں سے دور انسانیت پر یقین رکھنے والا فرقہ ہے جو کسی کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا بس ملک سے وفادار ہوتا ہے
یہاں خواتین برقعہ
👇
نہیں پہنتیں اور نہ ہی یہاں مساجد ہیں۔ اس کی جگہ وخائی جماعت خانے ہیں جو کہ عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ کمیونٹی سینٹر (فلاح) کا کام بھی کرتے ہیں
واخان میں ایک مغربی مرد سیاح بغیر اجازت کے وخائی خاتون کی تصویر کھینچ سکتا ہے اور اس پر کوئی ناراض نہیں ہوتا افغانستان کے کسی دوسرے
👇
علاقوں میں کوئی سیاح ایسا سوچ بھی نہیں سکتا
انتہا پسندی کی عدم موجودگی اور اس خطےکا دور دراز ہونا اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دا عش اور طالبان جیسی تنظیمیں یہاں نہیں پہنچ سکی ہیں اسی لیے جب باقی سارے ملک میں جنگ چھڑی ہوتی ہے تو واخان میں اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آتے ۔
👇
واخائی لوگ اس نیم بنجر خطے میں گندم ، جو ، مٹر ، آلو ، سیب اور خوبانی کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کے کھیت گلیشئرز کے پگھلتے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ امیر خاندانوں کے پاس بھیڑ بکریاں ، کچھ اونٹ ، گھوڑے یا گدھے ہوتے ہیں جن سے وہ ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں ۔م
واخان کے لوگوں کا پسندیدہ
👇
کھیل "بزکشی" کھیل ہے ، کہتے ہیں جدید رگبی کھیل آس کی کاپی ہے ، یہ کئی صدیوں پرانا کھیل ہے جسے گھوڑوں پر سوار ہو کر رگبی کے طرح کھیلا جاتا ہے ۔ اس کھیل میں بکری کے جسم کو گیند بنا کر کھیلتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پولو کا کھیل بزکشی سے نکلا ہے۔ اس کھیل کے قوائد و ضوابط بالکل بھی
👇
نہیں ہوتے کیونکہ کھلاڑی ایک دوسرے کو مکے ، ٹانگیں مار کر بھی اس بکری کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کھیل میں ہڈیاں ٹوٹنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
وخائی دیہات ایک دوسرے کے ساتھ یہ کھیل کھیلنا بہت پسند کرتے ہیں، خاص طور پر نوروز کے موقع پر جو ہر سال 21 مارچ کو
👇
منایا جاتا ہے جب بہار کے موسم کا پہلا دن ہوتا ہے ۔ مگر افغانستان کے دوسرے علاقوں میں بزکشی زیادہ سیاسی ہے ، جہاں اشرافیہ کی طاقت دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، مگر یہاں اس کھیل کا محور مقابلہ اور برادری ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو واخان کو سب سے انوکھا اور منفرد
👇
بناتا ہے۔
افغانستان کی داخلی صورتحال کے باوجود اس علاقے کی امن شانتی پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ یوں کہا جائے کہ افغانستان کے ماحول سے اس کا بالکل جدا گانہ ماحول ہے ۔
کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ اس علاقے سے 13 ویں صدی میں مارکو پولو یہاں سے گزر کر چین گیا اور سکندرِ اعظم بھی یہیں
👇
سے گزرے تھے ، ان قدیم راستوں کے نشانات ، راستے میں ٹھہرنے کے مقامات اور بدھ بت کے نشانات بھی نظر آتے ہیں۔
تین کروڑ بیس لاکھ سے زائد آبادی والے ملک افغانستان میں یہ بیس ہزار نفوس پر مشتمل کمیونٹی سکھ و چین سے زندگی گزارتے ہیں۔
سات سو سال قبل لکھی گئی ابن خلدون کی یہ تحریر گویا مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے:
“مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے،
👇
اس کے تمام حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے
👇
دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی،
👇
لڑکی کا رشتہ آیا۔ دادی نے کہا.. گھر بھی ہے آمدنی بھی ہے اپنے بھی ہیں ہاں کردو
شادی ہو گئی۔۔زندگی نشیب و فراز کے ساتھ گزر گئی۔
چند دہائیاں مزید گزر گئیں۔۔۔پھر لڑکی کا رشتہ آیا۔۔دادی یا نانی نے کہا کہ گھر بھی ہے، تعلیم بھی ہے، آمدن بھی ہے. ہاں کردیتے ہیں۔۔لیکن لڑکی نے کہا کہ 👇
ماں ان کا اور ہمارا ماحول بہت مختلف ہے، ہاں مت کیجیے گا
ماں سمجھ دار خاتون تھی اس کی سمجھ میں بات آگئی رشتےسے معذرت کر لی گئی
کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔۔اب وقت کچھ اور بھی بدل گیا۔۔ہر زمانے کی ترجیحات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں
ایک محنتی شریف لیکن غریب بچے کا رشتہ آیا ماں نے سوچا کہ
👇
جب میری شادی ہوئی تب میرا شوہر بھی زیادہ امیر نہیں تھا مگر محنتی تھا تو میں نے کچھ عرصہ مشکل لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاری۔۔اس رشتے پر غور کرتے ہیں۔۔
لیکن
بیٹی نے کہا "ماں مجھےامیر شوہر چاہئیے میں اپنی آدھی زندگی آپ کی طرح ترس ترس کر نہیں گزار سکتی۔۔چاہے بوڑھا ہو،
👇
انسانی عادتوں کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی ہے اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتا چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔
👇
یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ”ڈسین میکنگ“ (قوت فیصلہ) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتا چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ”ری چارجنگ“ کی ضرورت ہوتی ہے
👇
اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں۔
ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی
👇
مما مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، مجھے گرلڈ ٹماٹر کھانا ہے!!
میں لرز کر رہ گئی کہ گھر میں اب پھاکنے کو دھول بھی نہ بچی تھی. اچھا میرے لال میں کچھ کرتی ہوں.
یوسف، میرا سات سالہ بیٹا، میرا لاڈلا. وہ میری نیم شبی کی مقبول دعا، جیسے میں نے شادی کے آٹھ سال بعد بڑی
👇
منتوں مرادوں سے پایا تھا. میرے بھورے گھنگھریالے بالوں والا یوسف واقعی یوسفِ ثانی ہے. میرا تو دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ اسے ایک پل کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے دوں مگر دل پر پتھر رکھ کر اسکول بھیجنا ہی پڑا. اس کی جدائی کے آٹھ گھنٹے میرے لیے اٹھ صدی ہوتے. میں گیلری میں
👇
کھڑی اس کی راہ تکتی اور جیسے ہی اسکول بس پھاٹک پر رکتی میں لپک کر دروازہ کھولتی اور اپنی پھیلی ہوئی بانہوں میں اپنی زندگی کو سمیٹ لیتی. گرل ٹماٹر، یوسف کے پسندیدہ سبزی اور وہ ہر روز، دن کے کھانے میں لازمی کھایا کرتا.
آہ !! دس دنوں سے چلتی یہ جنگ. اب میرے گھر میں کھانے کو
👇
ایک تحریر بڑی پرانی
مگر ہر دور میں کوئی نہ کوئی کردار اسے زندہ رکھتا ہے
یہ 1998 کی بات ھے، مصر میں مشہور ڈانسر فیفی عبدو کا طوطی بولتا تھا،حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس تک سب فیفی کے ٹھمکوں کی زد میں تھے۔
قاہرہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد فیفی نے شراب
👇
پینے کیلئے بار کا رخ کیا ،شراب زیادہ پینے کی وجہ سے وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی اور بار میں ہنگامہ کھڑا کر دیا، ہوٹل میں وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور پولیس آفیسر فوراً وہاں پہنچ گیا،اس نے بڑے مودبانہ انداز میں فیفی سے کہا کہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اس طرح کی حرکتیں آپ کو زیب نہیں
👇
دیتی۔
یہ آفیسر خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کیلئے مشہور تھا اس ہوٹل میں قیام کرنے والی اہم شخصیات انہیں پسند کرتی تھیں،
وہ ایک فرض شناس آفیسر تھے۔
فیفی کو پولیس آفیسر کی مداخلت پسند نہ آئی اس نے نشے کی حالت میں ھی اعلیٰ ایوانوں کا نمبر گھمایا اور پولیس آفیسر کا کہیں دور تبادلہ
👇