تحریر: ڈاکٹر نسیم جاوید سیّد
زکواۃ کی کٹوتی کی وجہ سے بنک بند تھا۔ وہ برساتی کو ایڈجسٹ کر کے بل جمع کرائے بغیر واپس آگیا۔ بنک قریب ہی تھا۔ اسلام آباد میں بارش کی بوندیں ابھی گر رہی تھی۔ گلی کے کونے پر پہنچ کر وہ ٹھٹک گیا۔ اس بزرگ کو اس نے گزشتہ روز بھی ایک👇🏻
وہ کچھ لینا نہیں چاہ رہا تھالاک ڈاؤن کی وجہ سے دو روز پہلے ہی منڈی سے کافی کچھ لے آیا تھا۔ مزید لینے کا مطلب پیسے اور چیزوں کا ضیاع ہوتا۔
نماز کے بعد تلاوت کرنے بیٹھا تو بار بار ان بھیگتے ہوئے ماں بیٹے کا تصور اسے بےچین کرنے لگا۔ جب وہ ایک آیت تک👇🏻
تو دل سے آواز ابھرنے لگی۔کیا فائدہ اس عبادت کا؟👇🏻
اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔
اس نے مصحف کو ادب سے بند کیا اور اٹھ کر برساتی پہننے لگا۔
"کہاں جا رہے ہیں؟ "
بیوی نے پریشان ہوکر پوچھا۔ وہ آیسولیشن کے معاملے میں بہت سخت تھی۔ بچوں کو بھی نہیں نکلنے دیتی تھی۔ بہت ضروری طور پر نکلنا👇🏻
"کہیں نہیں ۔ گلی کے کونے تک
وہ پرس جیب میں رکھتے ہوئے بولا. پھر پوری بات بتائی۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ "کون آئے گا اس پوش علاقے میں، بارش میں ان سے سبزی یا فروٹ خریدنے۔؟ وہ گداگر نہیں ہیں ۔ محنت کش ہیں ورنہ بارش👇🏻
"ٹھہریں ۔آپ ایک نیک مقصد کے لئے جا رہے ہیں ۔میرا شئیر بھی شامل کرلیں۔"
جبھی کمرے سے بیٹے کی آواز آئی جو یہ سب سُن رہا تھا۔ "پاپا! میری طرف سے بھی ۔اس نے باپ کی طرف کچھ پیسے بڑھا دئے
اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ بس آنسو نکل رہے تھے۔ وہ دعا مانگ رہا تھا👇🏻
وہ باہر نکل آیا۔بارش کے بس اکا دکا قطرے ہی گر رہے تھے ۔
گلی کے کونے پر ماں بیٹا اسی طرح پھلوں اور سبزی کی میز کے آگے بھیگے ہوئے کھڑے تھے۔ کوئی گاہک دور دور تک نہیں تھا۔
پاس جاکر وہ بچے سے ہر چیز کا بھاؤ پوچھنے لگ گیا۔جبھی وہ بزرگ بھی کہیں سے آپہنچا۔👇🏻
"تول دوں صاحب؟ "وہ خوش ہوگیا تھا۔
عورت بھی اپنے میاں کے قریب آگئی تھی اور حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"نہیں ۔ایسے ہی بتا دو حساب کر کے۔ اپنا منافع بھی شامل کر لو۔ مجھے سارا سامان لینا ہے۔ منڈی نہیں جا سکتا۔ کرونا پھیلا ہواہے👇🏻
وہ آدمی تھوڑی دیر حساب لگا تا رہا. پھر بولا۔"سر! ۔۔۔۔۔۔۔ ہزار بنتے ہیں۔"
"کوئی رعایت نہیں کرو گے؟" اس نے ٹٹولا۔
"آپ دوسرے گاہک ہیں صبح سے۔ پہلا گاہک ایک شربوزہ لے کر گیا تھا۔ ایسا کریں۔دوسو کم دے دیں۔ میرا بھی وقت بچ جائے گا۔"
اس نے پرس سے نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھا👇🏻
"ٹھیک ہے۔ جتنے تم نے پہلے کہے ہیں اتنے میں ہی دے دو۔"
"شاپر میں ڈال دوں؟ الگ الگ۔؟"
"نہیں ۔ انھیں ادھر ہی رہنے دو۔اب یہ سامان میرا ہوا۔چاہو تو غریبوں کو دے دینا۔اور چاہو تو بیچ دینا ۔ میری طرف سے اجازت ہے۔"
اس کی بیوی بولی۔"بھائی! کچھ تو لے جائیں۔"👇🏻
وہ تیزی سے مڑا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے تیزی سے بہے جا رہے تھے. یہ بیک وقت ندامت، خوف اور شکرانے کے آنسو تھے۔ گھر پہنچتے پہنچتے وہ منہ پر ہاتھ رکھے دھاڑیں مار کر رونے لگا۔👇🏻
وہ منہ پر ہاتھ رکھیں چیخوں کا گلا گھونٹنا رہا ۔👇🏻
"یہ انھیں دے آئیں۔ہمیں تو ویسے بھی ابھی ضرورت نہیں ہے۔ کرونا ختم ہوگا تو اور لے آئیںگے۔"
وہ واپس گیا اور برساتیاں بھی انھیں دے دیں۔👇🏻
قارئین!
یہ تحریر لکھتے ہوئے اس وقت بھی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں ۔یہ سب زیادہ دور کا نہیں، گزشتہ روز یعنی تیسرے روزے کا ذکر ہے۔👇🏻
آپ سب کا ۔۔۔
نسیم جاوید سیّد