My Authors
Read all threads
چلیں یہ تو ہوا ایک پہلو اس بات کا کہ کوئی چپ انسرٹ کر دی جائے گی جسکا صرف مولانا نہی بعض دوسرے اینکر پرسن بھی پرچار کر رہے ہیں YouTubeپر۔

مگر اس سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہماری وہ #عظمتِ_رفتہ کہاں کھو گئی جو ہم کو آج ٹیکنالوجی کے لئیے یہود و نصارٰی کیطرف دیکھنا پڑا رہا ہے
خطاب بہ جوانان اسلام

یہ نظم اقبال نے خصوصاً مسلم نوجوانوں کے لیے کہی ہے اور انکو بتایا ہے کہ کبھی انہوں نے سوچا کہ انکا ماضی کتنا شاندار تھا

کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوُں ہے جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟

تدبّر=غور وفکر
گردوُں=آسمان
تارا=ستارا
👇
تو کہتے ہیں نوجوانوں سے کہ کبھی تم نے غور و فکر کیا کبھی تم نے سوچا کہ وہ کونسا شاندار ماضی تھا وہ کونسا شاندار آسمان تھا جس سے ٹوٹ کر تم ایک تارے کی مانند ہو گئے ہو

تمہارا تعلق کتنی عظیم قوم سے تھا اگر تم کو یاد نہیں تو میں بتا دیتا ہوں کہ تمہارا شاندارماضی کیسا تھا
👇
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

تیرا تعلق اس قوم سے ہے، تجھے اس قوم نے پالا ہے جس نے ایران کے مشہور ساسانی خاندان کے بادشاہ دارا کے تخت و تاج کو پاؤں تلے روند ڈالا تھا یعنی اپنے وقت کی سپر پاور کو شکست فاش دی تھی
👇
تمدن آفریں، خلاق آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا

تمدن آفریں=تہذیب پیدا کرنے والا

خلاق آئین جہاں داری=حکومت کے اصول وضع و ایجاد کرنے والا

شتربان= اونٹ چرانے والے

گہوارا= پالنا جس میں بچے کو لٹاتے ہیں شیرخوارگی کے دنوں میں
👇
یہ وہ قوم تھی جو صحرائے عرب میں اونٹ چرانے والوں کے گہواروں میں پلی تھی
اس کے باوجود اس قوم نے پوری دنیا نہ صرف تہذیب و تمدن اور رہنے سہنے کا ڈھنگ سکھایا بلکہ حکمرانی کے دستور اور قائدے بھی بتائے
👇
سماں الفقر فخری کا رہا شان امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا

الفقر و فخری=رسول اللّٰہ سے منصوب ایک حدیث کا مفہوم کے فقر میرا فخر ہے

چہ حاجت روئے زیبارا=خوبصورت چہرے کو کیا ضرورت زیبائش کی

شانِ امارت=حکومت و امارت کی شان

یعنی اتنی کرو فر اور شان و شوکت کے 👇
باوجود اس قوم کے لوگوں نے دولت مندی اور حکمرانی کے دور میں بھی فقر اور درویشی کو اپنایا اور اپنا طرّہ امتیاز بنا رکھا تھا

اس لئے ان کے نزدیک دلکش اور خوبصورت چہرے کی زیبائش کے لیے ظاہری اسباب کی ضرورت نہیں تھی

وہ اللہ کے خاص بندے درویشی اور فقیری میں بھی اس درجے غیور 👇
اور غیرت مند تھے کہ امراء کو بھی اس امر کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ انکو کچھ خیرات کے نام پر کسی قسم کا عطیہ کر سکے کیوں کے انکے دل دنیا کی محبت سے خالی تھے

اقبال کہتے ہیں میں ان محافظوں کو ان حکمرانوں کا کیا نقشہ پیش کروں میرے الفاظ میرے ساتھ نہیں دیں گے کہ جن کے سامنے دنیا 👇
کی کوئی قدر نہ تھی۔ میں یہ چاہتا ہوں کے اپنے الفاظ اور شاعری کے ذریعے ان لوگوں کا نقشہ پیش کردوں لیکن یہ میرے لیے بہت مشکل ہے

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

منعم= دولت والا خوشحال
گدائی= فقیری
بخشش= کچھ عطا کرنا

👇
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہانگیر و جہاں دارا و جہانبان و جہاں آرا

یعنی وہ کیا لوگ تھے جنہوں نے پوری دنیا کو سجا دیا

جہاں آرا=دنیا کو سجانے والا
جہانبان= دنیا کی حفاظت کرنے والے
جہانگیر و جہاں دارا= یعنی دنیا کے حکمران

👇
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ

یعنی اگر میں چاہوں تو ان کی طرز حکمرانی کا نقشہ اور سراپا کھینچ کے رکھ دوں شاعری میں مگر مسئلہ کچھ اور ہے

اور وہ یہ کہ تو اس عہد کا تصور کرنے سے قاصر ہے کیونکہ تم نے اپنی تاریخ ہی نہیں پڑھی
👇
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ توُ گفُتار، وہ کرِدار، توُ ثابِت، وہ سیّارَہ

آبا= اجداد، بزرگ،اسلاف
نسبت=تعلق
گفتار=باتیں بنانے والا
کردار= عمل کرنے والا
ثابت= رکا ہوا، ٹہرا ہوا isolated
سیارہ=گردش میں، حرکت میں

اگر تیرا تقابل تیرے اسلاف سے کیا جائے تو یہ نتیجہ 👇
اخذ ہوگا کہ تجھ میں اور تیرے آباواجداد میں کوئی قدر مشترک نہیں

وہ اس لیے کہ تو صرف باتیں بناتا ہے اور بے عمل ہے جبکہ وہ صاحب کردار اور با عمل لوگ تھے فعال اور متحرک تھے

تو جامد و ساکت اور صرف دوسروں کی نقالی کرتا ہے جبکہ تیرے اجداد عملاً فکر اور اجتہاد کے قائل تھے
👇
اور ہمیشہ اپنی بات پر ڈٹے رہتے تھے

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُرّیا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

میراث=وراثت
ثریا=چھ چھوٹے ستاروں کا جھرمٹ جو آسمان میں بہت بلند نظر آتا ہے

دیکھا جائے تو ہم نے اس ورثے کو گنوا دیا جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لیے چھوڑا تھا

👇
اور یہی سبب ہے کہ ہم انتہائی عروج پانے کے بعد اب پستی کے آخری مرحلے میں ہیں
تو یہ ہے ہمارے گردشِ ایام کی کہانی

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلّم سے کوئی چارہ

آئین مسلم= تسلیم شدہ دستور

یعنی حکومت اور سلطنت کے چلے جانے کا کوئی غم نہیں کہ وہ
👇
ایک آنے جانے والی چیز ہے ہے اور کبھی بھی کسی کے پاس مستقل نہیں رہی یہی دنیا کا دستور ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں

لیکن اصل غم تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے علم کو بھی محفوظ نہ رکھا ان کی کتابیں ضائع کردیں جس کی وجہ سے علم کی روایت ہم سے چھن گئی

اور وہ کتابیں اب اہل یورپ 👇
کے پاس انکی کتب خانوں میں محفوظ ہیں اور وہ ان بیش قیمت نادر علم اور بیش بہا خزانے سے خوب فائدہ اٹھا کے اقتصادی ترقی حاصل کرچکے

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں اِنکو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

سیپارا=ٹکڑے ٹکڑے ہونا

جب کوئی صاحب علم ان کتابوں کو 👇
یورپ کے کتب خانوں میں دیکھتا ہے تو سوچیں ذرا اس کے دل کی کیا حالت ہوتی ہوگی

کہ یہ ہمارا ورثہ ہمارے بزرگوں کی محنت تھی جو ہم نے تو گنوا دی

اب چاہے وہ چنگیز خان نے کیا ہو یا کسی اور نے مگر سچ ہیکہ ہم نے حفاظت نہیں کی اور اس کی بدولت آج اہل یورپ ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں 👇
اور ہم علم حاصل نہ کرنے کی بدولت ٹیکنالوجی سے دور ذلیل و رسواء

اور آج یہود و نصاریٰ کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ویکسین بنائیں ہم کو دیں

اب وہ اچھی بنایں بری بنایں

صحیح بنایں خراب بنایں

ہمارے پاس تو کوئی علم ہے نہیں ہیں
تو ہم نے بھروسہ ہی کرنا ہے

اور خود کو پیش 👇
کرنا ہے کہ آو بھائی ہمارے اوپر تجربہ کر لو

آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں

غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را

پیر کنعاں= حضرت یعقوب

یعنی بدنصیبی ملاحظہ ہو کہ حضرت یوسف جو کہ حضرت یعقوب کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے نور تھے انکی آنکھوں کا
👇
وہ زلیخا کو مل گئے اور حضرت یعقوب ان سے محروم ہوگئے اور ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ان کی یاد میں رو رو کے

گویا یہ علم یہ کتابیں یہ سمندر علم کا مسلمانوں کا تھا اور مسلمانوں کو اس سے فیضیاب ہونا تھا لیکن اس سے فائدہ اہل یورپ اٹھا گئے

👇
تو یہ ہم مسلمانوں کے لئے کتنی بڑی بدنصیبی ہے ہے

اسی چیز کو اسی جذبے کو اقبال جگانا چاہ رہے ہیں

اور وہ بتا رہے ہیں نوجوانوں کو کہ تم پڑھو تو تمہیں پتا تو ہو کہ تمہارے جدامجد تمہارے اسلاف تمہارے آباؤاجداد تھے کیا

تم کس طرح دنیا پر حکومت کرتے تھے100 سال پرانی بات تو ہے

👇
اتنی جلدی کیسے بھول گئے 1924 میں تو آخری خلافت ختم ہوئی ہے

ذرا یاد تو کرو کہ 1400 سال کی حکومت کیسے تمھارے ہاتھوں سے چلی گئی

تم تو دنیا بھر میں حکومت کرتے تھے تین براعظموں پر آخری وقت تک تمہاری حکومت تھی

ذرا غور تو کرو سوچو تو سہی

خدا حافظ
خطاب بہ جوانان اسلام

اوپر اس کی تشریح بیان کیے پڑھیاں کا ضرور دلچسپ لگے تو لایک کیجئے گا تاکہ اور لوگوں تک بھی پہنچ سکے۔
خطاب بہ جوانان اسلام

پڑہیے گا ضرور دلچسپ لگے تو لائک کیجئے گا تاکہ اور لوگوں تک پہنچ سکے
Dear @threadreaderapp pls compile
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with Kashif🇵🇰🇵🇰🇵🇰⚖️⚖️🌍

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!