My Authors
Read all threads
70کی دہائی کے وسط میں شہر کراچی کے علاقے موسیٰ لین،لیاری میں’بسم اللہ بلڈنگ’ زمیں بوس ہوئی تھی اسے شہر کراچی کی پہلی منہدم ہونے والی عمارت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اسکے بعد سے اب تک کتنی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں؟ اور نتیجتا کتنا جان و مال کا نقصان ہوا؟
urdu.nayadaur.tv/40017/
یہ وہی شہر کراچی ہے جسے‘ عروس البلاد’ کہا جاتا تھا مگر افسوس آج مملکت خداداد کاسب سے بڑا شہر’ کراچی’ کسمپرسی کا شکار نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجوہات شہری منصوبہ بندی کی کمی ، اداروں کی عدم دلچسپی ، حدود کی بے ضابطگی اور ترقیاتی ا ور انتظامی وسائل کی کمی ہے۔
کہیں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں تو دوسری طرف بےہنگم ٹریفک ہے گلی کوچوں حتیٰ کے نالوں تک میں گندگی کے ڈھیرہیں۔
اسی شہر کراچی کے مکیں ایک جانب بجلی کی کمی سے پریشان ہیں تو دوسری جانب پانی کا قحط ان کے لئے عذاب جاں سے کم نہیں-
بقول ایک دوست کے ‘ کراچی والوں کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے کہ دن بھر محنت مزدوری کرکے آؤ پھر خالی کنستر اٹھا کر پانی کی تلاش میں نکل جاؤ’
اس کے ساتھ ساتھ شہر کراچی کے مکینوں کا بنیادی مسئلہ رہائش کی قلت ہے جبکہ طلب میں اضافہ واضح ہے۔ متوسط طبقہ ہو یا کم آمدنی والے طبقہ سب کو رہائش کے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ حکومتی ادارے رہائش کی فراہمی میں ناکام نظر آتے ہیں۔
رہائش کے ساتھ ساتھ زمین کے استعمال سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں جو شہری حکمرانی و منصوبہ بندی کے لئے بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں جب حکومتی ادارےشہریوں کو چھت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے تو ‘ مکانات بنانے والے ٹھیکاداروں اور سرمایہ کاروں’ کو سازگار ماحول میسر آیا اور سستی رہائش کے نام پر ایک نئی طرز کا کاروبار چل نکلا
جس کے نتیجے میں پچھلی تین دہا ئیوں میں شہر کراچی میں حکومتی اداروں کے عملے کی ملی بھگت سے ہزاروں کی تعداد میں ناقص تعمیرات سامنے آئیں اور آج اس کے ثمرات آئے دن زمیں بوس ہونے والی کثیرا لمنزلہ رہائشی عمارتوں کی صورت سامنے آرہے ہیں.
جو اس شہر کو ‘مخدوش شہر‘ظاہر کرتے ہوئے اس حقیقت کو اُجاگر کررہی ہیں کہ عمارات کی تعمیر کے لیے یہاں عملاً نہ کوئی منصوبہ بندی نظر آتی ہے نہ ہی معیار اور ضابطے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس شہر کراچی کو ان نام نہاد ٹھیکے داروں ( بلڈر اور ڈیویلپرز) اور سرمایہ کاروں کے حوالے کردیا گیا
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 70 کی دہائی کے وسط میں شہر کراچی کے علاقے موسیٰ لین،لیاری میں’بسم اللہ بلڈنگ’کے زمیں بوس ہونے کے سانحے کے بعد سے آج تک ان گنت عمارتیں زمیں بوس ہوئیں مگر افسوس کہ حکومتی اداروں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب نہ دی
جولائی 2009 میں کراچی کے علاقے لی مارکیٹ میں 5منزلہ رہائشی عمارت مہندم ہوئی جس کے نیتجے میں کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے- مذکورہ عمارت پندرہ سال قبل تعمیر ہوئی تھی اور اس میں 25کے قریب خاندان آباد تھے تاہم ایک سال قبل 2008 میں اس پر کچھ نئی تعمیرات کی گئی تھیں۔ –
اسی طرح 6 اگست 2011 کو کراچی کے گنجان آباد علاقے موسیٰ لین, لیاری میں پانچ منزلہ پرانی عمارت منہدم ہوئی جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے۔ جولائی 2017 میں شہر کراچی کے علاقےلیاقت آباد نمبر 9 میں پیلا اسکول کے قریب تین منزلہ عمارت زمین بوس ہوئی جس میں 9 خاندان قیام پذیر تھے۔
پھرفروری 2019 میں ملیر کے علاقے جعفر طیار سوسائٹی میں 3 منزلہ عمارت گر گئی جس میں 4 خاندان رہائش پذیر تھے۔اضی قریب کی اگر بات کی جائے تو دسمبر 2019 میں رنچھوڑ لین سومرا گلی میں پندرہ سال قبل تعمیر ہونے والی 6 منزلہ عمارت زمیں بوس ہوئی تھی۔
مارچ 2020 میں کراچی کے علاقے گلبہار میں گرنے والی عمارت 30 انسانی جانوں کو نگل گئی تھی جبکہ مجموعی طور پر 3 عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا کیونکہ ایک رہائشی عمارت دیگر 2 ملحقہ عمارتوں پر گر گئی تھی۔
دو ماہ قبل ، اپریل 2020کے اوائل میں ،کراچی کے علاقے گولیمار کی پھول والی گلی میں 72 مربع گز پر 5 منزلہ رہائشی عمارت اپنی جگہ سے کھسک کر ٹیڑھی ہوگئی تھی مذکورہ عمارت ایک سال قبل تعمیر کی گئی تھی اور اس میں 10 خاندان آباد تھے-
جبکہ ایک ماہ قبل، مئی 2020 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد انگارہ گوٹھ میں6 منزلہ رہائشی عمارت ٹیڑھی ہو گئی تھی ۔اس عمارت میں تیسری منزل تک رہائش تھی جبکہ عمارت ٹیڑھی ہونے کے باعث اطراف کی عمارتوں میں بھی دراڑیں پڑ گئی تھیں-
عمارت زمیں بوس ہونے کا تازو ترین سانحہ رواں ہفتے پیش آیا جب 7 جون 2020 کو کراچی کے گنجان آبادی والے علاقے لیاری، کھڈا مارکیٹ میں پانچ منزلہ رہائشی عمارت گر گئی۔ حد تو یہ ہے کہ اس عمارت کا ملبہ ساتھ والی عمارت کو بھی زمین بوس کر گیا۔ عمارت میں 40 کے قریب خاندان آباد تھے
لیاری کراچی کے ان گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گلیاں قدرے تنگ ہیں اور عام حالات میں ایک گاڑی ان گلیوں میں داخل نہیں ہو سکتی تو ایسے ماحول میں امدادی کارروائی قدرے مشکل عمل ہوجاتی ہے-
ایسی گنجان آبادی میں حادثے کی صورت میں اس جگہ تک رسائی مشکل ہوتی ہے اور اور تنگ راستے ہونے کی وجہ سے ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے اور امدادی کاروائیوں میں مشکلات پیش آ تی ہیں۔
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with Muhammad Toheed, Urban Planner

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!