اپنے محل میں فروکش ھوا۔مصاحبین سے گویا ھوا ،پوچھنے گا تمہارے خیال میں ھے ایسا کوئ بندہ کہ جو میری اس کارگزاری پہ تنقید اور اعتراض کرنے کی جرات رکھے؟؟
کہنے لگا لیکر اَو انہیں
درباری جب امام کو لینے پہنچے تو امام کھڑے ھوے،ٖغسل فرمایا نیچے کفن پہنا اسکے اوپر سادہ کپڑے!اور گھر سے نکل کر محل کیجانب چلے۔
پہر حکم دیا کہ انہیں بلاو!
اَپ رحمہ اللہ اس شان سے داخل ھوے کہ
خود اپنی کیفیت اسوقت کی امام یوں بیان فرماتے ہیں کہ: بخدا میں نے یوں تصور باندھ لیا کہ جیسے رب ذوالجلال کا عرش دن قیامت کے سامنے کھلا لگا ھوا ھے اور پکارنے والا پکار رھا ھے کہ ایک گروہ جنت
بس یہ تصور کرنا تھا کہ حاکم مجھے مکھی جیسا بے وقعت حقیر معلوم ھونے لگا اور اللہ کی قسم میں اسکے محل میں داخل ھونے سے قبل ہی اپنی جان کا سودا حق تعالی شانہ کیساتھ کرچکا تھا۔
اندر بادشاہ نے پوچھا:تم ھو اوزاعی؟؟
شدید غصہ ھوکر کہنے لگا[نیت پہنسانے کی تھی]
کیا راے ھے تمہاری کہ یہ جو کچھ ھمنے ان ظالم بنو امیہ کے ھاتھوں سے عوام اور علاقوں کو نجات دلائ ھے!! یہ جھاد اور رباط تھا؟؟
ایسا سیدھا صاف جواب سنکر حاکم ہکا بکا رہ گیا۔
ھاتھ میں جو چھڑی تھام رکھی تھے اسے
پہر پوچھتا ھے کہ یہ جو ھمنے بنو امیہ کے خون بہاے ہیں اسکے بارے اَپکی کیا راے ھے؟
امام کا جواب کیا تھا ؟
فرمایا :مجھسے فلاں نے اور فلان نے فلان سے[حدیث کی سند زکر کی] بیان کیا کہ
حکمران کا پارہ غصہ سے اَسمان کو جاپہنچا۔امام اوزاعی نے بھی اپنا عمامہ اتارا کہ جلاد کی تلوار کا رستہ ناروکے!
سب وزیر پیچھے ھونے لگے اور کپڑے سمیٹنے لگے کہ جب گردن ماری جاے تو خون کے چھینٹے ھم پہ ناپڑیں
غصہ سے کپکپاتے ھوے حاکم نےایک اور
یہ جو مال ہمنے لوٹ لیا ھے اور جو گھر ھم نے ھتہیا لیے ہیں انکے بارے میں کیا کہتے ھو؟؟
فرمایا: یہ مال اگر ان لوگوں کیلیے حرام تھے تو تم پہ بھی حرام ہی ہیں
اور اگر انکے لیے حلال تھے تو سواے شرعی طریقہ کے تمہارے لیے حلال نہیں
ھوسکتے۔
پہر اگر یہ مال جایداد حلال تھے تو بھی انکا حساب دینا ھوگا اور اگر حرام تھے تو پہر تو صرف عذاب ہی مقدر!!
حاکم غصہ سے بپھرا جارھا تھا اور امام
حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم"
مجھکو میرا رب کافی! نہیں کوئ معبود اسکے سوااسپہ ہی میں نے بھروسہ کیا اور وہ رب ھے عرشِ عظیم کا
حکمران بولا !! جاو چلے جاو یھاں سے!!
ایک وزیر نے اشاروں سے سمجھایا کہ خدا کیواسطے ابھی منع ناکریں، لے لیں۔
امام نے تھیلی لے تو لی، مگر حکمران کے سامنے ہی اسے وزیروں اور درباریوں کی
۔خالی تھیلی کو پھیکا اور سر اٹھاکر نکلے فرمارھے تھے کہ اللہ نے عزت اور بھی بڑھاہی دی۔
امام صاحب کا انتقال ھوتا ھے تو حاکم اَپکی قبر پہ جاکر کہڑا ھوتا ھے ۔کہتا ھے
بخدا میں زمین والوں میں سے بس اَپسے