ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار نے آ
اب سخت سردی اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی میں نے اندر آنے کی اجازت دی
جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب
میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا
حضور ﷺ یہ سن کر بھی چلتے رہے بلالؓ کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی
لیکن بلالؓ کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہےوہ رحمت اللعالمین ہیں
میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟
نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس
بلالؓ سو گئے اور حضور ﷺ نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔
صبح بلالؓ کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلالؓ کو دی اور ساری رات چکی پیسی ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ
یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلالؓ کو صحابی ءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے
تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر
لبیک! یا سیدی یا رسول ﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے جب
یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل
مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) ﷲ اکبر ﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب اشھد ان لا الہ الا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں