سنیوں نے بات بادشاہ تک پہنچا دی،
بادشاہ نے اپنے دربار میں ہی ایک مناظرہ کا حکم دیا،
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
شیعوں نے یہ شرط رکھی کہ مناظرہ میں ملاں دوپیازہ (جو بادشاہ کا وزیر تھا) نہیں بولے گا،
جسے
مناظرہ والے دن ملاں دوپیازہ سب سے پہلے دربار میں آیا اور اپنے جوتے بادشاہ کے تخت پر رکھ دیے۔
جب تمام شیعہ اور سنی حاضر ہوچکے تو بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے...
لیکن اپنی مسند پر جوتے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کس نے رکھے ہیں؟
سب نے ملا دوپیازہ کی طرف
ملا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یاد دلایا کہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
بادشاہ نے سٹپٹا کر کہا، تم بس یہ بتا دو کہ جوتے یہاں کیوں رکھے ہیں؟
ملاں دوپیازہ نے کہا:
"اصل میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سنی نماز پڑھنے
"نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں شیعہ تھے ہی نہیں،
بادشاہ سلامت ملاں دوپیازہ جھوٹ بول رہا ہے۔"
ایک شیعہ ذاکر نے چلاتے ہوئے کہا۔
ملاں دوپیازہ نے کہا،
"مجھے بھول ہوگئی، یہ واقعہ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ
شیعہ ذاکر نے دوبارہ کہا کہ اس وقت شیعہ نہیں تھے۔
ملا دوپیازہ نے پھر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور کا حوالہ دیا،
لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا۔
یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور حضرت علی کرم الله وجہ کے دور کا حوالہ دیا، لیکن شیعہ نے اسے بھی رد
اب ملا دوپیازہ نے کہا،
"جب تم نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم، اور خلفاء راشدین کے دور میں نہیں تھے
تو پھر آئے کہاں سے ہو؟"