اگر زندگی میں موقع ملتا تو اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کرتا۔ اور مقالہ لکھتا "غالب کا اردو اور فارسی کلام ایک موازنہ"
غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے۔
اسی لیے کہا تھا کہ "بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است"۔
انکا خیال تھا اُردو زبان انکے خیالات کا احاطہ ہی نہیں کر سکتی۔ مارے باندھے ریختہ میں لکھنا شروع کیا جس میں فارسی کی زیادہ آمیزش تھی۔
غالب کی زندگی میں انکےاردو میں پانچ دیوان چھپے باقی زندگی کے بعد چھپے۔
سب سے مستند نسخہ عرشی کہلاتا ہے جس میں لگ بھگ 1876 کے قریب اشعار ہیں۔ جب کہ فارسی کلام کی تعداد دس ہزار اشعار سے زیادہ ہے۔
غور طلب بات یہ ہے جس کو پسند نہیں کیا وہ وجہ شہرت بنی مگر جس میں خود کو وہ استادوں کے استاد کہتے تھے اس کو جانتا بھی کوئی نہیں۔
اگر اُردو کاحال یہ رہا تو فارسی میں کیا قیامت ہوگی۔ اگر وہ خیال جو اردو میں باندھے انکے مقابل فارسی کا کلام نکالا جائے اور موازنہ کیا جائے تو کیا بات ہوگی۔ اگر کسی صاحبِ علم کی نظر سے یہ کیا گیا کام گزرا ہو تو عنائیت فرمائیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
غالب
مولانا حالی نے اس شعر کا ذکر "یادگارِ غالب" اور "مقدمہ شعر و شاعری" دونوں میں کیا ہے۔ اردو ادب میں" مقدمہ شعرو شاعری" کا مقام یہ ہے کہ ماسٹرز کی کلاس میں باقاعدہ ایک مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱
مولانا حالی فرماتے ہیں کہ اردو ادب میں اتنے بلیغ شعر شاید دو چار ہی مل سکیں گے۔ مولانا آزاد جو غالب کی طلب کو ایک نام رکھتے تھے وہ بھی اس شعر کے انداز پر پروانہ تھے۔ مولانا طباطبائی کو بھی مجبوراً اعتراف کرنا پڑا کہ جو بندش اس شعر نے پائی ہے اس کا جواب ڈھونڈنے سے نہ مل سکے۔
۲
شعر میں جو داستان پوشیدہ ہے وہ یوں ہے:
مرزا محبوب کے دروازے پر اس کا دیدار کرنے کو پہنچے ۔ وضح قطع سے بالکل فقیر اور درویش لگتے تھے۔ پاسبان نے دیکھ کہ سمجھا کہ فقیر آیا ہے اور فقیر آتے ہی رہتے ہیں سو کچھ دیر بیٹھے گا چلے جائے گا سو وہ چپ رہا اور خاص توجہ نہ کی۔
۳
خان نے آج تک جتنے نعرے لگائے وہ سب کے سب سحری کے ڈھول والے جیسے تھے جس نے خود شاید ہی روزہ رکھا ہو بس دیہاڑی کے چکر میں ڈھول پیٹ رہا ہوتا ہے۔ انہیں کھوکھلے نعروں میں ایک نعرہ وراثتی سیاست کا بھی تھا۔ اب چونکہ ہمارے ہاں سوچنے کا رواج کم کیا سرے سے ہی نہیں اور جو خان نے کہہ دیا
۱
وہی حدیث مان لی گئی۔
انشااللہ اگلا الیکشن غالباً آخری الیکشن ہوگا جس میں دونوں نسلیں حصہ لیں گے۔ اور یہ چورن ایک بار پھر چٹایا جائے گا اور سب رج کے چاٹیں گے۔ تو سوچا اس پر بات کی جائے
خان صاحب چونکہ امت مسلمہ کے لیڈر ہیں اور ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں اسلام
۲
اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
اسلامی فقہ کی بنیاد اللہ کی سنت، اللہ کی کتاب، نبی اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث اور آخر میں صحابہ کا طرزِ عمل ہے۔
یاد رکھئے نبی وقت صرف مذہبی تبلیغ کے لئے نہیں آتا تھا وہ حاکم وقت بھی ہوتا تھا سیاستدان بھی سپہ سالار بھی وہی دین کا داعی بھی قاضی بھی وہی
۳
پاکیزہ۔۔ وقت کی ایک کترن۔۔ منجو اور چندن کے عشق کا تاج محل
قدرت وقت کی قطع و برید کرکے دنیا کے حالات و حوادث تراشتی ہے۔ وقت کی کتر بیونت کے بعد بچی ہو کترنیں ہمارے ذہنوں میں کسی منت کے دھاگوں کی طرح بندھی رہتی ہیں۔
Images: IMDB, Hindustan Times, Google
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے انہیں کترنوں سے ایک شاہکار بھی تخلیق ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی بدقسمتیاں تراشنے کے بعد انکے بچی کترنوں سے ایک شاہکار فلم پاکیزہ بنی تھی
ہر فلم کی دو کہانیاں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جس کو فلمایا جا رہا ہوتا ہے اور دوسری وہ جو فلم کے بنانے میں تشکیل پاتی ہے۔
آج ہم اس کہانی کی بات کریں گے جو فلم بنانے میں تشکیل پائی اور اتنی دل سوز ہے کہ اس پر بھی ایک فلم بنائی جانی چاہئے۔
انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ "پاکیزہ "کے بغیر لکھی ہی نہیں جا سکتی۔حیرت کی بات یہ ہے اس فلم کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا تھا بلکہ پران صاحب کو اسی سال
نصرت فتح علی خان : "سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار " سے "سنگنگ بدھا" سے تک کا سفر
_________________________________________
استاد نصرت فتح علی خان کی وفات ۱۶ اگست کے حوالے سے ایک کوشش:
Image and interview reference credits: BBC & Express Tribune
قدرت کے اس نظام ِ تخلیق میں ہر شے زماں و مکاں کی ایک قید میں ہے۔ لیکن یہ بھی اُس رب کی قدرت کا ایجاز ہی کہے کہ کچھ کو اس زماں و مکاں کی قید سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
نصرت کی گائیکی انہیں میں سے ایک ہے۔ نصرت فتح علی خان کی آواز کا جادو ہر دور میں وجد طاری کرے گا۔ +
چاہے آپ الفاظ و زبان سے شناسائی نہ بھی رکھتے ہوں اور موسیقی کے رموز کی ابجد بھی نہ جانتے ہوں۔
موسیقی کی دنیا میں یہ معجزہ نصرت نے اپنی زندگی میں کر کے دیکھایا ہے۔ ایشیا، یورپ، جاپان اور امریکہ ہر جگہ انھیں موسیقی کا بے تاج بادشاہ اور شہناہ قوال کا کہا جاتا ہے۔+
طبقاتی مسابقت میں یقیناً کچھ پیچھے رہ جایئں گے کچھ آگے نکل جایئں گے لیکن اگر پیچھے رہ جانے والوں کو انسان ہی نہ سمجھا جائے تو معاشرہ کسی قبرستان کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اسی موضوع پر ایک ماخوذ کوشش آپ کے مطالعے کی طلبگار۔
کچی پکی قبریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
انسان کو اپنی جنم بھومی سے پیار ہوتا ہے وہ جگہ جائے اماں لگتی ہے پھر چاہے وہ قبرستان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔
اس لئے قبرستان میں اکیلے اپنی آبائی جھونپڑی میں رہتے اسےکبھی ڈر نہیں لگا۔ اس کا بچپن یہی گزرا۔ کھیلنے کودنے کو اکثر وہ چھوٹی چھوٹی قبریں بنا کر گڈے گڑیا
۲
کو کفنایا دفنایا کرتا ڈر تب نہیں لگا تو اب کیا لگتا۔
اس کے لئے قبرستان کھنی چھاوں اور ٹھنڈے پانی کے کنواں سے آراستہ کسی جنت کے ٹکڑے سے کم نہ تھا۔ ہر طرف شیشم اور کیکر کے درخت تھے جن کی چھال حقے کی چلم تازہ کر دیتی۔ قبروں کے درمیان جا بجا بوٹی اگتی تھی جس کو پی کر اسے