اگر زندگی میں موقع ملتا تو اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کرتا۔ اور مقالہ لکھتا "غالب کا اردو اور فارسی کلام ایک موازنہ"
غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے۔
اسی لیے کہا تھا کہ "بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است"۔
انکا خیال تھا اُردو زبان انکے خیالات کا احاطہ ہی نہیں کر سکتی۔ مارے باندھے ریختہ میں لکھنا شروع کیا جس میں فارسی کی زیادہ آمیزش تھی۔
غالب کی زندگی میں انکےاردو میں پانچ دیوان چھپے باقی زندگی کے بعد چھپے۔
سب سے مستند نسخہ عرشی کہلاتا ہے جس میں لگ بھگ 1876 کے قریب اشعار ہیں۔ جب کہ فارسی کلام کی تعداد دس ہزار اشعار سے زیادہ ہے۔
غور طلب بات یہ ہے جس کو پسند نہیں کیا وہ وجہ شہرت بنی مگر جس میں خود کو وہ استادوں کے استاد کہتے تھے اس کو جانتا بھی کوئی نہیں۔
اگر اُردو کاحال یہ رہا تو فارسی میں کیا قیامت ہوگی۔ اگر وہ خیال جو اردو میں باندھے انکے مقابل فارسی کا کلام نکالا جائے اور موازنہ کیا جائے تو کیا بات ہوگی۔ اگر کسی صاحبِ علم کی نظر سے یہ کیا گیا کام گزرا ہو تو عنائیت فرمائیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کڑاہی کی ترکیب محترم @restizwell کی فرمائش پر شئیر کی جا رہی ہے ۔
سادہ ترین ترکیب شنواری کڑاہی ہے
شروع میں یہ ایک لیکچر نما چیز لگے گی ۔ کڑاہی ہر گھر میں بنتی ہے ۔ مقصد بازار والا ذائقہ اور خوش شکل درکار ہے جو اجزا سے زیادہ کچھ مخصوص طریقے سے پکانے اور اس کی تیاری سے متعلق ہے ۔ ایک بار بات سمجھ آ گئی تو ساری زندگی یاد رہے گی۔
اس لیے تفصیل برداشت کر کے پڑھ لیں۔
۱
1- لوہے کی کڑاہی :
سب سے پہلے لوہے کی کڑاہی خریدیں درمیانے سائز کی تین کلو گوشت کے لیے وزنی خالص لوہے کی کڑاہی ۔
ہزار دو ہزار کی کڑاہی دو تین نسلیں کام دے جائے گی۔ اس کے بغیر وہ ذائقہ نہیں ملے گا۔
لوہے کی کڑاہی میں آنچ تیز رہتی ہے اور یہی تیز حدت درکار ہوتی ہے۔
۲
2- گوشت
ایک کلو گوشت
: مٹن ہو تو چانپ اور گول بوٹی۔ بوٹی کا سائز ایک نوالہ جتنا اس سے بڑی بلکل نہیں ۔ چھوٹی چھوٹی بوٹی ۔ چانپ سے بھی گوشت اتار لیں ۔ ہڈیاں ساتھ شامل کر لیں۔
بیف ہو تو بچھڑے کا گوشت گلابی چکور کٹی ہوئی نوالہ برابر بوٹی
مرغی ہو تو درمیانی سائز کی بوٹی کروا لیں
اچھا نفیس گوشت خریدیں ۔ گوشت اچھی نسل کے چھوٹے جانور کا بہترین پکتا ہے۔ مرغی بھی ہو تو ایک کلو گوشت سے بڑی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
میں بڑا پیس خرید کر گھر میں بوٹی بناتا ہوں قصائی کی چھوٹی بوٹی بناتے جان جاتی ہے ۔
تصویر سے سائز دیکھ لیں بوٹی بڑی ہوئی تو گلے گی نہیں ۔
۳
لاہور نامہ
ہیرا منڈی
بقول عبدل مجید شیخ : "پھُلوں والی گلی چوک چکلہ سے شاہی محلہ سے ہیرا سنگھ دی منڈی سے ہیرا منڈی اور پھر بازار حُسن تک کی داستان"
۹۰ کی دہائی میں ہماری طرح کسی بھی لاہوری جوان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ کچھ ہوجائے گھر کے بڑوں کے آگے ایک جگہ کا نام زبان پر نہ آنے پائے وہ نام "ہیرا منڈی " کا تھا۔ اگرچہ خواہش سبھی کے دل میں ہوا کرتی تھی کہ وہاں کا چکر ضرور لگایا جائے۔
مجھے اس علاقہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع نوے کی دہائی میں ملا۔ اندرون کی آوارہ گردی میں یہ بھی ایک مقام ہو ا کرتا تھا۔ ابھی راتیں روشن ہوتی تھیں۔ رات کو بیٹھکوں کے دروازے کھڑکیاں کھلتیں۔ سازندے اپنے طبلے اور ہارمونیم لئے بیٹھے ہوتے۔ سامنے ایک کرم خوردہ
روح میک اپ سے بے جان جسم کو خوشنما بنائے بیٹھا ہوتا۔
گاہک آتا تو کھڑکیاں دروازے آدھے گھنٹے گھنٹے کے لئے بند ہوجاتے۔ گھنگھرو بندھتے اور تھرکتے۔ اوپر کی منزلیں عموماً رہائش اور جسم فروشی کے لئے استعما ل کی جاتیں۔
1/12
لاہور کا بدنامِ زمانہ طوائف خانہ جو آج اُن طوائفوں سے بے آباد کسی کھنڈر کا منظر دیکھاتا ہے ۔ حال ہی میں " ہیرا منڈی" ڈرامہ دیکھائے جانے پر جس میں حقیقت کے برخلاف ہیرا منڈی کو پیش کیا گیا، لاہور کے ٹک ٹاکر اور یو ٹیوبروں نے عوام کو حقیقت دیکھانے کو اپنا فرض سمجھا اور موبائل اٹھائے سوئی ہوئی ہیرا منڈی کو جگانے پہنچ گئے۔ لیکن کھنڈر بھی کبھی کسی کے جگانے سے جاگے ہیں۔
اس بات سے کسی کو انکا ر نہیں ہوگا کہ انسان کے معاشرتی فنون لطیفہ میں رقص ہمیشہ سے شامل رہا اور دوسری طرف جسم فروشی کا مکروہ کاروبار غالباً وہ کاروبار ہوگا جو ہر معاشرتی اقدار ہر قانون کے برخلاف ہمیشہ سے چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ انسان جہاں رہنا شروع کرتا ہے اپنی جنسی آسودگی کا سامان بھی مہیا کر لیتا ہے۔
2/12
شاہی محلہ کا محل وقوع:
آج اگر یہ سمجھنا ہو کہ شاہی محلہ کس جگہ کو کہتے ہیں تو اسکا آسان کا طریقہ یہ ہے کہ اس چوک میں کھڑے ہو جائیں جہاں پھجا پائے ہے۔ اگر آپ کا رخ حضوری باغ یا شاہی قلعے کی طرف ہے تو نقشہ کچھ یوں ہوگا۔
۱۔ سیدھے ہاتھ کو کوُ چہ شہباز ہے۔ یہاں امرا ٫ کے لیے اور بڑے مجرے خانہ ہوا کرتے تھے۔ ملکہ پکھراج کا کوٹھا بھی یہیں موجود تھا جس کی چوکھٹ پرکبھی پکھراج جڑا ہوا تھا۔ اب یہاں کچھ نہیں بچا ۔ پلازے مارکیٹ سب کھا گئے ہیں۔
۲۔ چوک سے چند قدم آگے بائیں ہاتھ کوچہ سکندر یا نیچا چیت رام روڈ یا مرکزی گلی ہیرا منڈی موجود ہے۔ ایک تیس چالیس مکانات پر مشتمل گلی ۔ جہاں اب جوتیاں بنانے والوں کا راج ہے۔
۳۔ چوک سے ہی بائیں مڑ جائیں تو ٹیکسالی چوک آئے گا۔ اس کے ساتھ بھی نیچا چیت رام روڈ ملے گی۔ یہاں بھی مجرے خانہ ہوا کرتے تھے اب DJ ‘s اور موزیکل بینڈ والے بیٹھتے ہیں۔
3/12
موچی گیٹ جو اصلی میں موتی رام جو مغلوں کا سپاہی اور ساری زندگی دروازے کی حفاظت پر معمور رہا ۔۔۔کے نام پر ہے اور وقت کی شکست و ریخت کے ساتھ موتی گیٹ تو نا رہا اور نام موتی سے موچی بن گیا۔
موچی گیٹ کی بہت سی پہچانیں ہیں ۔ ہمارے بچپن میں پتنگ بازی کی اور آتش بازی کی جنت یہی تھی۔ اچار مربہ یہیں ملتے ہیں خلیفہ کی خطائی یہیں ہے محرم میں عاشورہ کا سب سے بڑا جلوس نثار حویلی یہیں سے نکلتا ہے ۔ اور لال کھو ( کنواں) بھی یہیں ہے۔
1/7
لاہور میں شاید ہی کوئی ہو جس نے اندرون موچی گیٹ کی لال کھوہ کی برفی نہ کھائی ہو یا سنی نہ ہو۔ لال کھو اور اسکی برفی دونوں الگ سننے میں نہیں آتے۔
مگر گنتی کے لوگ ہو گے جو یہ جانتے ہو نگے کہ کیا لال کھوہ برفی کی وجہ سے مشہور ہوا یا برفی لال کھوہ کی وجہ سے۔ اور ان دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ آج کا لاہور نامہ یہی ہے ۔
2/7
یہ رشتہ کم و بیش ۵۰۰ سو سال پرانا ہے ۔ اور اس کی وجہ شہرت ایک ایسی لازوال دوستی کی داستان ہے جو آج کے دور میں سنائی جائے تو یقین میں نہ آئے۔ دوسری طرف یہ دوستی اصل لاہور کی تہذیب اور روائتوں کی آمین بھی گواہی بھی ہے ۔
یہ دوستی کی داستان سکھوں کے پانچویں گرو (کل دس گرو ہیں ) گرو ارجن دیو اور مشہور مسلم صوفی دریوش بزرگ حضرت میاں میر رح کی ہے ۔
گرو ارجن وہی ہیں جنہوں نے پہلی گرنت لکھی اور اسی کی بنیاد پر گرو گرنتھ صاحب ترتیب پائی اور مشہور امرتسر کا گولڈن ٹیمپل مکمل کروایا ۔
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
غالب
مولانا حالی نے اس شعر کا ذکر "یادگارِ غالب" اور "مقدمہ شعر و شاعری" دونوں میں کیا ہے۔ اردو ادب میں" مقدمہ شعرو شاعری" کا مقام یہ ہے کہ ماسٹرز کی کلاس میں باقاعدہ ایک مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱
مولانا حالی فرماتے ہیں کہ اردو ادب میں اتنے بلیغ شعر شاید دو چار ہی مل سکیں گے۔ مولانا آزاد جو غالب کی طلب کو ایک نام رکھتے تھے وہ بھی اس شعر کے انداز پر پروانہ تھے۔ مولانا طباطبائی کو بھی مجبوراً اعتراف کرنا پڑا کہ جو بندش اس شعر نے پائی ہے اس کا جواب ڈھونڈنے سے نہ مل سکے۔
۲
شعر میں جو داستان پوشیدہ ہے وہ یوں ہے:
مرزا محبوب کے دروازے پر اس کا دیدار کرنے کو پہنچے ۔ وضح قطع سے بالکل فقیر اور درویش لگتے تھے۔ پاسبان نے دیکھ کہ سمجھا کہ فقیر آیا ہے اور فقیر آتے ہی رہتے ہیں سو کچھ دیر بیٹھے گا چلے جائے گا سو وہ چپ رہا اور خاص توجہ نہ کی۔
۳
خان نے آج تک جتنے نعرے لگائے وہ سب کے سب سحری کے ڈھول والے جیسے تھے جس نے خود شاید ہی روزہ رکھا ہو بس دیہاڑی کے چکر میں ڈھول پیٹ رہا ہوتا ہے۔ انہیں کھوکھلے نعروں میں ایک نعرہ وراثتی سیاست کا بھی تھا۔ اب چونکہ ہمارے ہاں سوچنے کا رواج کم کیا سرے سے ہی نہیں اور جو خان نے کہہ دیا
۱
وہی حدیث مان لی گئی۔
انشااللہ اگلا الیکشن غالباً آخری الیکشن ہوگا جس میں دونوں نسلیں حصہ لیں گے۔ اور یہ چورن ایک بار پھر چٹایا جائے گا اور سب رج کے چاٹیں گے۔ تو سوچا اس پر بات کی جائے
خان صاحب چونکہ امت مسلمہ کے لیڈر ہیں اور ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں اسلام
۲
اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
اسلامی فقہ کی بنیاد اللہ کی سنت، اللہ کی کتاب، نبی اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث اور آخر میں صحابہ کا طرزِ عمل ہے۔
یاد رکھئے نبی وقت صرف مذہبی تبلیغ کے لئے نہیں آتا تھا وہ حاکم وقت بھی ہوتا تھا سیاستدان بھی سپہ سالار بھی وہی دین کا داعی بھی قاضی بھی وہی
۳