!!میجر راجہ عزیز بھٹی شہیدؒ (نشانِ حیدر) کے یومِ شہادت پے آپ کی یاد میں:!!!
وہ چھ دن اور چھ راتوں سے بھوکا پیاسا مسلسل جاگ رہا تھا مگر اسکی آنکھوں میں نیند اور بھوک پیاس کا نام و نشان تک نہیں تھا مگر وہ چیتے کی طرح چوکنا مسلسل دشمن کے پرخچے اُڑا رہا تھا.
دشمن اسکے چٹان جیسے جزبوں کی فصیل پھلانگنے میں ناکام ہوچکا تھا.
آسمان پے اسکے استقبال کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور پھر دشمن کے ٹینک سے شعلہ بھرا گولہ اسکا سینہ چیرتا ہوا نکل جاتا ہے.
درختوں پر بیٹھے پرندوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں...
میجر راجہ عزیز بھٹی وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے اور اب سرکارِ دوعالم صلی علیہ وآلہ وسلم کی باہیں انکی منتظر تھیں...
یہ 2 ستمبر کا واقعہ ہے میجر راجہ عزیز بھٹی نے رات خواب دیکھا کہ "آپ اپنے گاؤں فوجی وردی میں تشریف لا رہے ہیں اور آپ کے گاؤں (لادیاں) والے آپ کے گلے میں سُرخ گلاب کے پھولوں کے ہار ڈال رہے ہیں اور کچھ آپ پے پتیاں نچھاور کر رہے ہیں
اور اک منفرد اور محسورکن خوشبو آپ کے ذہن کو معطر کر رہی ہے، آپ نے گھر آتے ہی چُپ چاپ اُس جگہ جہاں پھولوں کا آپ نے باغیچہ بنایا ہوا تھا وہاں اک سُرخ رنگ کا نایاب پھول لگا رہے ہیں جس کی خوشبو باقی تمام پھولوں سے بے حد منفرد ہے"
صبح فجر وقت آپ کی آنکھ کھلی تو خواب کا ذکر اپنی والدہ سے کیا، والدہ نے کہا خواب بہت مبارک ہے مگر امام صاحب سے اسکی تعبیر پوچھو،،، فجر کی نماز کے لئے مسجد گئے نماز سے فارغ ہونے کے بعد امام صاحب سے آپ نے اپنے خواب کا ذکر کیا تو امام صاحب نے اس خواب کی تعبیر کچھ یوں بتائی
"عنقریب اللّٰه تعالیٰ آپ کو شہادت کے مرتبے سے سرفراز کریں گے اور جس جگہ آپ پودہ لگا رہے تھے وہاں آپ کی قبر بنے گی"
گھر واپس آکر آپ نے اپنی والدہ کو امام صاحب کی بتائی ہوئی تعبیر سنائی تو آپ کی والدہ کو چُپ لگ گئی،
2 دن بعد آپ اسی جگہ پودہ لگانے لگے تو آپ کی والدہ نے آپ کو باغیچے میں مزید کوئی نیا پودہ لگانے سے روک دیا (میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو پھولوں سے بے حد رغبت تھی)
6 ستمبر کو الصبح بھارت نے لاھور سیکٹر پر حملہ کیا تو باڈر سے آپ کا فوری بُلاوا آ گیا
آپ کی پوسٹنگ برکی سیکٹر پر ہوئی اور آپ نے چھ دن اور چھ راتوں تک دشمن کو برکی سیکٹر سے دور روکے رکھا پھر آپ کو آگے جانے اور B.R.B نہر کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالنے کا حکم ملا،،
12 ستمبر کی صبح آپ اپنے سپاہیوں سے گفتگو میں مشغول تھے ایک سپاہی ہاتھ کی لکیریں دیکھنا جانتا تھا آپ نے اس سے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں شہادت کی لکیر ہے کہ نہیں تو اس نے جواب دیا میرا علم کہتا ہے آپ کو بہت جلد بہت اُنچا مقام ملنے والا ہے تو آپ نے کہا میں جانتا ہوں بہت جلد،
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اک سپاہی کسی اور آفیسر کی وردی اُٹھا لایا اور کہا "سر آپ کی وردی مل نہیں رہی تھی تو میں کسی اور آفیسر کی وردی لے آیا ہوں تو آپ نے کہا رہنے دو میری وردی صاف ہے اور ویسے بھی وردی اور کفن اپنا اپنا ہی اچھا لگتا ہے"
ابھی یہ باتیں ہی ہو رہی تھیں کہ اچانک دشمن کی جانب سے گولہ باری شروع ہوگئی میجر راجہ عزیز بھٹی مورچے سے نکل کے آنکھوں سے دوربین لگائے B.R.B نہر کے کنارے کھڑے ہوگئے اور دشمن کی پوزیشن کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے سپاہیوں کو جوابی گولہ باری کا آرڈر دینے لگے آپ کے سپاہی نے کہا
سر آپ اندر موچے میں آجائیں آپ جہاں کھڑے ہیں وہ جگہ ٹھیک نہیں تو آپ نے کہا مورچے سے دشمن نظر نہیں آتا،،
سپاہی نے پھر کہا سر آپ پلیز اندر آ جائیں دشمن آپ کو ٹارگٹ کر رہا ہے تو میجر راجہ عزیز بھٹی نے کہا "ارے صاحب یہ جانِ عزیز وطنِ عزیز پر قُربان ہو جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا
ہوسکتی ہے"
میجر راجہ عزیز بھٹی کا یہ کہنا تھا کہ دشمن نے آپ کو ٹارگٹ کیا اور اک گولہ آپ پہ داغ دیا، گولہ سیدھا آپ کے سینے کو چیرتا ہوا نکل گیا اور آپ کی زبان سے صرف "اللّٰه" لفظ ادا ہوا
اور آپ کی خوردنی (فوجی جنگی ٹوپی) جھٹکے سے آپ سر سے اتر کر گر پڑی اور آپ کے سینے سے گرم لہو کا فوارہ پھوٹ پڑا....
آپ کی شہادت کے بعد آپ کا جسدِ خاکی وردی میں آپ کے آبائی گاؤں لادیاں لایا گیا تو
جیسے آپ نے خواب میں اپنا استقبال دیکھا تھا بلکل اسی طرح آپ کے گاؤں والوں نے آپ کے جسدِ خاکی کا پھولوں سے والہانہ استقبال کیا اور سب گاؤں والے آپ کے گھر آپ کے والدین اور اہلیہ اور بچوں کو مبارک باد دینے آنے لگے آپ کا جسدِ خاکی پورا دن گھر میں رکھا رہا
اور مبارک باد اور شہید کا دیدار کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا مگر اس دوران آپ کے جسدِ خاکی سے گرم لہو بھی بہتا رہا جوکہ آپ کی شہادت کی گواہی دے رہا تھا،،،، بعدازاں آپ کا جسدِ خاکی گھر کے صحن میں آپ کے چھوٹے سے باغیچے میں بلکل اسی جگہ دفنایا گیا
جہاں آپ نے خواب میں خود کو منفرد پھول لگاتے ہوئے دیکھا تھا...
اور B.R.B نہر کے کنارے جہاں آپ کی شہادت ہوئی تھی اس جگہ آپ کی جائے شہادت تعمیر کی گئی ہے اور آج بھی میجر راجہ عزیز بھٹی شہیدؒ کی یادگار ہمارے جزبوں اور ہمارے ایمان کو جلا بخشتی ہے...
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو ہے جو شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے !
تمہی سے اے مجاہدو جہان کا ثابت ہے —!
۔👈 آخر میں میری دعا ہے کہ " اللہ تعالی "
ہمارے دل و جان سے پیارے ملک پاکستان
کو رہتی دنیا تک قائم رکھے۔
🤲 اَمـــِين يَارَبَّ الْعَالَمِيْن 🤲
🇵🇰💝🇵🇰💝🇵🇰💝🇵🇰💝🇵🇰💝🇵🇰
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
صبر اور ترقی
ایک استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک خوب صورت ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی :
’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘
یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گئے۔
چند لمحوں کے لئے کلاس میں خاموشی چھا گئی، ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بےتابی سے دیکھ رہا تھا
اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے لئے خود کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔
دس منٹ پورے ہوئے اور استاد نے آ کر کلاس روم کا جائزہ لیا، پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے، جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں، جبکہ باقی تمام بچے ٹافی کھا کر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کر رہے تھے۔
استاد نے چپکے سے
ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کئے اور پڑھانا شروع کر دیا۔
اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا.
کچھ سالوں بعد استاد نے اپنی وہی ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی۔
کافی جدوجہد کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی
یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران کامیابی کے متعلق پڑھاتے ہوئے، ایک پروفیسر نے، ایک نظریہ بیان کیا، جو شاید اطلاقی سائنس سے متاثر ہے، وہ درج ذیل ہے:
اگر انگریزی حروف تہجی کی ترتیب درج ذیل ہے:
A B C D E F G H I J K L M N O P Q R S T U V W X Y Z
ان کی عددی ترتیب حسب ذیل ہے:
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26
اگر زبان کے ہر حرف کو اس کے حروف تہجی کی ترتیب کی بنیاد پر وزن دیا جائے ، یعنی مثال کے طور پر، پہلے حرف A کا وزن 1 کے برابر ہے، اور آخری حرف Z کا وزن 26 کے برابر ہے، تو:
آپ یقین کریں یا نہ کریں ..
1987ء میں امریکی شہری سٹیون روتھسٹین نے امریکن ایئر لائنز کی پرکشش پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گولڈن ٹکٹ خرید لیا ۔ جس کی قیمت $250,000 تھی۔
اس گولڈن ٹکٹ کے ذریعے امریکن ایئر لائن سے دنیا بھر میں فرسٹ کلاس سفر مفت کیا جاسکتا تھا اور وہ بھی تاحیات.
اس کے علاوہ اس ٹکٹ کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ گولڈن ٹکٹ کا مالک جب بھی چاہے وہ اپنے ساتھ کسی بھی ایک شخص کو سفر پر مفت لے جاسکتا ہے، اور دوسرے شخص کے لیے اس ٹکٹ کی قیمت $150,000 تھی اس نے گولڈن ٹکٹ کے ساتھ یہ ٹکٹ بھی خرید لیا ۔
پھر ہوا یوں کہ اسٹیو نے اسی
گولڈن ٹکٹ پر 10,000 سے زیادہ بار ہوائی سفر کیا ۔
کبھی اس کا دل کرتا کہ فلاں ملک کے کسی خاص اور مشہور ریستوران کا سینڈوچ کھایا جائے، یا کسی دور دراز کے ملک میں بننے والی مشہور برانڈ کی آئسکریم وہاں جاکر کھائی جائے، یا دنیا بھر میں ہونے والے کسی بھی کھیل کے مقابلے کو وہاں
جلد بازی مت کیجئے ۔۔۔
ایک ٹیچر کہتی ہیں :
میں نے طالبات کی ایک ٹیم کو سال کے آخر میں ایک پروگرام میں انکی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنے کیلیے ٹرینڈ کیا ، تیاری اور ریہرسل کے مختلف مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آ گیا
نظم شروع ہوئی. مگر ان کی اس خوبصورت کارکردگی پر اس
وقت پانی پھر گیا جب ایک بچی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھ رہی تھی اچانک اپنے ہاتھ، جسم اور انگلیوں کو حرکت دینے لگی اور اپنا منہ کسی کارٹون کے کیریکٹر کی طرح بنانے لگی.
اس کی ان عجیب وغریب حرکتوں کی وجہ سے دوسری تمام بچیاں پریشان ہو گئیں
ٹیچر کہتی ہیں:
میرا جی چاہا کہ
میں جاکر اس بچی کو ڈانٹ پلاؤں اور اسے تنبیہ کروں کہ وہ ڈسپلن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے مجھے اس پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ میں اسے سختی کے ساتھ ان بچیوں سے کھینچ کر الگ کر دوں لیکن جوں جوں میں اس کے قریب جاتی وہ پارے کی طرح چھٹک کر مجھ سے دور ہو جاتی اس کی یہ حرکتیں بڑھتی
کیا آ پ انیسویں صدی کا دو چہروں والےشخص کے بارے جانتے ہیں جس نے اپنے دوسرے چہرے کی وجہ سے 23 سال کی عمر میں خودکشی کرلی تھی۔
دنیا میں عجیب الخلقت انسانوں کی کئی کہانیاں مشہور ہیں ۔انہیں میں سے ایک پر اسرار کہانی ایڈورڈ مورڈریک کی ہے جس کے سر کی اگلی اور پچھلی دونوں طرف چہرے تھے
اور اگرچہ عقبی جانب والا چہرہ بولتانہیں تھا لیکن سرگوشیاں اور آنکھوں سے اشارے ضرور کرتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ایڈورڈ برطانیہ کے ایک نواب خاندان میں پیدا ہوا اور اگرچہ وہ سامنے سے دیکھنے پر بہت خوش شکل نظرآتا تھا لیکن اس کے سر کے پچھلی طرف والا چہرہ بہت بدشکل تھا۔اس کا ایک چہرہ
اس کے سر کے پیچھے تھا لیکن یہ سر کے پیچھے والا چہرہ نہ کھاتا تھا نہ پیتا تھا۔یہ صرف روتا اور ہنستا تھا۔
ایڈورڈ نے کافی دفعہ ڈاکٹروں سےگزارش کی کہ میرے سر کے پچھلی جانب والا چہرہ آپریشن کرکے ہٹا دیں یہ رات کومجھے سونے نہیں دیتا یہ رات کو خوفناک قسم کی سرگوشیاں کرتا ہے۔لیکن
السلام علیکم!!
کبھی کبھی مجھے بہت دکھ اور تکلیف ہوتی ھے ۔
جب ہم لوگ بات کو سمجھنے کی بجائے
"بحث برائے بحث"
میں الجھ جاتے ہیں فقط
اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کے لئے
میرا آپ لوگوں کے ساتھ "تحریروں" کا
شیئر کرنے کا مقصد صرف یہی ھے کے
اس تحریر کے اچھے پہلووں سے آپکو کُچھ سیکھنے کا
موقع مل سکے۔
لیکن انتہائی کوشش کے باوجود جب میں آپ لوگوں کو ایک اچھی تحریر کے نیچے بغیر کسی وجہ کے بحث کرتے دیکھتا ہوں تو یقین جانئے دل بہت اُداس ہوتا ھے ۔
کوشش کیجیے
اپنی زندگی میں پازٹوٹیی کو شامل کرنے کی
تنقید لازمی کیجیے لیکن اتنی بھی نہ کیجیے کے آپ کی پرسنلٹی کے اچھے پہلووں
کو بھی چھپا دے۔
یقین جانئے
کبھی کبھی الفاظ کا چنائو ہمیں
دوسروں سے جدا کر دیتا ھے۔
خوش رہیں۔