حیاء کے معنیٰ کی وضاحت
اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے 👇
دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ ﷺ نے سنا تو ارشاد فرمایا : 👇
دعہ فان الحیاءمن الایمان ۔ (مشکوة -2-431) ترجمہ : اس کو چھوڑدو کیونکہ حیاء ایمان کا جز ء ہے۔ دوسری حدیث میں ہے : الحیاء لا یاٴ تی الا بخیر وفی روایة الحیا ء خیرکلہ ۔(2-421) ترجمہ : حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے ۔گو👇
انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی ۔حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنة والبذآء من الجفآءٰ فی النار۔(مشکوة۔431) ترجمہ : حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور 👇
بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔ حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔ 👇
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فجآتہ احدٰ ھما تمشیی علی استحیآء ۔👇
(سورة القصص ۔25) ترجمہ : اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ 👇
ارشاد مبارک ہے : الحیآ ء شعبة من الایمان ۔( مشکوٰة۔12) لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اذالم تستحیی فاصنع ما شئت ۔(مشکوٰة ۔431) ترجمہ : 👇
جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطہ ٴ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شترِ بے مہار کے طرح ہوتی ہے ۔حیاء ہی وہ صفت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتاہے لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ 👇
وہ حیاء کی صفت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں تاکہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ فقط واللہ اعلم
*آزمائش*
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
بغیر آزمائش کے کوئی بندہ بشر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگا قرآن کے اس بنیادی اصول کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آزمائش کیا ہے یہ کیسا ہی امتحان کیوں نہ ہو کسی کو اس سے فرار نہیں اس لئے کہ بندہ اپنے علم و یقین کی جب خود گواہی دیتا ہے تو 👇
اس کی آزمائش اس کے اپنے علم و یقین کی اس کے بقدر ہوتی ہے۔
یقیناً آزمائش ایک مخصوص دورانیہ کی ہوتی ہے یعنی یہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی۔ آزمائش سے نبردآزما ہونے کے لئے سب سے اہم آزمائش کو سمجھنا اور یہ یقین رکھنا کہ یہ لامحدود نہیں اور یہ یقین رکھنا کہ یہ دورانیہ اپنے مخصوص وقت تک 👇
محیط ہے یہ محیط کب تک ہے یہ غیب ہے بندہ اسے جاننے سے قاصر ہے چونکہ ہمیں آزمائش لاحق ہے تو ہمیں توبہ استغفار، ذکر و اذکار کرتے رہنا چاہئے اور دوا ، دعا کا بالخصوص باقاعدگی سے اہتمام کرنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے آزمائش کا دورانیہ سات سال تک طویل ہو جائے تو ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے، 👇
غزہ یا ہم، قرون اولیٰ کے وارث کون!
۔۔
آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں ہر چیز کو اپنی محدود عقل و علم پر پرکھتے ہوئے فیصلے صادر کرتے ہیں، لیکن دعوہ ہمارا مسلمانی ہے، کبھی اپنے آپ کو ایمان کی روشنی میں نہیں پرکھا ۔۔۔۔ غزہ برپا ہوا تو ۔۔ 👇
اہل دانش غلطی گردانے لگے کہ کمزور ہو کر طاقتور دشمن کو کیوں للکارا اپنے وطن و لوگوں کو تباہی کے راستے پر کیوں ڈالا، وہ جی فلاں کے مہرے تھے۔۔۔ ؟؟؟ ۔۔ لیکن پرکھو گر انکو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و قرآن حکیم کی روشنی میں تو گونگے بہرے ہو جائیں گے ۔۔۔ 👇
پرکھنا ہے تو پرکھو غزہ کو غزوہ بدر سے ۔۔ کتنی تلواریں، نیزے، سواریاں و ڈنڈے سوٹے تھے مسلمانوں کے پاس ۔۔۔ 313 اصحاب، 2 گھوڑے ، 70 اُونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں اور دشمن 1000 سے زائد نفوس، 700 زرہیں، 70 گھوڑے، لاتعداد اونٹ، بے شمار تلواریں اور نیزے، آج کا دانشور 👇
بھاری قرضے سے خلاصی
اللہ تعالی نے ”کلمہ طیبہ“ ”حمد“ اور تسبیح میں بڑی برکت رکھی ہے...بڑی تأثیر رکھی ہے...حضرت علامہ عبدالرحمن الجوزی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:-
حضرت شیخ ابوبکر بن حماد المقری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں...میں نے 👇
حضرت امام معروف الکرخی رحمہ اللہ تعالی سے عرض کیا......حضرت! مجھ پر بہت بڑا بھاری قرضہ چڑھ گیا ہے...حضرت نے فرمایا: میں آپ کو ایسی دعاء بتا دیتا ہوں جس سے اللہ تعالی آپ کا قرضہ اتار دیں گے...آپ 👇
روزانہ سحری کے وقت پچیس بار یہ دعاء پڑھا کریں
لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا، وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً......
حضرت شیخ ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو 👇
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل منافقین کے بارے میں یہ تھا کہ چند معروف منافقین کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی صفوں میں موجود ان منافقین کی نشاندہی تک نہیں کی گئی۔ انہیں الگ کرنے اور معاشرتی طور پر انہیں علیحدہ قرار دینا تو بعد کی بات ہے، اس سے قبل ان کی جو نشاندہی 👇
ضروری قرار پاتی ہے اس کا مرحلہ بھی نہیں آیا۔ جناب نبی اکرمؐ نے صرف چودہ منافقین کے نام بتائے اور وہ بھی صرف حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کو، اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان میں سے کسی کا نام اور کسی کو نہیں بتائیں گے۔ حتٰی کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے انہیں کئی بار کرید کر پوچھنا چاہا مگر 👇
حضرت حذیفہؓ نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو بھی ان میں سے کسی منافق کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ جس پر حضرت عمرؓ نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا کہ کسی عام شخص کے جنازے پر اگر حضرت حذیفہؓ موجود ہوتے تو حضرت عمرؓ جنازہ پڑھتے تھے ورنہ یہ سوچ کر جنازہ پڑھنے سے گریز کرتے تھے کہ 👇
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان یہودی ہوجائے، عیسائی ہوجائے، یا مندر میں جائے، بھجن گائے، پوجا پاٹ کرے، گھنٹی بجائے اور بتوں کو سجدہ کرے؛ حالاں کہ ایسی بات نہیں ، آدمی روزہ نماز کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، 👇
قرآن کی تلاوت کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے؛ جب کہ وہ اللہ کو ایک نہ مان رہا ہو، اللہ کے حکم کو نہ مان رہا ہو، قرآن کا مذاق اڑا رہا ہو، سنت نبوی کو حقارت سے دیکھ رہا ہو، متواتر احکام کا انکار کررہا ہو، مثلاً 👇
زکوٰۃ کا انکار کرتا ہو جناب محمد رسول اللہ … کو آخری نبی نہ مان رہا ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا انکار کررہا ہو، آج قادیانی اس کی مثال ہیں ، شکیل بن حنیف اور ان کے ماننے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ، یہ لوگ قرآن وسنت کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ، 👇