نشرلافکار Profile picture
Sep 16, 2020 4 tweets 2 min read Read on X
وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت ،مال دار،اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا
اُس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے ۔وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معا شرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدداُن کے وہ بھا ئی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے
تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو.
مسلم شریف کی روایت ہے:
     ــــ’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔‘‘
    سبحان اللہ
@threadreaderapp unroll please

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with نشرلافکار

نشرلافکار Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @IshfaqKaziPTI

Jan 20
ایک تھریڈ دل کرے تو پڑھ لیجیے،
تاریخ کا ایک اور ورق

بادشاہ کا اعلان ہوا "جس نے آج کے بعد قران کو الله کا کلام کہا یا لکھا گردن اڑا دی جائے گی"
بڑے بڑے محدثین علماء شہید کر دیئے گئے ساٹھ سال کے بوڑھے امام احمد بن حنبل امت کی رہنمائی کو بڑھے
👇
فرمایا "جاؤ جا کر بتاؤ حاکم کو احمد کہتا ہے قرآن مخلوق نہیں....الله کا کلام ہے"
دربار میں پیشی ہوئی بہت ڈرایا گیا امام کا استقلال نہ ٹوٹا
مامون الرشید مر گیا اسکا بھائی معتصم حاکم بنا، امام کو ساٹھ کوڑوں کی سزا سنا دی گئی دن مقرر ہوا امام کو زنجیروں میں جکڑ کر لایا ﮔﯿﺎ 👇
بغداد میں سر ہی سر تھے
ایک شخص شور مچاتا صفیں چیرتا پاس آﯾﺎ " احمد احمد !مجھے جانتے ہو ؟
فرمایا نہیں
میں ابو الحیثم ہوں بغداد کا سب سے بڑا چور احمد میں نے آج تک انکے بارہ سو کوڑے کھائے ہیں لیکن یہ مجھ سے چوریاں نہیں چھڑا سکے کہیں تم ان کے کوڑوں کے ڈر سے حق مت چھوڑ دینا
👇
Read 8 tweets
Nov 25, 2023
تاریخ کا المیہ

( ڈاکٹر مبارک علی )

وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر معاشرے اور ہر جماعت میں تاریخی شعور بڑھ رہا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کے تصور میں بڑی تبدیلی آگئی ہے اور یہ علم محدود دائرے سے نکل کر وسعت میں داخل ہو گیا ہے اور اسکی وجہ سے نہ صرف ذہنی سطح اونچی ہوئی ہے بلکہ اس میں طب،کھیل، ذرائع نقل و حمل ، ،آرٹ، ادب، زراعت سائنس اور ٹیکنالوجی اور ان کے معاشرے پر کیا اثرات ہوئے یہ سب اب تاریخ کے موضوعات ہیں، اس نے تاریخ کو ایک ایسے علم میں بدل دیا ہے کہ جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں معلومات ہیں۔ تاریخ اب محض بادشاہوں کے کارناموں کا مرقع نہیں رہیں بلکہ اس میں عوامی سرگرمیوں کا بھی بیان آگیا ہے۔

جو معاشرے تاریخی شعور کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں وہ ان تمام اقدار اور روایات سے بغاوت کر رہے ہیں کہ جنہوں نے اپنی فرسودگی اور بوسیدگی کی بنا پر ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ مسلسل جدوجہد یہ ہے کہ سحر اور جادوسے خود کو آزاد کرائیں اور تاریخی مفروضوں کو حقیقت کا لباس پہنایئں اور ماضی کو حال کی ضروریات اور تقاضوں کی مناسبت سے دیکھیں۔ اس کا مطالعہ کریں اور اسکی تعبیر و تفسیر کریں۔

اس نئے نقطہ نظر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ماضی کے عظیم ہیرو جنہوں نےعوام کے ذہن ودماغ پر اپنی عظمت کا روپ جمایا ہوا تھا وہ اصلی روپ میں آنے کے بعد اپنی شان و شوکت اور دبدبہ کھو بیٹھے۔ وہ مورخ جن میں تاریخ کا عوامی شعور ہے انہوں نے ایک ایک کرکے ان بڑی بڑی شخصیتوں کے طلسم کو توڑ دیا اور انہیں بلندی سے گرا کر عوام کے قدموں تلے لاڈالا۔ اسطرح وہ روایات اور قدریں جو ایک زمانے تک ابدی اور لافانی سمجھی گئی تھیں تاریخی عمل میں ان کی اہمیت اور قدروقیمت کے بعد اندازہ ہوگیا کہ یہ بدلتے ہوئے زمانے اور نئی نسل کے تقاضوں کے لیے بے سود اور بے کار ہیں۔ عوام میں کچلے ہوئے طبقوں میں اور محروم لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے ان کے ذہن ودماغ کو روشنی بخشنے اور ان میں اپنے حقوق کا احساس پیدا کرنے کےلئے تاریخ ایک ایسا علم ہے جسے استعمال کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے ذریعے ماضی کی حقیقتوں کو سامنے لایا جاسکتا ہے اور جہالت کو دور کرکے عوام کو انکی اصلی طاقت و قوت سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کا یہ وہ استعمال ہے جو معاشرے میں مثبت اثرات پیدا کرے گا۔

اس ضمن میں جہاں تک پاکستان اور اس کی عوام کا تعلق ہے تو یہ المیہ ہے کہ یہاں تاریخی شعور میں اضافے کے بجائے اسمیں کمی آ رہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تاریخ کو جس انداز میں لکھا جا رہا ہے اور جس طریقے سے پڑھا یا جارہا ہے یہ لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور ان کی ذہنی نشوونما کے بجائے انہی روایات، قدروں اور توہمات کا اسیر بنا رہی ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس کے ذریعے گہری اور قدیم فرسودہ روایات کو توڑا جائے بلکہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے محفوظ کیا جائے۔ یہ جھوٹے بتوں اور شخصیتوں کے اثرات کو ختم کرنے کی بجائے اور ایسی شخصیات کو پیدا کر رہی ہیں۔ پیشہ ور مورخوں اور حکمران طبقوں کی کوشش یہ ہے کہ ماضی کی غلط تعبیر و تفسیر کو کس طرح سے برقرار رکھا جائے اور اس کے ذریعے کس طرح سے اپنا اثرورسوخ باقی رکھا جائے ۔اگرچہ ماضی کی معلومات مین سلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے بارے میں ہماری معلومات برابر بڑھ رہی ہیں مگراس کے باوجود ماضی کا مطالعہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں نہیں کیا جا رہا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ماضی ایک جگہ ٹھہر گیا ہے اور اس کے پاس ہماری راہنمائی کے لئے کچھ نہیں رہ گیا ۔ یہ ہماری ذہنی سوچ کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جن لوگوں کے پاس طاقت و قوت ہے اور سیاسی و معاشی اور ثقافتی اقتدار ہے وہ کسی تبدیلی اور ترقی کے خواہش مند نہیں ہیں۔
تاریخ کا ایک المیہ یہ ہواکہ سیاستدانوں اور با اقتدار طبقے کے زیر اثر آ کر ان کی تمام سیاسی و معاشی معاشرتی خرابیوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے استعمال ہونے لگی۔ ایک مرتبہ جب معاشرے میں آمرانہ طرز حکومت قائم ہوگئی اور طاقتور ادارے اسکی مدد کی غرض سے تشکیل پا گئے تو پھر وہ تمام پہلو جو جمہوریت لبرل ازم سیکولر ازم اور سوشلزم کے بارے میں عوام کو معلومات فراہم کرتے تھے اور جن کی مدد سے وہ سیاسی و معاشی اور معاشرتی حالات کا تجزیہ کرسکتے تھے ان سب کو تاریخ کے مطالعہ سے خارج کردیا گیا اس مرحلے پر پیشہ ور اور سرکاری مورخین نے وہی کام سرانجام دیا جو ان سے پہلے درباری مورخین کیا کرتے تھے۔ انہوں نے فورا بھی اپنی خدمات حکومت کے حوالے کرکے ان کے نکتہ نظر سے تاریخ لکھنا شروع کی اور اس عمل میں ان تمام آمرانہ استحصالی قوتوں کو اخلاقی جواز فراہم کیے جو عوام کے حقوق کو کچلنے اور عوام کو انکے جائز مقام کو دینے میں زبردست رکاوٹ ہیں۔

چنانچہ تاریخ کے حوالوں سے اور الماروی کی تحریروں سے اس بات کو ثابت کیا گیا کہ اگر کوئی غاصب زبردستی اقتدار پر قبضہ کرلے تو یہ اقتدار جائز ہے اور عوام کا کام ہے کہ ایسے امر کی اطاعت کریں اور اس کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ تاریخ کو مسخ کر نے کے سلسلے میں اور مطلق العنانیت کی حمایت کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کے لئے اجنبی ملکی کی کر مسترد کر دیا گیا تبدیلی کے تمام نظریات کو رد کرکے اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمارے ہاں جو آفاقی اور ابدی قدریں ہیں انہی میں نجات ہے ۔ تاریخ کے وہ تمام حصے جن سے ہمارے معاشرے میں شعور و آگاہی پیدا ہو سکتی تھی اور جو ہماری نئی نسل میں نئی سوچ اور فکر پیدا کرسکتے تھے انہیں جان بوجھ کر تاریخ کی نصابی کتابوں سے خارج کردیا گیا مثلا ڈارون کا نظریہ ارتقا ہمارے عقیدے کے لیے ضرر رساں اورخطرناک ہے اس کی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں، قدیم ہندوستان کی تاریخ سے جو کہ ہندوؤں کی ذہنی ترقی اور ان کی تہذیب کی عظمت کا احساس ہوتا ہے ہمارے لئے ناپاک اور غیر ضروری ہے۔ اس سلسلے میں یہاں تک ہوا کہ وادی سندھ کی تہذیب اور گندھارا ثقافت کو بھی مسترد کر دیا گیا کیونکہ ان کا تعلق اس دور سے ہے جب مسلمان برصغیر میں نہیں آئے تھے اور یہ قبل مسیح کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے اس کے بارے میں جاننا ان کا مطالعہ کرنا اور ان کی شان شوکت کو بیان کرنا یہ سب مذہب کے خلاف ہوا۔

تاریخ سے ان سب کو نکال کر اور اسے انتہائی محدود کرکے زیادہ زور اسلامی تاریخ پر دیا گیا اسلامی تاریخ کا بھی المیہ یہ ہے کہ اسے فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے جو فورا ہی نوجوانوں کے ذہن کو نفرت اور دشمنی سے بھر دیتی ہے تاریخ مسلسل سکولوں سے لے کر یونیورسٹی تک پڑھائی جاتی ہے جو نہ صرف ہمارے ذہن کو گھٹا دیتی ہے بلکہ ہمارے نقطہ نظر کو بھی محدود کر دیتی ہے اور اس کے مطالعہ کے بعد نہ تو ہم ماضی کو سمجھ سکتے ہیں نہ حال کو اور نہ مستقبل کو۔

مذہبی عقائد نے بھی ہماری تاریخ پر خراب اثرات ڈالے ہیں ہماری تاریخ نویسی کی ابتدا مذہب سے ہوئی اس لئے عقیدت کے جذبات کی وجہ سے ہم تاریخی شخصیتوں اور واقعات کا تنقیدی تجزیہ نہیں کر سکتے اور تاریخ میں جوکچھ ہوا ہے اسے عقیدت کے پیمانہ پر ناپ ک بالکل صحیح تسلیم کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ قومیت اور نسل کے نکتہ نظر سے جب تاریخ کو لکھا جاتا ہے تو یہ نہ صرف تاریخی حقیقت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس کے زیر اثر تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے تعصب کے ساتھ ان کو بیان کیا جاتا ہے یہ تاریخ تاریخ نہیں بلکہ قصہ کہانی اور افسانہ ہوجاتی ہے، جس میں تخیلاتی عنصر زیادہ ہوتا ہے اور سچائی کم۔
ہمارے مورخ جس چیز کو نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ تاریخ کا اپنا ایک راستہ ہوتا ہے اپنا بہاؤ ہے اور اسکا اپنا عمل ہے اسلئے ضروری ہوتا ہے کہ تاریخی واقعات کو تاریخی عمل کے پس منظر میں دیکھا جائے عمل کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا جائے کیونکہ جب تاریخ کو قومیت، مذہب، نسل اور ذاتی تعصب کی روشنی میں لکھا جائے گا یا دیکھا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ واقعات کو تاریخ کے بہاؤ اور عمل سے نکال کر اسے تاریخ کی جڑوں سے محروم کر دیا گیا۔ جب واقعات کو کاٹ کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے علیحدہ کر لیا جاتا ہے ان کو ان کی علیحدہ حیثیت میں دیکھا جاتا ہے تو وہ اپنی اہمیت اور حیثیت کھو دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ جب تاریخ کو مختلف مذہبی طریقے اپنے اپنے نقطہ نظر سے لکھتے ہیں تو وہ بھی تاریخ کی سچائی کو متاثر کرتے ہیں اور ان کی عقیدت تاریخی واقعات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کر کے انکی روح اوران کے جوہر کو مجروح کرتی ہے۔

ہماری تاریخ میں ایک اور خطرناک اور زہر میں بجھا ہوا عنصرفرقہ وا ریت کا ہے جو ہم نے آزادی سے قبل ورثے میں پایا سامراج سے جدوجہد کے دوران ہندوستان میں ہندو اور مسلمان فرقہ پرستی کو چند طبقات نے اپنے مفادات کی خاطر فروغ دیا اس ماحول میں مسلمان مؤرخوں نے فرقہ وارانہ فضا میں چند ایسی شخصیات کو بطور ہیرو پیش کیا جو ہندوؤں کی نظر میں ان کے دشمن تھے ۔ ان میں محمد بن قاسم محمود غزنوی اور اورنگزیب قابل ذکر ہیں جو بہت جلد مسلمانوں کی عظیم ہستیاں بن گئیں اور ان کو صرف مذہبی حیثیت سے ابھارا گیا تاریخی حثیت اور تاریخی کردار کو نظرانداز کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ان سے جذباتی لگاؤ بڑھ گیا اور ان کا تنقیدی تجزیہ نہیں ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستانی مورخوں نے اس فرقہ واریت کے نقطہ نظر کو تاریخ نویسی میں جاری رکھا یہاں تک کہ ہندوستان کے نام کی جگہ ” جنوب ایشیا” کی اصطلاح کو فروغ دیا گیا۔ ہمارے نظریاتی مورخوں کی یہ باضابطہ کوشش ہے کہ پاکستان کا ثقافتی اور تاریخی رشتہ ہندوستان کی بجائے مشرق وسطی سے جوڑا جائے۔

ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ تاریخ کو حکمران طبقوں کے مفادات کے لئے استعمال کیا گیا کہ بہت جلد یہ عوام کے لئے غیر دلچسپ علم بن کر رہ گئی کیوں گیس کے دائرے کو صرف با اقتدار طبقے تک محدود رکھا گیا اور اس میں عوام کی سرگرمیوں کا کردار شامل نہیں کیا گیا۔ تاریخ میں ان شخصیات کو ابھارا گیا جنوں نے اپنے اور محدود طبقے کے مفادات کے لئے کام کیا تھا چونکہ ان افراد کو اس بات کی بھی خواہش تھی کہ تاریخ میں ان کے لیے بہتر مقام پیدا کیا جائے اس پر تاریخ کو مسخ کیا اور اپنی شخصیت کو اجاگر کیا۔ اس سلسلے میں ہمارے پیشہ ور مورخوں نے ان کی مدد کی خوشامد میں انہوں نے عوام کو جو تاریخ اور اس کے عمل کے صحیح روح رواں تھے نظر انداز کردیا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ نچلے طبقوں میں نہ تو تاریخی شعور پیدا ہوا اور نہ ہی انہیں اس تاریخ سے کوئی دلچسپی رہی کیونکہ ایسی تاریخ جس میں ان کا کوئی ذکر نہ ہو جو ان کے کارناموں کو فراموش کردے تاریخ میں ان کے لئے کوئی دلچسپی اور کشش باقی نہیں رہی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ انہیں کس طرح ایک ایسی تاریخ پڑھنے کے لیے کہا جائے جس میں ان کے لئے سوائے حقارت کے جذبات کے اور کچھ نہ ہو اور جس میں انھیں جاہل اور ان پڑھ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہو۔

مجموعی طور پر تاریخی شعور کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے سماجی اورمعاشی و معاشرتی اور دوسرے اداروں میں بے حسی کا ایک ایسا جزبہ پیدا ہوا کہ ان میں ایسا کوئی شوق باقی نہیں رہا کہ وہ تاریخی دستاویزات کو محفوظ رکھیں اور اپنے اداروں کی تاریخی تشکیل کے شواہد جمع کریں اس لئے اگر تومور خ ان اداروں کی تاریخ لکھنا چاہیے اسے ہ تو ان کے بارے میں کوئی مواد ملے گا اور نہ ہی ان کی دستاویزات ترتیب کے ساتھ پائی جاتی ہیں مثال کے طور پر پولیس فوج عدلیہ اور محکمہ زراعت کی تاریخ لکھنے کا اگر کوئی منصوبہ بنایا جائے شہادتوں کی کمی یا نایابی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔ ان تمام اداروں میں کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ اپنی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھے اور اپنے کارناموں کو محفوظ کریں
Read 5 tweets
Nov 25, 2023
بہ نام وطن​
کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم
وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم
وہی تم ، لائق صد تذکرۂ و صد تقویم​
تم وہی دُشمنِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں​
تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی​
آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو
حَلَفِ ذہن و وفاداریِ جاں مانگتے ہو​
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو​
مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا​
تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے​
علم نے خونِ رگِ جاں‌دیا اور نہ مَرا
علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا​
علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسوُ​
وادیِ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا​
تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
کس کے خرمن کے لیے شعلہء اسرار بنوں​
کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں​
صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے​
یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو​
کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک​
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے​
بہ وفادارئ رہ وار و بہ تکریمِ علم
بہ گہربارئ الفاظ صنا دیدِ عجم
بہ صدائے جرس قافلئہ اہلِ قلم
مجھ کو ہر قطرہء خُون ِ شُہدا تیری قسم​
منزلیں آکے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جُھک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے​
آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ ممُسلمان کے دوست
نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست​
تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں​
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں​
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پُھوٹیں گی​
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم​
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے​
ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے
ایک اک خوشئہ گندم تمہیں کیا کہتا ہے
ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے​
محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟
بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
تمغئہ مکر سے سینوں کو سجانے والوں
کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں​
دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جُھکا کر آؤ​
کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
مصر میں جلوہء یوسف کی دکاں جلتی ہے
عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے​
چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح​
صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں​
اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں​
تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا​
اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ​
اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی​
اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ تمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں​
اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے​
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے​
رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں​
ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے​
عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول
طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول​
آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی​

1957​
مصطفیٰ زیدی
شہر آذر
@UnrollThread
Unroll please
Read 4 tweets
Nov 17, 2023
کیوں نہیں کہتے،
#AbsolutelyNot
کیوں نہیں کہتے، "لا"
کیوں نہیں کہتے کہ ہم کوئی غلام ہیں یا بھڑ بکریاں ہیں جیسے ہانکو گے ویسے ہی قطار بنا کر چلتے رہیں گے،
کیوں انکار نہیں کرتے، کیوں، کیوں کیوں،
آپ کو یہ تو پتہ ہے کہ ستائیس سال عمران خان آپ سےکیا کہتا رہا،
مگر جو ہیں کہا وہ سنو،
👇 Image
وہ بین السطور آپ سے یہی کہتا رہا کہ،
تم کیسی قوم ہو؟؟!

نہ تمہارے فیصلے تمہارے ہاتھ میں ہیں

نہ تمہارے معاملے تمہارے اختیار میں ہیں

تم جو فصل اُگاتے ہو اُس کے حقوق کسی اور کے نام ہوتے ہیں

تم جو کپڑا بنتے ہو اس کی قیمت کسی اور کی جیب میں جاتی ہے،
👇 Image
تم پسینہ بہاؤ، تو کسی اور کو اِس کا صلہ ملے

تم لہو ٹپکاؤ، تو کسی اور کو اِس کا خراج نصیب ہو

تمہاری جانوں کے نذرانے کسی اور کے دَر پر سجائے جاتے ہیں

تمہارے ’شہیدوں‘ کے لاشے استعمار کی چوکھٹ پر نیلام ہوتے ہیں

تمہاری محنت و قربانی سے کسی اور کے شب و روز سنورتے ہیں
👇 Image
Read 5 tweets
Oct 31, 2023
کِتھے نیں !!!!!!!!!!!! ایران وغیرہ
مر گئے جے !!!!!!!!!! انسان وغیرہ

او آئی سی نُوں !!!!!!!! ہوش کراؤ
ویکھ لوے !!!!!!!!! نقصان وغیرہ

سعودی عرب !!!!!!!!!! وغیرہ ویکھو
لبھو !!!!!!!!!!!!!!!!!!! پاکستان وغیرہ Image
سوں گئی اے !!!!!!!!!! یونائٹڈ نیشن
توڑ کے سارے !!!!!!!!!!!!! مان وغیرہ

مَلبے تَھلے !!!!!!!!!!!!!!! دَبے گئے جے
بالاں دے !!!!!!!!!!!!!!! ارمان وغیرہ

30 ملکاں دی !!!!!!!! فوج نوں پُچھو
آن, بان تے !!!!!!!!!!!!!!! شان وغیرہ
ہور نہ اُنگل !!!!!!!!!!!!!!!! چُک تو ناصر
مارن گے !!!!!!!!!!!!!!!!! دربان 😭😭😭
🇵🇸🇵🇰🇵🇸.
Read 4 tweets
Oct 27, 2023
آج سوشل میڈیائی دیوانوں سے یا بقول شخصے دہشتگردوں سے بات کرنے کی جسارت کر رہا ہو تھریڈ کچھ لمبا بھی ہو سکتا ہے،
مگر وقت کا تقاضا ہے کہ یہ بات میں ضرور کروں
دیکھیں حالات بہت خراب سہی
مگر ہم نےمایوس بالکل بھی نہیں ہونا،
دُنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں
#ReleaseShafqatCh
@shafqatmm1
👇
آپ کو یقین نہیں آتا تو شمالی امریکہ کے ملک چلی میں سال 2010 میں سان جوز کی سونے تانبے کی کان میں پھنسے 33 مزدوروں سے پوچھ لیں. وہ زمین میں 2300 فٹ نیچے تھے. سات لاکھ میٹرک ٹن کا ملبہ ان کی زندگی اور بچاو ٹیموں کے درمیان تھا،
@shafqatmm1
#ReleaseShafqatCh
👇
ماہرین کان کنی و ارضیات نے تب کہا ان کے بچ جانے کا چانس صرف 1 فیصد ہے.

اس ایک فیصد چانس کیلئے چلی کے سارے محکمے دنیا کی مشہور ماہر تنظیمیں اور امریکہ کی ناسا پہنچ گئے. تین مختلف مقامات سے ڈرلنگ شروع ہوئی. ناسا نے ایک کیپسول ڈیزائن کیا،،
@shafqatmm1
#ReleaseShafqatCh
👇
Read 7 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us!

:(