Muhammad Naeem Gill Profile picture
Sep 18, 2020 26 tweets 11 min read Read on X
1657ء
میں شاہجہاں کے مرنے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی۔تبھی چاروں شہزادوں نے بادشاہ بننے کی تیاری کر لی۔شاہجہاں کو معلوم تھا کہ اقتدار کے لیے بیٹوں کے درمیان جنگ روکنا تقریباً ناممکن بات ہے۔ تاہم وہ کسی بھی قیمت پر جنگ کو روکنا چاہتے تھے۔ اسی لیے شاہجہاں نے اپنی سلطنت کو
4 حصوں میں تقسیم کر دیا۔ شاہ شجاع کو بنگال دیا گیا، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ ملا، مرادبخش کو گجرات دیا گیا اور دارا کے حصہ میں کابل اور ملتان آیا۔

دارا شکوہ کو چھوڑ کر سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن وہ بادشاہ کے پاس ہی رہا۔ شجاع ، مرادبخش اور اورنگ زیب
فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے، دارا کی
کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔ طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے جس سے تینوں بھائی ان سے بدظن ہوگئے
دارا وقت کے ساتھ ساتھ اتنا مضبوط ہو گیاکہ اس نے شاہی دربار میں شاہجہاں کےقریب ہی اپنا تخت بنوا لیاوہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا دارا کو سب سے زیادہ خوف اورنگزیب سے تھااس نے ایک نہیں کئی مرتبہ اورنگزیب کےخلاف فرمان صادر کیا۔اسی لیےدونوں کےدرمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی
۔دارا نے اپنے والد اور باقی بھائیوں کے درمیان نفرت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ بھائیوں کی طرف سے آئے پیغامات شاہجہاں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ تینوں سازش کر رہے ہیں غور کرنے والی بات یہ کہ خود شاہجہاں کو دارا شکوہ پر اعتماد نہیں تھااسے لگتا تھا کہ دارا اسے
زہر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

آخر 29مئی 1658ء کودارا شکوہ اور اورنگ زیب کے مابین سامو گڑھ پر جنگ کی نوبت آ پہنچی۔ یہ مقام آگرہ شہر سے دس میل دور ہے۔آج کل فتح آباد کہلاتا ہے۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی،مراد بخش سے اتحاد کر لیا تھا۔ دونوں کی افواج میں چالیس ہزار سپاہی شامل تھے
دارا کی فوج ساٹھ ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔

اس دوران شاہجہاں نے ایک کے بعد ایک کئی فرمان دارا کو بھیجے۔ سب میں ایک ہی پیغام تھا کہ وہ جلدبازی نہ کرے اور اپنے بیٹے،سلیمان شکوہ کا انتظار کرے جو کمک لے کر آ رہا تھا۔ والد کی فکر سے بے پرواہ دارا نے ایک ہی جواب لکھا
میں اورنگ زیب اور مراد بخش کو ہاتھ پاوں باندھ کر آپ کے سامنے جلد پیش کروں گا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔‘‘ دارا نے بہرحال اورنگ زیب کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی منصوبہ بندی کی تھی۔

دارا نے پہلی قطار میں بھاری توپیں لگائیں جنہیں لوہے کی زنجیروں سے باندھ دیا گیا
اس کے پیچھے اونٹوں کی قطار تھی جن پر ہلکا بارود لدا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے شاہی فوج کے پیادہ پا دستے تھے۔ اورنگ زیب اور مراد بخش نے بھی تقریبا اسی طرح کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کچھ توپ خانے اورنگ زیب نے چھپا کر رکھے تھے۔

جنگ شروع ہوئی
دارا کی توپوں نے پہلے حملہ شروع کیاجس کا جواب اورنگ زیب کی توپوں سے ہی دیا گیالیکن کچھ ہی دیر میں تیز بارش ہونے کی وجہ سےتوپیں خاموش ہو گئیں بارش تھمتے ہی توپیں پھر گرجنے لگیں۔دارا جنگ کے دوران انتہائی فعال نظر آیا۔وہ چاروں سمت گھوم کر اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جوش بڑھا رہا تھا
دارا اپنے خوبصورت ہاتھی پر سوار تھا۔وہ دشمنوں کی توپوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا ارادہ کسی بھی طرح اورنگ زیب کو قابو میں کرنے کا تھا
جلد ہی دارا کے ارد گرد لاشوں کا انبار لگ گیااس کی فوج پر بار بار حملہ ہو رہا تھاوہ تب بھی بےخوف حکم دے رہا تھاحملے میں شدت دیکھ کر توپ کو زنجیروں
سے آزاد کر دیا گیالیکن اس کی وجہ سے مخالف فوج پہلی قطار توڑنے میں کامیاب ہوگئی توپیں ہٹتےہی دونوں جانب کی فوجیں آپس میں بھڑ گئیں اور جنگ خوفناک ہوتی چلی گئی یہ بات قابل غور ہے کہ داراجنگ کی مہارت میں اورنگ زیب سے کمزور تھاجنگ کے دوران دارا کی فوج میں ہم آہنگی کا فقدان بھی نظر آیا
اس دوران آسمان سے تیر وں کی بوچھار ہونے لگی ، لیکن دس میں سے دو ہی تیر نشانے پر لگ رہے تھے۔ باقی زیادہ دور نہ پہنچ پاتے۔ تیروں کے بعد تلواریں نکال لی گئیں اور جنگ کا چہرہ مزید خوفناک ہو گیا۔جوش کے ساتھ آگے بڑھتے دارا نے آخر دشمن کی توپوں کو بھی
پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ دارا نے اورنگ زیب کو پکڑنے کی کافی کوششیں کیں ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔اورنگ زیب زیادہ دور نہیں تھا۔ دارا جانتا تھا کہ جنگ اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب وہ اورنگ زیب کو پکڑ لے یا اسے مار ڈالے۔ لیکن دارا کی بدقسمتی کہ
اسے پہلی بری خبر بائیں جانب سے آئی۔ اس کے بائیں جانب کا مورچہ کمزور پڑ رہا تھا۔ تبھی اسے اپنے سرداروں سے پتہ چلا کہ بائیں جانب مامور فوج کے سالار،رستم خان اور راجا چھترسال مارے جا چکے ۔اس کے بعد ایک اور سالار،رام سنگھ روتیلا نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی گھیرا بندی کو
توڑ دیا
اب دارا شکوہ نے اورنگزیب کی توپوں کو پیچھے دھکیلنے کا خیال چھوڑ دیا۔وہ بائیں جانب بڑھا اور زبردست جنگ کے بعد دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس دوران راجا روتیلا نے زور دار جنگ کرتے ہوئے شہزادہ مراد بخش کو زخمی کر ڈالا۔مراد چاروں طرف سے شاہی
فوج سے گھر گیا لیکن اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اس وقت ایک تیر براہ راست روتیلا کو لگی اور وہ وہیں چل بسا۔

خلیل اللہ خان کا بدلہ

اب جنگ جیتنے کی صرف یہ صورت تھی کہ کسی طرح اورنگ زیب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔لیکن ایک دھوکے کی وجہ سے دارا یہ کام بھی نہ کر سکا
اس نے ایک ازبک سپہ سالار،خلیل اللہ خان کو دائیں جانب کے محاذ پر کھڑا کیا تھا۔تقریباً بیس ہزار سپاہی اس کے ماتحت تھے۔اس فوج نے اب تک جنگ میں سرگرم حصہ نہیں لیا تھا ۔خلیل اللہ دارا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وقت آنے پر وہ حملہ کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا
وجہ یہ کہ وہ درپردہ شہزادہ اورنگ زیب سے جا ملا تھا۔

فرانسوا برنیئر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ چند سال پہلے داراشکوہ نے معمولی غلطی پر خلیل اللہ خان کی جوتوں سے پٹائی کرائی تھی۔ خلیل اللہ اپنی اس بے عزتی کو کبھی نہ بھول پایا۔اب اس نازک گھڑی میں خلیل اللہ نے اپنی
بے عزتی کا بدلہ دھوکا دے کر لے لیا۔خلیل اللہ نے بہانہ بنایا کہ اس کی فوج بعد میں حملہ کرے گی۔اس کا انداز ایسا تھا کہ دارا کو بالکل شک نہ ہوا۔

دارا ویسے بھی خلیل اللہ کی فوج کے بغیر بھی جنگ جیت سکتا تھا۔خلیل اللہ کو بھی اس بات کا اندازہ تھا۔ اس واسطے دارا کی
شکست یقینی بنانے کے لیے اس نے اپنے محاذکو چھوڑ کر کچھ ساتھیوں کو ساتھ لیا اور دارا کے قریب جا پہنچا۔ دارا اس وقت اپنی سپاہ سمیت مراد بخش کو پکڑنے آگے بڑھ رہا تھا۔

دارا کے قریب جا کر خلیل اللہ نے کہا’’مبارک باد حضرت سلامت، الحمد للہ، آپ خوش رہیں
آپ کی صحت ٹھیک رہے۔ جیت آپ کی ہی ہوگی، لیکن میرے سرکار آپ اب بھی اس بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ خدا نہ کرے اتنے سارے تیروں میں سے کوئی تیر یا بارود کا گولہ آپ پر گرا تو کیا ہوگا؟
خلیل اللہ نے کچھ توقف کے بعد دارا سے کہا ’’ سرکار جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوں اور محصور مراد بخش کو فرار ہونے سے قبل گرفتار کرلیں۔‘‘

دارا خلیل اللہ کی باتوں میں آ گیا ۔وہ فوری طور پر جوتیاں پہنے بغیر ہی ننگے پاؤں ایک گھوڑے پر جا بیٹھا۔پندرہ منٹ بعد اس نے
خلیل اللہ خان کے بارے میں معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو جا چکا۔اب دارا کو احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اس دوران ہاتھی پر دارا شکوہ کو نہ دیکھ کر شاہی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مارا گیا ہے۔اس افواہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا
چند منٹ میں شاہی فوج کا ہر سپاہی اورنگزیب کے خوف سے بھاگنے لگا۔ اورنگ زیب اب بھی اپنے ہاتھی پر سوار تھا۔ اگلے چند لمحوں میں جنگ کا پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ دارا کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ بعد میں اسے پکڑ کے قتل کردیا گیا
یوں بظاہر ایک عالم فاضل اور صوفی مزاج شہزادہ اپنے ٖغرور اور بدمزاجی کی وجہ سے نہ صرف تخت وتاج حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ اپنی زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھا

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Muhammad Naeem Gill

Muhammad Naeem Gill Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @MNA_313

Sep 14, 2020
🤔بیگمات کی تبدیلی🤔

عون چوہدری کی بیوی فلمسٹار نور جوکہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی مریدنی تھی۔ عمران نیازی جو کہ عون چوہدری کے دوست ہیں عون چوہدری کی بیوی فلمسٹار نور نے ہی عمران نیازی کو بشریٰ بی بی سے متعارف کروایا۔ اور پھر عمران نیازی نے بشریٰ بی بی کی خاور مانیکا
مانیکا سے طلاق کروا کر شادی کر لی۔ اسی دوران عون چوہدری کو بشریٰ بی بی کی بیٹی کی سہیلی پسند آ گئی عون چوہدری نے فلمسٹار نور کو طلاق دے کر بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی بیٹی کی کلاس فیلو اور سہیلی کے ساتھ شادی کر لی۔ جس فلمسٹار نور کو عون چوہدری نے طلاق دی اس نور کے
ساتھ زلفی بخاری نے شادی کر لی۔ پھر بشریٰ بی بی عرف پنکی کی فرمائش پر عون چوہدری نے بشری بی بی کی بیٹی کی کلاس فیلو کو طلاق دے دی جس کی شادی بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا نے شادی کر لی جو تاحال قائم ہے۔ عون چوہدری ایک بار پھر چھڑا ہو گیا مگر اس دوران زلفی بخاری کا
Read 5 tweets
Sep 3, 2020
یہ ہوتا ہے انصاف
کیلیفورنیا میں ایک لڑکا ۔ ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔

جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا "تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟
"بریڈ اور پنیر کا پیکٹ" لڑکے نے اعتراف کرلیا۔

"کیوں؟"

"مجھے ضرورت تھی" لڑکے نے مختصر جواب دیا۔

"خرید لیتے"

"پیسے نہیں تھے"

"گھر والوں سے لے لیتے"

"گھر پر صرف ماں ہے۔ بیمار اور بے روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"

"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"
"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"

"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"

"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ نہیں کی"

جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔

"چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے۔
Read 7 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us!

:(