جانوروں کی ایک عظیم ہجرت۔

افریقہ وسیع جنگلات، میدانوں، دریاؤں، صحراؤں اور پہاڑوں کی سرزمین ہے افریقی ملک تنزانیہ میں دنیا کا سب سے بڑا میدان سیرینگیٹی ( Serengeti) پایا جاتا ہے۔ گائو ہرن اور زیبرا لاکھوں کی تعداد میں یہاں گھاس پھوس چرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ Image
ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ گائو ہرن اور 50000 سے زائد زیبرے ایک ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔ ان کی ہجرت کا مقصد تازہ گھاس اور پانی کا حصول ہے اور یہ ہمیشہ بارشوں کا پیچھا کرتے ہیں یعنی جہاں جہاں بارشیں برستی ہیں یہ جانور لاکھوں کی تعداد میں اس مقام کا رخ کرتے
ہیں۔ ہمیں یہ تو سمجھ آگئی کہ ہجرت کس لیے کی جاتی ہے مگر آگے چل کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ ہجرت کتنی پر خطر اور صدموں سے بھرپور ہے۔ تنزانیہ سے لیکر کینیا تک ہر سال یہ جانور بھاگتے رکتے چلتے 500 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں اور اس سفر کے دوران یہ مختلف جنگلوں
میدانوں اور دریاؤں سے گزرتے ہیں۔ تعداد میں لاکھوں ہونے کی وجہ سے شکاری جانوروں کے لیے بھی یہ نادر موقع ہوتا ہے جو ہر سال اس ہجرت کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ اگر بات کی جاہے شیروں کی تو ان کا مخصوص علاقہ ہوتا ہے جس میں شیرنیاں گھات لگا کر آنے والے مہمانوں
کا استقبال کرتی ہیں۔

انگریزی میں ایک فقرہ بڑا مشہور ہے (safety in numbers) مطلب جتنی تعداد زیادہ ہوگی بچنے کا موقع بھی زیادہ ہوگا۔ یہ جانور برسات کے مہینے میں کسی ایسے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں وافر چارہ اور پانی دستیاب ہوتا ہے۔ موقعے کی نزاکت کے
تحت یہ جگہ ملاپ کے لیے بہترین ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ لاکھوں مادہ گائو ہرن ایک ساتھ ملاپ کرتی ہیں اور عین ایک ساتھ بچے جنتی ہیں۔

ہجرت کرتے بچتے بچاتے یہ جانور تنزانیہ اور کینیا کی سرحد پر بہتے دریا مارا (Mara) پر پہنچتے ہیں جس کا بہاؤ کافی
تیز ہوتا ہے اور کنارہ کافی ڈھلوان نما ہوتا ہے اس دریا کو خونی دریا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دریا میں سینکڑوں دریائے نیل کے مگرمچھ ( Nile crocodile) پہلے سے گھات لگاہے ہوتے ہیں۔

دریا کے دھانے پر پہنچ کر پہلا جانور ہمت کر کے پانی میں چھلانگ لگاتا ہے تو پھر
سارا ریوڑ اس کی دیکھا دیکھی پانی میں کود پڑتا ہے اتنی تعداد میں جانوروں کے کودنے سے جانور ایک دوسرے کے اوپر گرنے سے زخمی ہو جاتے ہیں اور جو تیرتے ہیں ان میں سے کچھ مگر مچھوں کا شکار اور جو دریا عبور کرتے ہیں ان کے لیے آگے ( surprise) شیر موجود ہوتے ہیں۔ ان سب
خطروں کے برعکس اس قدر زیادہ تعداد میں یہ جانور کچھ ہی جانیں گنوا کر اپنی منزل کینیا کے میدانوں میں پہنچتے ہیں۔

مارا دریا میں ان کی لاشیں پھیل جاتی ہیں جن کو مگر مچھ کھاتے ہیں مگر ہزاروں کی تعداد کو ٹھکانے لگاتے ہیں قدرت کے چمار ( گدھ)۔
ذندہ بچنے والے جانور میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور جو مادائیں حمل سے ہوتی ہیں وہ لاکھوں کی تعداد میں ایک ہفتے کے اندر بچے پیدا کر دیتی ہیں اس کا فاہدہ یہ ہوتا ہے کہ کم سے کم بچے شکاریوں کے ہاتھ لگتے ہیں اور ان کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ جانور کچھ مہینے
اسی میدان میں رہتے ہیں جب تک بچے مکمل طور پر خود کفیل نہ ہو جاہیں پھر دوبارہ سے ان کی ہجرت تنزانیہ سیرینگیٹی کی طرف ہوتی ہے جہاں سے ان جانوروں نے آغاز لیا تھا۔ یہ عظیم ہجرت ہزاروں سالوں سے ایسے ہی جاری ہے اس میں کوہی فرق نہیں آیا اپنی نسل کو بڑھانے اور
گوشت خور جانوروں کو خوراک کی فراہمی کے لیے اللہ نے یہ قانون بنایا ہے۔
سبحان اللہ

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK

ہمارا فیس بک گروپ جوائن کریں ⁦👇👇
facebook.com/groups/7591466…

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with دنیـــائےادبــــــ

دنیـــائےادبــــــ Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @AliBhattiTP

Mar 18, 2022
سہیل بن عمرو حدیبیہ میں سرکار ﷺ کے ساتھ صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے آئے تھے تب یہ حضور ﷺ اور دین اسلام کے بہت بڑے دشمن مانے جاتے۔ رویہ میں خاصی سختی تھی۔ معاہدہ جب لکھا جانے لگا تو(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پر جھگڑا کھڑا کر دیا۔ پھر (محمد رسول اللہ) لکھنے پر جھگڑا۔ پھر اپنے
لڑکے ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹانے پر تنازع کھڑا کر دیا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہر بات مانتے رہے۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زچ گئے کہ آپﷺ جھک کر ان لوگوں کی شرائط کیوں مان رہے ہیں۔ لیکن نگاہ نبوتﷺ بڑی دورس تھی۔ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں کوئی فتح حدیبیہ کی فتح سے بڑھ کر نہیں ہوئی لوگ جلد بازی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بندوں کی طرح جلد بازی نہیں کرتا۔ فرماتے ہیں کہ میں نےاپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حجۃ الوداع میں
Read 8 tweets
Mar 17, 2022
خلیفہ عمر بن عبد العزیز
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔ پادری نے لکھا ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی
دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی
سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔ دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی
Read 17 tweets
Dec 25, 2021
قائدِ اعظم کی علالت اور وفات
مارچ 1945ء میں قائددہلی میں بیمار ہوئے تو ان کا علاج 6انڈر ہل روڈ کے ڈاکٹر البرٹ نے کیا ۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں صحت یاب ہو کر قائد پھر بمبئی چلے گئے ان کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں تھی ۔ ان کی کھانسی میں اضافہ ہونے لگا
اور حرارت بھی بڑھنے لگی ۔ ایک طرف بابائے قوم کی ذات اور صحت تھی تو دوسری طرف نومولود ریاست کے ناختم ہونے والے مسائل ۔ قائداعظم نے اپنی پروا کیے بغیر شب و روز مملکت خداداد کے لئے وقف کر دیے ۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ذاتی فزیشن ڈاکٹر رحمن سے معائنہ کرواتے۔ ڈاکٹر
نے دوائیاں تجویز کیں جن کے بارے میں کافی جرح کے بعد ڈاکٹر کی تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ مجھے ملیریا نہیں ہے مجھے کام کی کثرت نے نڈھال کر رکھا ہے ۔ اس کے لئے آرام کی ضرورت ہے، مگر میں آرام نہیں کر سکتا۔ میں اپنی جسمانی طاقت کی کان کھود کر توانائی کا آخری اونس تک ڈھونڈ نکالوں
Read 25 tweets
Dec 18, 2021
اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغربی دنیا نے جہاں دیگر سائنسی علوم و فنون کی طرف پیش رفت کی تو وہیں میڈیکل سائنس کے فروغ کے لئے بھی نئے کالجز اور یونیورسٹیز قائم کی گئیں،جن میں انسانی اجسام کو بطور تجربہ کے استعمال کیا جاتا اور ان کی چیڑ پھاڑ کر طب کے طالب علموں کو تعلیم دی جاتی،
جسے "ڈسیکشن"کہا جاتا تھا۔اس کام کے لئے ان قیدیوں کے جسم تختۂ مشق بنائے جاتے تھے جنہیں سرکاری طور پر سزائے موت کی نوید مل چکی ہوتی۔ قیدیوں کو اپنی موت سے زیادہ اس چیز کا غم ستائے رکھتا کہ مرنے کے بعد نہ جانے ان کے جسموں پر کیا بیتے گی اور کس قسم کے تجربات ان پر
آزمائے جائیں گے۔یہ طبع آزمائی بڑے بڑے تھیٹرز میں سینکڑوں آنکھوں کے سامنے کی جاتی جسے دیکھنے کے لئے لوگ کسی قدر اہتمام سے شریک ہوتے مگر دشواری تب پیش آنے لگی جب جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد گھٹنے لگی اور کالجز کے ذمہ داران کو اس مسلئہ کا شدت سے احساس ہوا۔
Read 10 tweets
Jul 20, 2021
ایک گائے راستہ بھٹک کر جنگل کی طرف نکل گئی۔ وہاں ایک شیر اس پر حملہ کرنے کیلئے دوڑا۔ گائے بھاگنے لگی ۔ شیر بھی اُس کے پیچھے دوڑتا رہا۔ گائےنے بھاگتےبھاگتےبالآخر ایک دلدلی جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ شیر نےبھی اس کے پیچھے چھلانگ لگادی لیکن گائے سے کچھ فاصلے پر ہی دلدل میں پھنس
گیا۔ اب وہ دونوں جتنا نکلنے کی کوشش کرتے دلدل میں اُتنا ہی پھنستے جاتے۔
بالآخر شیر غصے سے بھُنَّاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ بدتمیز گائے! تجھے چھلانگ لگانے کیلئے اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی۔ کوئی اور جگہ ہوتی تو میں تجھے چیر پھاڑ کر کھاتا اور صرف تیری جان جاتی، میں تو بچ جاتا لیکن اب تو
ہم دونوں ہی مریں گے‘ گائے ہنس کر گویا ہوئی:’’جناب شیر! کیا آپ کا کوئی مالک ہے شیر مزید غصے سے تلملاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ تیری عقل پر پتھر! میرا کہاں سے مالک آیا؟ میں تو خود ہی اس جنگل کا بادشاہ ہوں، اس جنگل کا مالک ہوں گائے کو پھر ہنسی آگئی، کہنے لگی: ’’بادشاہ سلامت ! یہیں پر
Read 7 tweets
Jul 18, 2021
كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا، یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔ شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت
كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا. كسان كے جانے کے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا…. اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و
صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔ اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان
Read 6 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us!

:(