نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لئے ہوئے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کے پیچھے جو مطالبہ ہے وہ اب اتنا مخفی نہیں رہا سبکو پتہ نواز شریف کیا کہہ رہے ہیں کیوں کہہ رہے اور کسکو کہہ رہے ہیں سوال یہ ہے کہ نواز شریف سب کچھ جانتے بوجھتے، اس ملک کی تاریخ کو سمجھتے ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
1
نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں گفتگو کا آغاز وہاں سے کیا جہاں سے وقفہ شروع ہوا تھا۔ انکے خطاب کا سب سے اہم جملہ یہ تھا ہمارا ہدف عمران خان نہیں بلکہ انکو لانے والے ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کروانے والے ہیں نواز شریف نے اپنے عزائم ڈھکے چھپے نہیں رکھےکسی قوت سے خوفزدہ نہیں ہوئے 2
پوری قوت سے وہ بات کہہ دی جس کو سننے کو شاید بہت سے لوگ منتظر تھے جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بات بھول چوک میں ہو گئی اور معاملات کسی خفیہ میٹنگ میں طے ہو رہے ہیں وہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ نہ نواز شریف نے کسی کو میٹنگ کے لیے بھیجا ہے نہ اب وہ خفیہ میٹنگز کے قائل نظر آتے ہیں
3
اب وہ جو بات کہتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
نواز شریف تین دفعہ اس ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اقتدار کے تمام راستوں سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ جو شخص تین دفعہ ایک ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہو اس کا تجربہ بہت وسیع ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ بہت جہاں دیدہ ہو چکا ہوتا ہے۔ 4
اس کو اپنے کہے ہوئے ہر لفظ کی اہمیت کا پتہ ہوتا ہے۔ اپنے ہر نعرے کے ثمرات اور مضمرات کا علم ہوتا ہے۔ اپنی خاموشی کے نقصان کا بھی علم ہوتا ہے اور اپنی آواز بلند کرنے سے وابستہ خطرات سے بھی وہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔
5
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی قوت اور نظم کو جانتے ہوئے بھی اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ کیوں ہو گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے کچھ ایسی وجوہات ہیں جن کا سامنا نہ پہلے پاکستان کو ہوا ہے نہ اسٹیبلشمنٹ نے اس طرح کا دور دیکھا ہے۔
6
اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریکیں بلوچستان، کے پی کے اور سندھ میں بہت پرانی ہیں۔ پنجاب سے کبھی اس طرح کی آواز نہیں اٹھی تھی۔ پنجاب ن لیگ کا بھی قلعہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی۔ نواز شریف کو معلوم ہو گیا ہے کہ ن لیگ کا ووٹر اب صرف ان کی اور مریم نواز کی زبان بول رہا ہے۔
7
باقی سارے مفاہمت باز اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ پنجاب سے اس آواز کا اٹھنا اس ملک کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے۔ لوگوں نے جس طرح ووٹ کو عزت دو کی پذیرائی کی ہے یہ نواز شریف کی بہادری کی پہلی وجہ ہے۔ دوسری وجہ حکومت کی کارکردگی ہے۔ اب صورت حال یہ کہ غریب غربت تلے پس رہا ہے۔
8
لوگ بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ معاشی تنزلی اپنے عروج پر ہے۔ عوام کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اداروں کے اپنے نچلے طبقے کے ملازمین اس حکومت کو سرعام کوس رہے ہیں۔
منصوبہ تو یہ تھا کہ ساری خامیوں کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھرایا جائے اور سارے ثمرات کوئی اور سمیٹیں۔
9
لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ رہی سہی کسر میاں صاحب نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ ہمارا ہدف عمران خان ہے ہی نہیں
اب بات عوام پر واضح ہو چکی ہے۔ بدترین معاشی بدحالی کی وجہ سے اب عوام کے غیض وغضب کو بس ایک چنگاری کی ضرورت ہے عوام کا یہ غصہ نواز شریف کی بہادری کی ایک بہت اہم وجہ ہے10
نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے مطالبے کی ایک اور وجہ مولانا فضل الرحمن ہیں مذہبی جماعتیں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے مطابق سیاست کرتی رہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرہ زن نہیں ہوئے لیکن اس دفعہ یہ بھی ہو رہا ہے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
11
اب مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف ایک پیج پر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان پل کا کام مریم نواز کر رہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن شاید واحد طبقہ ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ بھی خوفزدہ رہتی ہے۔ انہیں چھیڑتے ہوئے ڈرتی ہے۔
12
مولانا نے جب پارلیمان کی توقیر کا مطالبہ کرد یا تو یہ قلعہ بھی غیر جمہوری قوتوں سے چھن گیا۔ ان وجوہات کو بیان کرنے کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں سے یکدم کردار ختم ہو جائے گا۔
اس بات میں بہت عرصہ لگے گا ۔ لیکن بقول مولانا ’طبلِ جنگ بج چکا ہے۔‘
13
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جرنیلوں اور خاص طور پر ریٹائرڈ جرنیلوں جیسے اعجاز شاہ وغیرہ کو شائد یہ علم نہیں کہ ان کے سپورٹر صرف مفاد تک ان کا ساتھ دیں گے چاہے وہ سپاہی ہوں افسر جرنیل ہوں غیر ملکی ایجنٹ یا بیرونی طاقتیں
1
سب کے ان جیسے غداروں سے مفادات وابستہ ہیں جب وہ نہ رہے تو ان کی گلی کے کتے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رہے گی اور نہ رہ جاتی ہے تاریخ گواہ ہے
رہی سیاسی رہنماؤں کی کہانی تو وہ ذرا مختلف ہوتی ہے ان کی سپورٹ مفادات کے تابع نہیں ہوتی اس سپورٹ کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا
2
ایسے رہنما سے آپ اقتدار چھین سکتے ہیں قید قتل کر سکتے ہیں غدار کافر بے دین وغیرہ کا شور مچا کے بدنام اور اس رہنما کی یا اس سے وابستہ افراد کی کردار کشی کر سکتے ہیں لیکن اس کی سپورٹ اس کی فالونگ اس کے نظریاتی حلقہ کوکسی طور ختم نہیں کرسکتے
3
عنقریب کیا ہونے جارہا ہے؟
لگتا یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی صورت میں جو سیاسی بندوبست کیا تھا اس کا اختتام انتہائی قریب آن پہنچا ہے۔
1
سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی عرصہ دراز سے چلی آرہی مداخلت کے خلاف اپوزیشن اور خصصوصاً نواز شریف کے سخت اور دو ٹوک موقف نے فوجی اشرافیہ کو حقائق کا سامنا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
2
مملکتِ خداداد میں ایسا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں کہ تاریخ میں پہلی بار پنجاب کے ووٹرز کی جانب سے فوج کی سیاسی مداخلت کے خلاف واضح ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
3
جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کا چار صفحات کا بیان امریکہ میں اربوں روپیہ کے اثاثوں کے جواز کیلئے کافی سمجھا گیا کیوں ؟یہ ملک اور یہ پاک فوج چند لوگوں کی ملکیت ہے '
فوج کے سربراہ ایٹمی پاکستان کے محافظ ہیں
1
ادارہ کی عزت اور وقار کی حفاظت انکا فرض ہے ، وہ خود سے سوال کریں ،کیا ایک ریٹائرڈ جنرل کے اثاثوں کا جواز صرف چار صفحات مناسب جواز ہے
نئے افسران کو آرمی چیف پیغام دیتے ہیں کہ
"آپ ینگ لیڈر ہیں "
نہیں جناب فوجی افسر لیڈر نہیں صرف سپاہی ہوتا ہے ۔خود آپ بھی لیڈر نہیں صرف سپاہی ہیں
2
فوج کے سربراہ کہتے ہیں کہ ملک دشمن قوتیں پاکستان کے استحکام سے خوش نہیں ہم اس بیان سے متفق نہیں ۔پاکستان مستحکم نہیں بلکہ کمزور ہو رہا ہے اور مسلسل کمزور ہو رہا ہے ۔آپ تو خود سعودی عرب گئے تھے کہ قابل ادا رقم کی ادائیگی میں مہلت مل جائے
3
جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب آپ نےہماری اچھی بھلی چلتی حکومت کورخصت کروایاملک وقوم کواپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھایاججوں سےزورزبردستی کےفیصلےآپ نےلکھوائےانصاف کرنےکےجرم میں شوکت عزیزصدیقی ،قاضی فائزعیسی کےخلاف تمام اقدامات آپکی ایماءپرکئےگئے.باجوہ صاحب جواب آپکودیناہوگا.
1
جنرل قمرجاوید باجوہ یہ سوغات آپکی دی ہوئی ہے.آپ اس قوم کی ساری بیماریوں کےذمہ دارہیں.
آپ نےپاکستان کواپنی اناکی بھینٹ چڑھوایا.
ججوں سےزبردستی فیصلےآپ نےلکھوائے.
ووٹ چوری آپ نےکروائے.غریب بھوک سےمررہےہیں.
2
جنرل قمرباجوہ جواب آپکودیناہوگا.انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ہار کر ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے والے غدار نہیں,غدار کون ہے,بے نظیر بھٹو, ولی خان, نواز شریف,.غدار کون نہیں ہیں, آئین توڑنے والے غدار نہیں ہیں,پاکستان توڑنےوالے غدار نہیں ہیں,
3
کیا پاکستان میں کبھی ایسا وزیر اعظم آ سکتا ہے ؟
سواۓ معراج خالد کے)
سشیل کوریلا
"سشیل کوریلا" ایک ایسا شخص تھا جو 2014ء میں نیپال میں ہونے والے اتخابات میں کامیاب ہوا اور اس کے نتیجے میں 2014ء میں نیپال کا وزیر اعظم بن گیا۔ یہ انڈیا کی مشہور زمانہ ایکٹریس منیشا کوریلا کے چچا تھے1
وزارت عظمی سمبھالنے کے پہلے دن جب وہ اپنے آفس پہنچا تو انتہائی سستی قیمت کے کپڑے پہن رکھے تھے، لباس کی مجموعی قیمت دوسو روپے سے بھی کم تھی۔ سر پر انتہائی پرانی ٹوپی اور پیروں میں کھردری سی چپل
وزیراعظم کے آفس میں ملازم ویٹر نائب قاصد کے کپڑے بھی شیشیل کورالا سے بہت بہتر تھے۔
2
منتخب وزیراعظم صاحب کو ان کے دفتر لے جایا گیا دفترکے باہر چپل اُتاری اور ننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔
پرائیوٹ سیکریٹری اور دیگر عملے کے اوسان خطا ہوگئے کہ یہ شخص کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ لے کر، ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بن گیا ہے ؟
3
رانا ثنااللہ نے فیصل آباد ایک جلسے میں کہا تھا کہ اسے معلوم ہے کیسے کچھ فوجی افسران جرنیل بننے اور ترقی پانےکے لئے بیویاں پیش کرتے ہیں ۔
1
اسمبلی کے فلور پر اس نے یہ کہا جب ایک سابق فوجی وزیر کے ساتھ بات ہوئی اور ساتھ اس نے راشد قریشی کا نام لیا کہ بندہ جرنیل ریٹائر ہو سکتاہے اگر بیوی خوبصورت ہو۔
راشد قریشی مشرف کی انیکسی میں رہتا تھا۔ مشرف اسکی بیوی اور بیٹی دونوں کے ساتھ سوتا تھا۔
2
ایک دفعہ بیگم پرویز مشرف ناراض ہو کر کراچی چلی گئیں اور مشرف کو جنرل راشد قریشی کو انیکسی سے نکالنا پڑا۔
راشد قریشی در اصل برگیڈئیر تھا اور اسکی بیوی لیفٹیننٹ جنرل ارشد عظیم کی بیٹی ہے، جب منگلا سے آئی ایس پی آر آیا تو مشرف کی انیکسی میں ٹھہرا۔
3