دین اسلام کی یہ دونوں مشعلیں کتاب وسنت قیامت تک روشن اورہر قسم کی آندھیوں اور جھگڑوں سے محفوظ رہیں، تاکہ ہر دور میں اللہ کی حجت قائم رہے اور قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت صادق رہے: ’’وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَأَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ أٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ‘‘۔ 👇
(آل عمران:۱۰۱) ’’اور تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر تو پڑھی جاتی ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا رسول ہے‘‘۔ فرمانِ نبویؐ میں اس حقیقت کا اظہار اس طرح فرمایا گیا ہے: ’’ ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ‘‘۔(۱) ’’میں نے تم میں دوچیزیں چھوڑی ہیں 👇
جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب اللہ اور دوسری اس کے رسول (a)کی سنت‘‘۔ قرآن کریم اور حدیثِ نبویہ l الغرض اس کا کوئی امکان نہیں کہ قرآن وحدیث کو ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکے، نہ یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم پر ایمان ہو اور حدیث نبوی سے انکار، 👇
کیونکہ قرآن کریم بار بار اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ حضرت رسول اللہ a کی اتباع میں تمہاری نجات ہے اور آپ a کی نافرمانی تباہی وبربادی کا موجب ہے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
بھاری قرضے سے خلاصی
اللہ تعالی نے ”کلمہ طیبہ“ ”حمد“ اور تسبیح میں بڑی برکت رکھی ہے...بڑی تأثیر رکھی ہے...حضرت علامہ عبدالرحمن الجوزی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:-
حضرت شیخ ابوبکر بن حماد المقری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں...میں نے 👇
حضرت امام معروف الکرخی رحمہ اللہ تعالی سے عرض کیا......حضرت! مجھ پر بہت بڑا بھاری قرضہ چڑھ گیا ہے...حضرت نے فرمایا: میں آپ کو ایسی دعاء بتا دیتا ہوں جس سے اللہ تعالی آپ کا قرضہ اتار دیں گے...آپ 👇
روزانہ سحری کے وقت پچیس بار یہ دعاء پڑھا کریں
لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا، وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً......
حضرت شیخ ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو 👇
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل منافقین کے بارے میں یہ تھا کہ چند معروف منافقین کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی صفوں میں موجود ان منافقین کی نشاندہی تک نہیں کی گئی۔ انہیں الگ کرنے اور معاشرتی طور پر انہیں علیحدہ قرار دینا تو بعد کی بات ہے، اس سے قبل ان کی جو نشاندہی 👇
ضروری قرار پاتی ہے اس کا مرحلہ بھی نہیں آیا۔ جناب نبی اکرمؐ نے صرف چودہ منافقین کے نام بتائے اور وہ بھی صرف حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کو، اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان میں سے کسی کا نام اور کسی کو نہیں بتائیں گے۔ حتٰی کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے انہیں کئی بار کرید کر پوچھنا چاہا مگر 👇
حضرت حذیفہؓ نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو بھی ان میں سے کسی منافق کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ جس پر حضرت عمرؓ نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا کہ کسی عام شخص کے جنازے پر اگر حضرت حذیفہؓ موجود ہوتے تو حضرت عمرؓ جنازہ پڑھتے تھے ورنہ یہ سوچ کر جنازہ پڑھنے سے گریز کرتے تھے کہ 👇
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان یہودی ہوجائے، عیسائی ہوجائے، یا مندر میں جائے، بھجن گائے، پوجا پاٹ کرے، گھنٹی بجائے اور بتوں کو سجدہ کرے؛ حالاں کہ ایسی بات نہیں ، آدمی روزہ نماز کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، 👇
قرآن کی تلاوت کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے؛ جب کہ وہ اللہ کو ایک نہ مان رہا ہو، اللہ کے حکم کو نہ مان رہا ہو، قرآن کا مذاق اڑا رہا ہو، سنت نبوی کو حقارت سے دیکھ رہا ہو، متواتر احکام کا انکار کررہا ہو، مثلاً 👇
زکوٰۃ کا انکار کرتا ہو جناب محمد رسول اللہ … کو آخری نبی نہ مان رہا ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا انکار کررہا ہو، آج قادیانی اس کی مثال ہیں ، شکیل بن حنیف اور ان کے ماننے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ، یہ لوگ قرآن وسنت کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ، 👇
قرآنِ مجید کی بے حرمتی کرنے والے کو سزا دینا کس کی ذمہ داری ہے؟
سوال
کوئی شخص نعوذ باللہ قرآنِ کریم کی بے حرمتی کرتا ہے، جلاتا ہے عوام کے سامنے اپنے ہوش و حواس میں ، تو کیا اس شخص کو روکنے کے علاوہ مارنا درست ہے ؟ مثلاً ہمارے ہاں ایک خواجہ سرا نے معاذ الله قرآنِ کریم کو جلایا 👇
تو لوگوں نے اس کو بہت مارا پیٹا ، لوگ کہتے ہیں کہ قانون انصاف نہیں کرتا، گستاخ کو خود عوام کا مارنا درست ہے؟ اسلام کیا کہتا ہے اس کے متعلق ؟
جواب ❤️👇
قرآنِ مجید کی توہین کرتے ہوئے قرآنِ مجید کو جلانا کفر ہے، اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کی اہانت کی نیت سے قرآنِ کریم کو جلا رہا ہو اور اِس حالت میں مسلمان اسے دیکھ لیں تو وہاں موجود ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس کو اس عمل سے روکے، اگر وہ باز نہ آئے تو بزور و طاقت اُسے روکے👇
شوری ممبران / اراکین اسمبلی کے انتخاب کا بہتر طریقہ
استفادہ تحریر: اسلام اور سیاسی نظریات از مفتی تقی عثمانی
آج کل کے ماحول میں انتخابات کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ سمجھتا چاہئے کہ جب کوئی طریقہ عالمگیر طور پر اختیار کرلیا جاتا ہے تو 👇
عام طور پر اس کے خلاف کسی اور طریقے پر غور کرنے کے لئے لوگ تیار نہیں ہوتے اور اس کے خلاف ہر طریقے کو ناقابل عمل قرار دے لیتے ہیں حالانکہ اگر اپنے ماحول کے دباؤ سے آزاد ہو کر سوچا جائے تو وہ ناقابل عمل نہیں ہوتا۔ خود موجود دور کے انتخابات کیلئے مختلف ملکوں میں 👇
مختلف طریقے اختیار کئے گئے ہیں کہیں متناسب نمائندگی کا نظام ہے کہیں دو مرتبہ انتخابات (Second Ballot) کا طریقہ اپنایا گیا ہے کہیں قابل انتقال ووٹ (Transferable Vote) کے مطابق انتخاب ہوتے ہیں، لہٰذا کسی ایک طریقے کو ناگوار سمجھنا درست نہیں ہے۔
مثلاً امیدواری کے بجائے 👇
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے صرف چند ماہ قبل ان کو نجران (یمن) میں گورنر مقرر کرتے ہوئے جو تحریری ہدایات دی تھیں ان کو امام ابو جعفر دیبلی سندھی متوفی ۳۲۲ھ نے ’’مکاتیب النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نام سے اپنے 👇
ایک مجموعہ میں شائع کیا ہے۔ یہ ہدایت نامہ حضرت عمرو ابن حزم کے خاندان میں محفوظ چلا آتا تھا،
👇
ان ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ کسی حاکم کی نگاہ میں کن امور کا اولیت حاصل ہونی چاہیئے اور حاکم کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیئے۔
👇