First vaccine was invented by Edward Jenner in 1796. Smallpox ravaged communities around the world.Third of adults infected with smallpox would be expected to die, & eight out of 10 infants.The 1721 smallpox outbreak in the US city of Boston wiped out 8% of the population. 1/5
There was,however,one genuine cure, as inoculation,or variolation,it involved taking the pus from someone suffering with smallpox & scratching it into the skin of a healthy individual also blowing smallpox scabs up the nose. Practised in Asia Africa & Europe in 18th century.2/5
Edward Jenner was a country doctor working in the small town of Berkeley in Gloucestershire.He had trained in London under one of the surgeons of the day.Jenner’s interest in curing smallpox is thought to be influenced by his childhood experience of smallpox inoculation. 3/5
In 1796 He took some pus from cowpox lesions on the hands of a young milkmaid,scratched it into the skin of eight-year old James Phipps.After a few days of mild illness,James recovered.James did not develop smallpox,nor did any of the people he came into close contact with.4/5
Nevertheless, Jenner realised that his smallpox vaccine – the name derived from the Latin for cowpox, vaccinia – had the potential to transform medicine and save lives. But he also knew he would only halt the disease if he could vaccinate as many people as possible.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
امریکہ کی دوسرے ممالک کی سیاست میں مداخلت پر طوفان بدتمیزی بپا ہے لیکن اسی طوفان میں عمران کا فرار اور قوم کوکسی بتی کے پیچھے لگانا جسمیں وہ کامیاب ہوا عمران ہار کربھاگ گئے اور اپنی خفت اور شرمندگی مٹانے کیلئے اور میں نہیں تو کوئی بھی نہیں کے مصداق ملک کو ایک آئینی بحران میں۔جاری
ڈبودیا امریکہ کے ہی ایک ایکانومسٹ جان پرکنز کی ایک کتاب ۲۰۱۶ میں شائع ہوئی کہ کیسے امریکہ غریب ملکوں اپنے شکنجے میں کستا ہے کیسے اپنی من مانی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں یہ ساری دنیا کو معلوم ہے اور امریکہ کے Tools آئی ایم ایف ورلڈ بنک وغیرہ ان کی کچھ کمپنیاں بھی ہیں۔جاری
جو کام کسی اور ملک کیلیے کریں گے لیکن ہیں ایجنٹ امریکی مفادات کے جسمیں Floor International KBR وغیرہ جیسی کمپنیاں شامل ہیں عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیسے کیا تھا کس نے سفارش کی تھی اور کس خوشی سے جناب وہاں گئے واپسی پر دوسرے ورلڈ کپ جیتنے کا اعتراف کیا ( وہ بھی جھوٹ تھا جاری
منٹو لکھتا ھے کہ میں شدید گرمی کے مہینے میں ھیرا منڈی چلا گیا. جس گھر میں گیا تھا وھاں کی نائکہ 2 عدد ونڈو ائیر کنڈیشنڈ چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رھی تھی. میں نے کہا کہ میڈم دو A/C چل رھے ھیں آپکو سردی بھی لگ رھی ھے آپ ایک بند کر دیں تاکہ آپکا بل بھی کم آئے گا۔
تووہ مسکرا کربولی کہ، "اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے".منٹو کہتے کہ کافی سال گزر گئےاور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کےلیے جانا پڑگیا.شدید گرمی کاموسم تھاصاحب شدیدگرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ھوئے تھے اور 2 ونڈو ائیر کنڈیشنر فل آب تاب کےساتھ چل رھے تھے۔
اور صاحب کو سردی بھی محسوس ھورھی تھی. میں نے کہا کہ جناب ایک A/C بند کر دیں تاکہ بل کم آئے گا تو صاب بہادر بولے، "اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے۔
کالج اور یونیورسٹی تک ان کی محبت پروان چڑھتی رہی مگر پھر اچانک راستے جدا ہوئے ۔
کالج ری یونین تقریب میں دونوں ملے ۔ بات چیت میں پتا چلا کہ پروفیسر خاتون چار سال پہلے 65 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں۔
جب کہ خود پروفیسر بھی ستر سال کی عمر میں پانچ سال پہلے رنڈوے ہوئے تھے۔
موقع غنیمت جان کر پروفیسر صاحب نے پوچھا:
“کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتی ہیں ؟”
خاتون پروفیسر نے کچھ لمحے توقف کے بعد ہاں کر دی۔
دو دن گزر گئے تو پروفیسر صاحب کو خیال آیا کہ میں نے تقریب میں شادی کا پوچھا تھا - - تو خاتون نے ہاں کہا تھا یا ناں۔۔
کافی دیر تک یاد نہ آنے پر خاتون کو فون کیا اور شرماتے جھجھکتے پوچھا:
میں نے آپ کو شادی کا پروپوزل دیا تھا مگر اس عمر میں یاداشت چلی گئی اور یاد نہیں آ رہا آپ نے ہاں کہا تھا یا ناں؟
میانوالی کے ایک بزرگ پیر سید شاہ کا واقعہ۔
65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کیلیےبہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھےوالدصاحب نےمجھے زاد راہ دےکروہاں بھیجا کہ کم ازکم بھائی کے بیوی بچوں کومیانوالی لے آو وہ سمجھتے تھے کہ میانوالی جنگی اثرات سےمحفوظ رہے گا۔
میں ان دنوں فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا بھائی صاحب کہنے لگے والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔ میں اور میرا خاندان پوری طرح محفوظ ہیں اگر ایسا ہوا تو میں ایسا ہی کروں گا۔
تم اب آ ہی گئے ہو تو دوتین دن رکو اور پھر واپس چلے جانا واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے فرسٹ کلاس ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دےکر قدم بڑھا چکی تھی بھاگم بھاگ ایک ڈبے کاڈنڈا پکڑ کرسوار ہوا کہ اگلے سٹیشن پر درست جگہ ڈھونڈھ لوں گا
اسلام جتنا آسان دین ہے کوئی شک نہیں انسانی بنیادی جبلت پر دستک دیتا ہے اور فطرت انسانی ہے لیکن Critical Analysis کریں تو انہیں آسانیوں میں بے حد مشکلات بھی پنہاں ہیں۔بختیار کاکی رحمتہ علیہ جب فوت ہوئے تو وصیت پڑھی گئی جنازہ میں کہ میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے گا جس نے تمام عمر۔
جھوٹ نہ بولا ہو تہجد کا باپند ہو وغیرہ تو وقت کا شہنشاہ روتے ہوئے نماز جنازہ کیلیے آگے ہوا اور ساتھ کہتا گیا کہ استاد محترم مجھے عیاں کردیا حضور صلی اللہ جب بیمار ہوئے کسی کی جرات نہ ہوتی نماز پڑھائیں جب تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کو کہا نہ گیا اسلام میں مولوی نہیں اصول یہ ہے۔
شہر کا امیر و کبیر شخص امامت کرے اگر پاک باز ہے کہ اس میں بہت بڑا فلسفہ ہے ہم نے جان چھڑانے کیلیے یہ عہدہ بنایا ہے اسلامی حکومت میں خلیفہ امامت اور شہروں میں گورنر یہ فریضہ انجام دیتے آج حریم شاہ اور اسی جیسی اور رمضان میں ہمیں وعظ و نصیحت کریں گی کہاں گئے ہمارے اسلامی اقدار۔
ڈسکہ کاالیکشن کےچند اسباق سوال اور جواب۔عمران خان اُمید کی کرن تھا باقی سب آزمائے ہوئے تھے اور چور یہ بڑی حقیقت تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنی جس میں کلیدی کردار عمران خان کی شخصیت محنت کردار اور سوشل ورک کے کام تھے جن کو ایک ساتھ ملا کر وہ کرشمہ ساز شخصیت بنی اور وہ مرشد بنتے گئے
ایک کمزور حکومت کی کرسی نصیب ہوئی اور مسائل کے انبار کا سامنا تھا جو وہ بار بار اپنی تقاریر میں قوم کو بتاتے رہتے ہیں کنٹینر کے پرجوش اور الف لیلوی داستان کے قصے بھی لوگوں کو یاد تھے اور وہ کسی معجزے کے منتظر کہ عمران خان کے پاس الہ دین کا چراغ ہوگا چشمے دریا دودھ شہد کی نہریں۔
بیانیہ کہ مافیا کو نہیں چھوڑنا اور میں ہی مرد میدان ہوں کسی کو نہیں چھوڑوں گا بات صحیح لیکن ان کو ادراک تک نہ ہوا کہ میری کرسی کی بنیاد میں مافیا والوں کا ہی کسی حد تک ہاتھ ہے وعدے قسمیں اہداف سب بھول گئے کہ جادو ممکن نہ تھا ( خود ان کا بیان کہ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں حکومت کی)